آج کل حکومت پاکستان کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور اقتدار کی کچھ معاشی تباہیوں کا رونا ٹیلی وژن پر بار بار چلنے والے ایک اشتہار کے ذریعے خوب رویا جا رہا ہے۔ میں ’’حساب‘‘ کا آدمی نہیں میں کتاب کا آدمی ہوں۔ سو مجھے نہیں معلوم حکومت پاکستان اپنے اس اشتہار میں خان صاحب کے دور کی معاشی تباہی کے جو اعداد و شمار پیش کر رہی ہے وہ کتنے درست ہیں؟ دوسری طرف خان صاحب اپنے ہر جلسے میں لوگوں کو یہ بتا رہے ہوتے ہیں۔ جب انہیں اقتدار ملا معاشی لحاظ سے ملک مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ اسے پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے انہوں نے بڑی محنت کی جس کے نتیجے میں ملک میں معاشی استحکام آیا۔ ہمیں کم از کم اس حوالے سے ان کی ’’محنت‘‘ کا اعتراف ضرور کرنا چاہئے کہ انہوں نے بڑی محنت سے تین وزرائے خزانہ بدلے۔ اگر وہ مزید اقتدار میں رہتے تین وزرائے خزانہ انہیں شاید مزید بدلنا پڑ جاتے۔ میں کوئی ماہر معاشیات نہیں مگر ایک عام آدمی کے طور پر میں یہ محسوس کرتا ہوں ان کے تینوں وزرائے خزانہ کسی ایسی کارکردگی یا اہلیت کا مظاہرہ نہیں کر سکے جس کے بدلے میں عوام کو کوئی ایسا بڑا ریلیف ملا ہو جس کا ذکر آج خان صاحب اپنے ہر جلسے میں کر کے لوگوں سے خراج تحسین وصول کرتے۔ ہم تو اسے بھی خان صاحب کی بہت بڑی مہربانی اور قربانی ہی سمجھتے ہیں کہ وزارت خزانہ کہیں انہوں نے اپنے پاس نہیں رکھ لی ورنہ ’’روٹی‘‘ چوکوں میں لٹکا دی جاتی اور عوام سے کہا جاتا دن میں دو دو مرتبہ آ کر اسے چاٹ لیا کریں۔ وہ اپنے جلسوں میں بس ادھر ادھر کی مارتے ہیں۔ روزانہ ایک ہی طرح کی باتیں سن سن کر لوگ اس لئے نہیں اکتاتے کہ لوگوں کے پاس اب سوائے پی ٹی آئی کے جلسوں میں شرکت کے کوئی اور ’’تفریح‘‘ رہ ہی نہیں گئی۔ ایک طرف کوئی سنجیدہ فلم چل رہی ہو، جس میں اخلاقیات کا کوئی سبق ہو ، معاشرے کے حقیقی مسائل کو فلمایا گیا ہو۔ اس کے مقابلے میں کوئی ’’کامیڈی شو‘‘ یا عریاں فلم چل رہی ہو تو ظاہر ہے جس طرح کا ہمارے لوگوں کا مزاج ہے وہ کامیڈی شو یا عریاں فلم ہی دیکھیں گے۔ مجھے یاد ہے بہت سال پہلے بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی زندگی پر ایک فلم بنی تھی۔ وہ لاہور کے میٹروپول سینما میں لگی۔ اس سینما کے قریب ہی ایک ڈرامہ تھیٹر تھا جس میں نرگس ، امان اللہ اور ببوبرال کا کوئی ڈرامہ چل رہا تھا۔ قائداعظمؒ کی زندگی پر بننے والی فلم دیکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ دس بارہ افراد ہی آتے تھے اور ان کی حالت بھی ایسی ہوتی تھی جیسے فلم ساز نے خود انہیں ٹکٹوں کے پیسے دیئے ہوں۔ اس کے مقابلے میں کامیڈی شو کا بہت بڑا تھیٹر فل ہوتا تھا۔ اس کی ٹکٹیں ایک ایک ہفتہ پہلے بک کروانا پڑتی تھیں۔ قریب ہی مون لائٹ سینما تھا جہاں عریاں فلمیں چلتی تھیں وہ بھی ’’ہائوس فل‘‘ ہوتا تھا۔ اس کی ٹکٹوں کی بکنگ بھی ایک ایک ہفتہ پہلے کروانی پڑتی تھی۔ خان صاحب کے جلسوں میں ہر طرح کی ’’رنگینیاں‘‘ اگر نکال دی جائیں۔ ناچ گانے وغیرہ ختم کر دیئے جائیں۔ خواتین اور لڑکیوں پر پابندی لگا دی جائے کہ وہ بغیر میک اپ شرکت کریں گی۔ خان صاحب اپنی تقریروں میں سنسنی پیدا کرنے کے بجائے صرف سچ بولنا شروع کر دیں، تو ان کے جلسے بھی آہستہ آہستہ ناکام ہونے لگیں گے۔ ممکن ہے اس کے بعد انہیں بھی بریانی اور قیمے والے نانوں کا سہارا لینا پڑ جائے جس کے لئے ایک بار پھر جہانگیر ترین اور علیم خان کی ضرورت پڑ جائے۔ لوگ خان صاحب کی باتوں کو بڑا انجوائے کرتے ہیں۔ وہ خان صاحب کو اپنے جیسا ہی سمجھتے ہیں۔ خان صاحب جب ریاست مدینہ کی بات کر رہے ہوتے ہیں درمیان میں اچانک کوئی گانا وانا چل جاتا ہے خان صاحب کو ریاست مدینہ کی بات روکنا پڑ جاتی ہے لوگ ان کے اس عمل پر بڑا خوش ہوتے ہیں، جھومتے ہیں ، خوشی سے تالیاں بجاتے ہیں۔ وہ جب ڈٹ کر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں تب بھی وہاں موجود لوگوں کو یہی محسوس ہوتا ہے وہ ان ہی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ جلسوں کی شان بڑھانا خان صاحب کو خوب آتا ہے۔ اس مقصد کے لئے وہ ہر چوتھے روز کوئی نہ کوئی ایسا ’’دلچسپ بیانیہ‘‘ اپنا لیتے ہیں جو اگلے دو چار روز خوب بکتا ہے۔ اقتدار ختم ہونے کے فوراً بعد انہوں نے امریکی مراسلے کا ’’چورن‘‘ بیچنا شروع کیا۔ کچھ عرصے بعد انہیں اندازہ ہوا یہ چورن اب مزید نہیں بکے گا۔ اگر ان کی حکومت واقعی امریکہ نے ختم کی انہیں چاہئے ایک جلسہ یا جلسی امریکی سفارتخانے کے باہر جا کر بھی کر لیں۔ یا کم از کم اتنا ہی کر لیں امریکہ شہریت کے حامل کچھ خواتین و حضرات جو ہر وقت ان کے اردگرد رہتے ہیں انہیں حکم دیں احتجاجاً امریکی شہریت فوری طور پر وہ ترک کر دیں۔ حکومت ان کی امریکہ نے ختم کی اور غصہ وہ اپنے کچھ اداروں پر نکال کر سیدھا سیدھا یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں پاکستان کا ہر ادارہ امریکی غلامی میں ہے۔ اب انہوں نے ایک نیا چورن مارکیٹ میں اپنے قتل کی سازش کا متعارف کروا دیا ہے۔ کچھ روز بعد وہ کوئی اور شوشا چھوڑ دیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں وہ پاکستان کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ اللہ ہمیشہ انہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ وہ برطانیہ میں مقیم اپنے بچوں اور پاکستان میں مقیم اپنے ’’کیڑوں مکوڑوں‘‘ کے سر پر ہمیشہ سلامت رہیں۔ مگر جو ’’بیانیہ‘‘ اپنی جان کو خطرے کا اب انہوں نے اپنا لیا ہے میرے خیال میں اب ان کی سکیورٹی وزیر اعظم اور آرمی چیف کی سکیورٹی سے زیادہ ہونی چاہئے۔ اس کے علاوہ جن جن اہم شخصیات کو یہ خدشہ ہے خان صاحب کی اپنی جان کو خطرے کے حوالے سے ریکارڈ کروائی جانے والی وڈیو میں ان کا نام بھی ہو سکتا ہے ان سب کو بھی خان صاحب کی سکیورٹی کا الگ سے بندوبست کرنا چاہئے۔ حکومت کو کم از کم آئی جی رینک کا ایک پولیس افسر ان کی سکیورٹی کے لئے وقف کرنا چاہئے۔ دوسری طرف افواج پاکستان کو بھی چاہئے پوری ایک ’’کور‘‘ مع ان کے پسندیدہ ’’کمانڈر‘‘ ان کی سکیورٹی پر مامور کر دے۔
اللہ نہ کرے اب وہ اگر طبعی موت کا شکار بھی ہو گئے اس کا الزام بھی حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ پر ہی لگنا ہے لہٰذا حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو فوری طور پر موت کے فرشتے سے رابطہ کر کے اس کی منت سماجت کرنی چاہئے کہ خان صاحب کو تاقیامت زندہ رہنے دیا جائے۔ خان صاحب کو بھی چاہئے وہ بار بار یہ مت کہیں ’’جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں آ سکتی‘‘۔ کہیں یہ نہ ہو حکومت ان کی اس بات یا اس قول کو سنجیدگی سے لے کر بیٹھ جائے اور ان کے سکیورٹی میں کسی سستی کا مظاہرہ کر دے۔ ہمارے ایٹم بم کی حفاظت کے لئے جو عملہ مقرر ہے اس کا آدھا عملہ بھی اب خان صاحب کی سکیورٹی کے لئے وقف کیا جانا چاہئے۔ خان صاحب کسی ’’ایٹم بم‘‘ سے کم ہیں؟ بس ایک خدشہ ہے وہ کہیں اپنے ہی ملک پر نہ چل جائیں!!!
Next Post
تبصرے بند ہیں.