نواز لیگ والے آج کل سخت پریشان ہیں، ان میں سے کئی رو دھو رہے ہیں اور کچھ نے تو باقاعدہ چیخ و پکار شروع کر رکھی ہے کہ ان کی پارٹی اور محبوب قائد کے خلاف کوئی بہت بڑی سازش ہو گئی ہے۔ میں جب ان سے اس کی تفصیلات پو چھتا ہوں تو آہیںبھرتے اور سسکیاں لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اسٹیبلمشنٹ اور زرداری صاحب نے مشترکا سازش کرتے ہوئے شہباز شریف کو وزیراعظم بنادیا ہے اورا س کے نتیجے میں مسلم لیگ نون غیر مقبول ہو گئی ہے جبکہ عمران خان دوبارہ مقبول ۔ آپ تو جانتے ہیں کہ مجھے اپنے پٹواری دوستوں سے بہت ہمدردی ہے اور میں نے ہمیشہ ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آواز بلند کی ہے اور اب بھی میرا دل اس سازش پر پھٹ کر رہ گیا ہے۔ بات یہا ں تک ہی نہیں کہ سازش ہو ئی ہے بلکہ اس سازش کا جناب عمران خان کو بھی پتا چل گیا ہے اور انہوں نے بھی ایک جلسے میں کہہ دیا ہے کہ زرداری ، نواز لیگ کو پھنسا کے خود مزے لے رہا ہے یعنی یہ وہ نکتہ ہے جس پر پٹواری اور عمران خان دونوں ایک ہی طرح سوچ رہے ہیں۔
مجھے میرے دوست بھولے نے بتایا ہے کہ اس کے محبوب قائد نواز شریف بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے بھائی کو وزیراعظم بناکے اور ان کی پارٹی کو جیلوں سے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا کے مقتدر حلقوں اور پیپلزپارٹی نے سخت قسم کی سازش کی ہے اور اب بھی سازش جاری ہے کہ شہباز شریف کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا لہذا وہ فوری انتخابات کے حامی ہیں۔ میں نے سوال کیا کہ شہباز شریف کو کون کام نہیں کرنے دے رہا تو جواب ملا کہ آپ نہیں دیکھ رہے کہ سپریم کورٹ کس قسم کے سوو موٹو نوٹس لے رہی ہے، ایسے حالات میں کون کام کر سکتا ہے۔میں بہت سارے دنو ں سے ایسی باتیں سن رہا ہوں اور میرادل دکھ سے بھرا ہو ا ہے کہ کتنے معصوم سے لوگوں کو کیسے چالاک لوگوں نے بے وقوف بنا کے وفاق اورپنجاب میں حکومتیں دے دی ہیں حالانکہ بہت پرانی بات نہیں جب یہی لوگ جیلوں میں ہوا کرتے تھے اور عمران خان ایوان وزیراعظم میں ۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ اگر عمران خان وزیراعظم رہتے تو اگلے انتخابات میں وہ فل ان پاپولر ہوچکے ہوتے اور اس وقت ووٹروں کے تاحد نظر طویل قافلے نکلتے جو صرف شیر پر مہریں لگاتے اوراس کے نتیجے میں ان کے محبوب قائد نواز شریف تمام عدالتی فیصلے پاؤں تلے روندتے ہوئے فاتحانہ انداز میں ایوان وزیراعظم میں پڑے ہوئے بڑے سے تخت پر براجمان ہوجاتے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے تھے کہ نواز شریف اپنی بیٹی کے ساتھ اپنی بیمار بیوی کو چھوڑ کر پاکستان واپس لوٹ آئیں تو الیکشن جیت جائیں گے۔ پٹواری اس پر دلیل دیتے ہیں کہ اگر شہباز شریف ان کی وطن واپسی پر جلوس لے کر لاہور ائیرپورٹ پہنچ جاتے تو ائیرپورٹ کی دیواریں گر جاتیں، سیکورٹی فورسز کے دستے ان لیگیوں سے شکست کھا جاتے اور نواز شریف وہاں سے جیل کی بجائے وزیراعظم ہاؤس پہنچ جاتے۔
چلیں چھوڑیں، ماضی کو رہنے دیں، پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا، اب اگر میرے پٹواری بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے خلاف بہت بڑی سازش ہو گئی ہے تو ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے قائد کے ساتھ مل کر سوشل میڈیا پر مہم چلائیں کہ شہباز شریف حکومت چھوڑ دیں ، وہ چاہیں تو اسمبلیاں توڑ دیں اور نئے الیکشن کی طرف چلے جائیں جو اس وقت عمران خان کا سب سے بڑا مطالبہ ہے۔ میں پورا یقین رکھتا ہوں کہ جو لوگ بیانئیے کی جنگ میں عمران خان کا مقابلہ نہیں کر سکے وہ انتخابی مہم میں بھی نہیں کر سکیں گے لہٰذا انتخابات کا اعلان عمران خان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی، اخلاقی بھی اور سیاسی بھی ۔ میرا مشورہ اس سے بھی آگے کا ہے کہ اگر وہ واقعی اپنی حکومت کو سازش اور ناکامی سمجھتے ہیں تو اسے ریورس کر دیں،یہ سازش اور ناکامی عمران خان کے حوالے کر دیں یعنی حکومت اور اپنی قیادت کو فوری طور پرجیل میں بھیج دیں۔پٹواری ، عمران خان صاحب سے معذرت بھی کریں کہ انہوں نے زرداری صاحب کے ہاتھوں بے وقوف بن کے ان کی حکومت گرائی کہ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ حکومت چلانا اتنا مشکل کام ہے ۔ جب حکومت عمران خان کے پاس چلی جائے گی تو پھر وہ ناکام ہو ں گے اور پٹواری کامیاب۔ یہ کامیابی اس وقت مزید شاندارہوجائے گی جب عمران خان شہباز شریف ہی نہیں بلکہ مریم نواز کو بھی دوبارہ جیل میں ڈالیں گے اور پھر سرکاری وسائل پرانتخابی مہم بھی چلائیں گے۔ مجھے ایک پٹواری نے روتے ہوئے کہا کہ زرداری نے ہمیں حکومت میں پھنسوا دیا جبکہ عمران خان فارغ ہو کے مزے سے جلسے کر رہا ہے۔ میں پٹواریوں کی ذہنی صلاحیت کا کم و بیش اتنا ہی مداح ہوں جتنا کہ یوتھیوں کی لہذا انہیں مشورہ ہے کہ وہ فوری طور پر جہاں پھنسے ہوئے ہیں وہاں سے نکلیں اور پھر اس کے بعد مزے سے جلسے کرتے رہیں۔
پٹواریوں کی سیاسی جماعت دنیا کی واحد سیاسی جماعت ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ ان کی قیادت جیلوں میں ہے یا جلاو طن ہے تو وہ بہتر ہے لیکن اگر ان کی پارٹی کا صدروزیراعظم بن گیا ہے تو یہ ان کے خلاف سازش ہوگئی ہے۔ اب مجھے یہ بالکل علم نہیں کہ پٹواریوں کی سیاسی جماعت کو پرفارم کرنے سے کون روک رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح سپریم کورٹ نے ان کے خلاف سوو موٹو نوٹس لینے شروع کئے ہیں اس طرح تو کام نہیں ہوسکتا تو پھر ان کے لئے جواب ہے کہ پاکستان میں تو اسی طرح کی سیاست ہوسکتی ہے اور اگر نہیں کرنی تو پھر وہ بھی اپنے قائد کی طرح لندن چلے جائیں او رموجیں ماریں۔ جب آپ جنگل میں جائیں گے تو شیر کا تو ڈر ہو گا اور اگر آپ شیر سے ڈرتے ہیں تو پھر جنگل میں ہی نہ جائیں۔ پٹواری اس سے بھی ڈرتے ہیں کہ اگر پٹرول کی قیمتیں بڑھائیں تو تحریک انصاف شور مچائے گی تو اس کا جواب بھی وہی ہے کہ حکومت عمران خان کو دے دیں، وہ پٹرول کی قیمت بھی بڑھا لے گا اور بجٹ بھی دے لے گا۔ آپ سخت فیصلے نہیں کر سکتے تو نرم فیصلہ کریں اور اقتدار کے کانٹوں بھرے بستر سے اپوزیشن کے نرم و نازک گدے پر منتقل ہوجائیں۔
مجھے یہ بتانے میںعار نہیں کہ اس وقت نواز شریف کا بھی وہی موقف ہے جو مقتدر حلقوں اور عمران خان کا ہے کہ فوری انتخابات، نواز شریف کا یہ موقف کیوں ہے وہ کسی سیاسی تجزیہ کار کی سمجھ میں نہیں آ سکتا کہ اس وقت مسئلہ ملک کا ہے جو شدید ترین معاشی بحران کا شکار ہے اور اس اقتصادی بحران کے خاتمے کا طریقہ یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت کم ہو، ڈالر کی قیمت کم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ سخت فیصلے ہوں، سخت فیصلوں کے لئے ضروری ہے جلد انتخابات کا خوف نہ ہواور حکومت مدت پوری کرے تو ایسے میں نواز شریف لندن سے فوری الیکشن کے لئے دباو کیوں ڈال رہے ہیں، وہ شہباز شریف کو ناکام کرنے کے ایجنڈے پر کیا عمران خان کے اتحادی ہیں، کیا وہ بھی چاہتے ہیں کہ شہباز شریف ناکام ہوں؟
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.