قلم وقرطاس اور استاد وتلمیذ

57

باہمی ہم خیال وہمدم دوست بڑی نعمت ہیں۔ مل بیٹھ کر تبادلۂ خیالات اور باہمی مزاج پرسی کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔ اردو زبان کے مایہ ناز شاعر ذوق نے کہا تھا:
ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خضر سے
چند روز قبل ایک بزرگ علمی شخصیت اور مشفق دوست اپنی روایت کے مطابق مسکراتے چہرے کے ساتھ تشریف لائے اور دعا سلام کے بعد فرمانے لگے: ’’جناب عالی! آپ کو تو میں سیرت نگار اور مدرسِ قرآن و حدیث ہی سمجھتا تھا، مگر کل خوشگوار حیرت ہوئی کہ آپ تو بہت اچھے افسانہ نگار بھی ہیں…‘‘ میں نے عرض کیا: ’’حضور! آپ کی محبت ہے ورنہ میں کیا اور میرے افسانے کیا۔‘‘ انھوں نے میری کتاب ’’سربکف سربلند‘‘ کے ایک ایک افسانے کے بارے میں جو تنقیدی تجزیہ پیش کیا، اسے سن کر مجھے مزید خوشگوار حیرت ہوئی کہ اتنی مصروفیات کے باوجود موصوف نے کیسے یہ کام کر لیا۔
قبل اس کے کہ میں کچھ کہتا، بولے: ’’بھئی یہ تو بتائیں کہ اس فیلڈ میں کب، کیوں اور کیسے چھلانگ لگائی۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ دور طالب علمی سے یہ شوق تھا اور اس دور میں میرے افسانے ادبی پرچوں بالخصوص ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ وغیرہ میں چھپتے بھی رہے۔ جس کتاب کا آپ نے تذکرہ فرمایا ہے یہ تو چوتھا اور آخری مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ’’دخترکشمیر‘‘، ’’سرسوں کے پھول‘‘ اور ’’ناقۂ بے زمام‘‘ بھی چھپ چکے تھے۔ یہ سن کر کہنے لگے ’’اتنا وقت صرف کیا تو ذہن میں کیا تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’آپ اسی کتاب کا پیش لفظ دیکھ لیتے تو بات واضح ہو جاتی۔
اگر کوئی شخص افسانے کو محض عیش و طرب اور وقت گزاری کے لیے پڑھتا یا لکھتا ہے تو یہ کار لاحاصل ہے۔ اگر افسانہ نگار کا کوئی نظریہ ہے، چاہے وہ سچا ہے یا جھوٹا اور وہ اس کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے قلم اٹھاتا ہے تو یہ بہرحال ایک معقول کاوش اور عقل و شعور کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ ہم اس بحث میںنہیں پڑ رہے کہ درست کیا ہے اور غلط کیا؟ ہر شخص اپنے نظریے کو ہی درست قرار دیتا ہے اور اس کا اسے حق بھی ہے۔ درست اور غلط کا حقیقی فیصلہ ایک دن یقینا ہونا ہے۔
محترم آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں کہ افسانوں کے بارے میں کچھ لوگوںکا خیال ہے کہ ان میں نظریات کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔ میں اس نقطہ نظر کا کبھی حامی نہیں رہا۔ میرے نزدیک انسان کو اپنے آئیڈیل کے حصول کے لیے عملی جدوجہد بھی کرنی چاہیے اور قلم وزبان سے بھی اس کی تصویر کشی کر کے لوگوں کو اس کی جانب متوجہ کرنا چاہیے۔ افسانہ اگرچہ فرضی واقعات و کردار پر مشتمل ہوتا ہے مگر وہ افسانہ میرے نزدیک مردہ اور لاحاصل تحریر ہے جس میں معاشرے کے حقیقی واقعات کی عکاسی نہ کی گئی ہو۔ حقیقی ادب عملی زندگی کا عکاس ہوتا ہے۔ حضرت میری بات کاٹ کر فرمانے لگے: ’’آپ نے عنوان بھی اچھوتا رکھا ہے جو افسانوں کی دنیا میں عموماً متداول نہیں۔‘‘
ان افسانوں میں جتنے بھی کردار آپ کو نظر آئیں گے وہ کسی نہ کسی پہلو سے جدوجہد کر رہے ہیں، کوئی نہ کوئی مقصد حاصل کرنا ان کے پیش نظر ہے۔ اس کے لیے جو بھی وسائل ان کومیسر ہیں انھیں استعمال کرتے ہیں۔ کٹھن اور مشکل حالات میں تھک بھی جاتے ہیں، مگر ہمت کر کے پھر اٹھتے ہیں اور اپنے مقصد کی لگن سینے میں سجائے منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔ محترم پروفیسر امان اللہ خاں آسی ضیائی مرحوم نے کتاب کے تعارف میں جن خیالات کااظہار کیا ہے، میں ان کی اس قدرافزائی کے لیے زندگی بھر ان کا شکرگزار رہا ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اپنے آ پ کو اس میدان کا مبتدی ہی سمجھتا ہوں۔
کچھ نوجوان سوال کرتے ہیں کہ افسانے چوںکہ فرضی واقعات پر مشتمل ایک کہانی کی صورت میں پیش کیے جاتے ہیں اس لیے یہ تو جھوٹ ہوا۔ یوں ان کا لکھنا اور پڑھنا کیا گناہ کے زمرہ میں نہیں آتا؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے اور اس پر کافی لوگوں نے غوروخوض بھی کیا ہے اور اس کا جواب بھی دیا ہے۔ میں اپنی طرف سے جواب دینے کے بجائے یہاں اپنی یادداشت سے چند واقعات عرض کرتا ہوں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس سوال کا صحیح جواب کیا ہے؟
کب، کیوں اور کیسے؟ یہ ۱۹۶۳ء کی بات ہے۔ میں اس وقت کالج کے پہلے سال میں تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک تھا۔ ایک تربیت گاہ میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب تشریف لائے۔ ان کا پروگرام شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ ہم چند طالب علم ان کے پاس خاطر تواضع کے لیے بیٹھے تھے۔ تربیت گاہ شادباغ میں ہو رہی تھی، جہاں مربی حضرات کو حاجی محمد رفیق اشرفی صاحب کی لائبریری میں تواضع کے لیے بٹھایا جاتا تھا۔ لائبریری میں کئی ایک موضوعات پر متنوع قسم کی کتابیں پڑی تھیں، جن میں افسانوں کی کچھ کتابیں بھی تھیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے کرشن چندر کے افسانے وہاں سے اٹھائے اور ورق گردانی شروع کر دی۔ مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ مولانا جیسا مفسر قرآن اور عالم دین افسانوی ادب کی ورق گردانی کر رہا ہے۔
میں نے مولانا سے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ افسانوں کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے۔ میرا یہ سوال سن کر مولانا میری جانب متوجہ ہوئے اور میرے چہرے پر نظریں گاڑتے ہوئے فرمایا: ’’آپ کو افسانوں کا شوق ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’کچھ زیادہ نہیں کبھی کبھار کوئی افسانہ پڑھ لیتا ہوں۔‘‘ کہنے لگے ’’اصناف ادب میں افسانہ نہایت مؤثر ذریعہ اظہار ہے اور اچھے افسانہ نگار معاشرے کی اصلاح کے لیے بہت موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘‘  مولانا کی طویل گفتگو میں سے مختصر الفاظ میں ان کا مفہوم بیان کیا گیا ہے ورنہ مولانا نے افسانوی ادب کے بارے میں دس پندرہ منٹ کی نشست میں بہت علمی اورادبی گفتگو کی۔ پروفیسر صاحب پکار اٹھے ’’واہ، واہ، واہ! بہت خوب!‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ میں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے سوال کیا تھا کہ ادب میں مختلف اصناف ہیں جن کو ترقی پسند اور بائیں بازو کے ادیب خوب استعمال کر رہے ہیں۔ کیا افسانوی ادب میں ہمیں بھی طبع آزمائی کرنی چاہیے۔ مولانا نے جو جواب دیا اس کا مفہوم مجھے آج تک یاد ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ ادب انسان کو مہذب بنانے کا ذریعہ ہوتا ہے اور ہر قوم کا ادیب اور شاعر اگر اس قوم سے مخلص ہے تو اسے قوم کی تہذیب و اقدار کی حفاظت کے لیے اپنا قلم استعمال کرنا چاہیے۔ اسلامی اقدار کو شاعری اورادب کی دیگر اصناف میں اچھے انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں شعر کی طرح افسانہ بھی قلمی جہاد کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ دونوں بزرگ دینی علوم کے مرجع اور سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قرآن و سنت اور اسلامی نظریۂ حیات پر ان کی تحریریں آنے والی نسلوں کے لیے صدیوں تک رہنمائی کا کام کرتی رہیں گی، ان کا ویژن بہت وسیع تھا اور وہ زندگی کے تمام معاملات کو تعمیری نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس لیے افسانے نہ لکھنے کے باوجود افسانوی ادب کے بارے میں انھوں نے جس رائے کا اظہار فرمایا وہی قرین صواب اور قلب و ذہن کو اپیل کرنے والی ہے۔ میں نے میاں طفیل محمد مرحوم سے ایک مرتبہ پوچھا: ’’میاں صاحب، آپ کا افسانوں کے بارے میں کیاخیال ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا ’’میں افسانہ زیادہ پڑھتا تو نہیں ہوں، مگر افسانہ اور ناول جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ مخصوص نظریات کے پرچار کا بہترین ہتھیار ہے۔‘‘
پروفیسر صاحب نے ساری گفتگو توجہ سے سنی اور پھر کثیر المطالعہ ہونے کی وجہ سے اردو کے علاوہ انگریزی، فرانسیسی اور روسی ادیبوں کی کئی کتابوںکا تذکرہ فرمایا۔ شاید میری دل جوئی کے لیے میرے کئی افسانوں کو ان عالمی شہرت کے حامل افسانہ نگاروں کے بعض افسانوں سے مشابہہ بھی قرار دیا۔ یہ تو ان کی محبت ہے ورنہ سچی بات یہ ہے کہ میرے قلم و تصور اور فکر و نظر کی رسائی ان ادیبوں سے کہاں لگا کھا سکتی ہے۔
پروفیسر صاحب کے سوال یوں جاری تھے جیسے میرا زبانی امتحان (Viva) لے کر مجھے پاس اور فیل کرنے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں، میں نے عرض کیا : ’’سربکف، سربلند‘‘ دراصل ان بیشتر کہانیوں پر مشتمل ہے جو وقتاً فوقتاً گھر میں چھوٹے بچوں کو سنائی گئی تھیں۔ بعد میں یہ کہانیاں کیسٹ میںریکارڈہوئیں۔ پھر ردوبدل کے بعد ان کو مختلف رسالوں کو بھیجا گیا، جہاں یہ شائع ہوئیں۔ گھر میں ٹی وی کا نہ ہونا میرے نزدیک ایک نعمت ہے، مگر بعض اوقات یہ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ پروگرام ایسے ہوتے ہیں جنھیںدیکھنا وقت کے تقاضوں کے باعث ضروری ہو جاتا ہے۔ گھر میں ٹی وی نہ ہونے کی کمی کو دور کرنے کے لیے بچوں کو کہانیاں سنانا ایک اچھا مشغلہ بھی ہے اور اس سے ان کی تربیت کرنے کا موقع بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
پروفیسر صاحب نے فرمایا: ’’آپ کو مولانا مودودیؒ کا ایک مکتوب پیش کروں گا، جس میں افسانوی ادب پر بہترین رہنمائی دی گئی ہے۔‘‘ اس خط کا انتظار ہے۔ یہ پروفیسر صاحب کون ہیں؟ آپ ابھی انتظار فرمائیں۔

تبصرے بند ہیں.