شعبہ صحت بنام شہباز شریف

62

دعویٰ توخان صاحب کایہ تھا کہ وہ سڑکیں نہیں بنائیں گے بلکہ صحت، تعلیم وغیرہ پر خرچ کر کے قوم بنائیں گے مگر ساڑھے تین برس سے زائد کے عرصے میں انہوں نے صحت کا شعبہ اپنے کزن نوشیرواں برکی کے حوالے کئے رکھا جنہوں نے اس شعبے کی بنیادوں میں ڈائنامائیٹ فٹ کر دئیے، جس طرح خان صاحب کی حکومت نے معاشی شعبے میں تباہی مچائی اسی طرح میڈیکل ایجوکیشن اور میڈیکل پروفیشن کا سچ مچ میں کچومر نکال دیا۔پامی ( پاکستان ایسوسی ایشن آف میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایسوسی ایشن) نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر صحت عبدالقادر پٹیل کو چھ صفحوں پر مشتمل ایک خط تحریر کیا ہے جسے ہیلتھ کے حوالے سے سابق حکومت پرایک وائیٹ پیپر قرار دیا جا سکتا ہے۔
صحت کے شعبے کی تباہی کے کئی باب ہیں جیسے ادویات کا ایک، ایک ہزار فیصد تک مہنگا ہوجانا، جیسے پنجاب جیسے صوبے میں ڈاکٹروں کی ایڈہاک سیٹوں کا سات سات لاکھ روپوں تک میں بکنا، جیسے درجنوں ہسپتالوں کے اوپر قائم مقام ایم ایس لگا کر خوشامد اور کرپشن کے بازار گرم رکھنا، جیسے لوکل پرچیز کے نام پر سروسز سمیت ہر ہسپتال میں کروڑوں روپوں کی ادویات کی غیر قانونی اور جعلی خریداری یعنی مجموعی طور پراربوں کاخوردبرد و غیرہ وغیرہ مگر اس کی تباہی کی بنیاد پی ایم ڈی سی جیسے پرانے، آزمودہ اور منتخب ادارے کی جگہ پی ایم سی کے قیام سے رکھی گئی جس میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے پیاروں کو بھرتی کیا جن کا صحت کے شعبے سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، اس کا سربراہ اسے بنایا گیاجسے میڈیکل ایجوکیشن اور مینجمنٹ کا کوئی تجربہ نہیں اور اس کی کمانڈ ایسے شخص کو دے دی گئی جو ایک وکیل ہے۔ میں نے سپریم کورٹ بار کے ایک عہدے دار سے پوچھا، کیا تم پاکستان یا پنجاب بار کونسل میں کسی ڈاکٹر کو قبول کر لو گے، وہ ہنسا اوربولا، کمال کرتے ہو ، اگرامام کعبہ بھی وکیل نہیں ہیں تو وہ کسی بارکونسل کے عہدے دار نہیں بن سکتے مگر یہاں اسلام آباد کی بیکریاں چلانے والوں کو ملک بھر کے صحت کے ادارے چلانے کا ٹاسک دے دیا گیا۔ میں یہ بات ہوائی اور فرضی نہیں کر رہا بلکہ اس پراسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے جس میں پی ایم سی کے عہدے داروں کو اقربا پروری قرار دیا گیا۔حکومت شروع میں آرڈی ننس لائی اور پھر قانون، سچ تو یہ ہے کہ اس قانون کا قومی اسمبلی سے پاس ہونا ممکن ہی نہیں تھا مگر یہاں جوائنٹ سیشن میں جب بہت سارے قوانین کا جھٹکا کیا جا رہا تھا تو صحت کے شعبے کو بھی ذبح کر دیا گیا۔
جناب وزیراعظم، یہ تباہی کی ایسی داستان ہے کہ اس پر ایک نہیں درجنوں ماتم لکھے جا سکتے ہیں جیسے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں میں داخلے کا امتحان متعلقہ یونیورسٹیوں سے لے کر ایک ایسی کمپنی کے حوالے کر دیا گیا جس کے پاس عطائی ہونے کا تجربہ بھی نہیں تھا، اس نے ملک کے لائق ، ذہین اور محنتی ترین بچوں کے ساتھ امتحان میں وہی کیا جو اناڑی قصائی عید پر بکروں کے ساتھ کرتے ہیں۔ہمارے ہزاروں لائق بچے آج بھی رو رہے ہیں کہ انہیں کرپٹ طریقے سے لائی گئی دو نمبر کمپنی نے فیل کر دیا جو میڈیکل کا امتحان پورا ایک ماہ تک لیتی رہی۔ اس کی فیس صرف چھ سو روپے تھی جو لوٹ مار کے لیے چھ ہزارکر دی گئی اور پھر اس پر کسی بچے کے لئے آسان پیپر اور کسی کے لئے مشکل۔ نہ کوئی سیکریسی اور نہ کوئی معیار۔ حتیٰ کہ شرمناک طریقے سے نتائج اور نمبر تک تبدیل کئے گئے ۔ میں جب آپ کے نوٹس میں یہ لا رہا ہوں تو ایک مرتبہ پھر ایم ڈی کیٹ ہونے والا ہے، ایک مرتبہ پھر میرٹ اور ذہانت کا قتل ہونے والا ہے، ایک مرتبہ پھر ان بچوں کی چیخیں نکلنے والی ہیں جنہیں ہم سوسائٹی کی کریم کہہ سکتے ہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں معاشی میدان میں فوری فیصلے کئے جائیں وہاں صحت کے میدان میں لگی ہوئی اس آگ کو فوری طور پر بجھایا جائے۔پی ایم سی کی نااہل قیادت کی وجہ سے ڈینٹل کالجز کی بارہ سوسیٹیں خالی رہ گئیں، آپ کی فیملی بھی شریف میڈیکل کالج چلا رہی ہے، اس کے پرنسپل کو بلا کر پوچھ لیں کہ خالی سیٹیں رہ جانا صرف ادارے کا نہیں پوری قوم کا نقصان ہے ۔بات ایم ڈی کیٹ کی ہی نہیں بلکہ نیشنل لائسنسنگ ایگزام کی بھی ہے اور جو آپ کی ان یونیورسٹیوں کے تدریسی اور امتحانی نظام کی ساکھ زیرو کرتا ہے، وہ ساکھ جس کا مشرق وسطیٰ سے یورپ اور امریکا تک احترام کیا جاتا ہے اور آپ کا ڈاکٹر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔
جناب وزیراعظم، یہی لوگ ایم ٹی آئی لے آئے، وہ ایم ٹی آئی جس نے خیبرپختونخوا کے سرکاری ہسپتالوں کی ایسی تیسی پھیر دی او روہاں غریبوں کا داخلہ بند کر دیا۔ یہ درست ہے کہ صحت کارڈ موجود ہے مگر صحت کارڈ اس وقت چلتا ہے جب آپ ہسپتال میں داخل ہوں اور ہمارے نوے ، پچانوے فیصد مریض باقاعدہ طور پرداخل نہیں ہوتے مگر وہ سرکاری اداروں کی حالت کی وجہ سے ایک عذاب میں ضرور پہنچ جاتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کچھ سرکاری لوگوں نے صحت کارڈ پر بہت واہ واہ کی ہے مگر مجھے آپ کے نوٹس میں لانا ہے کہ لاہور کے کئی ہسپتال ایسے ہیں جو مریضوںکے صحت کارڈ خالی کر کے انہیں باہر نکال دیتے ہیں اور پھر وہ خوار ہوتے رہتے ہیں، یہ کرپشن کی عجیب وغریب کہانی ہے۔ اگر ایم ٹی آئی اتنا ہی کامیاب ہے تو آپ میرے ساتھ کبھی چلڈرن ہسپتال چلئے گا او ردیکھئے گا کہ وہاں اپنے پیارے پیارے معصوم بچوں کا علاج کروانے والوںمیں آدھے سے زیادہ خیبرپختونخوا کے لوگ ہیں کیونکہ وہ وہاں کے سرکاری ہسپتالوں کے اخراجات بھی برداشت نہیں کر سکتے۔آپ صحت کے شعبے کی کرپشن بارے جب اعداد و شمار جمع کریں گے تو آپ لاہور والی گوگی خان کو بھول جائیں گے۔ میر ا خیال ہے کہ صحت کے شعبے میں جو مال بنایا گیا ہے وہ عثمان بزدار والی گوگی سے کم از کم سو گنا زیادہ تو ہو گا، تحقیق کروا لیجئے۔
جناب وزیراعظم، کیا آپ یقین کریں گے کہ وہ ینگ ڈاکٹرز جو دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے پہلے نسخے پر لکھ کر دیتے تھے کہ دوائی دو وقت کھاؤ اور بلے پر مہر لگاؤ، وہ سب کے سب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج رہے، انہوں نے لاٹھی چارج اور آنسو گیسیں برداشت کیں، ان پر واٹر کینن اور بکتر بند گاڑیوں سے حملے ہوئے، وہ حوالاتوںا ور جیلوں میں پہنچے تو ان کے دماغ ٹھکانے آئے جیسے آپ کے دور میں وائے ڈی اے کے صدر حامد بٹ، انتہائی جارح قیادت، اب وہ وائے سی اے کے صدر ہیں اور آپ کے پکے حامی ۔ ڈاکٹروں کو بہت شوق تھا کہ ان کا وزیر کوئی ڈاکٹر ہو اور حال یہ ہے کہ ابھی دو روز پہلے ڈاکٹریاسمین راشد اپنے کسی مریض کے لئے جناح ہسپتال پہنچیں تو وہاں ڈاکٹروں نے ان کے خلاف احتجاجی بینرز لگا رکھے تھے جن کو دیکھ کر وہ سخت بدمزہ ہوئیں۔ سو یہ درست ہے کہ اس وقت آپ کے سامنے معیشت اور سیاست کے بہت سارے اہم مسائل ہیں مگر آپ کچھ وقت نکالئے، چاہے تو بلاول بھٹو زرداری سے پوچھ لیجئے جنہوں نے ان تما م باتوں کے خلاف احتجاج پر خود ڈاکٹروں سے رابطے کر کے انہیں تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی یا آپ خواجہ سلمان رفیق اور خواجہ عمران نذیر سے پوچھ لیجئے، صحت کا شعبہ آپ کی فوری توجہ کا منتظر ہے۔ پہلے مرحلے میں پی ایم سی میں ڈاکٹروں کا ، صرف میرٹ پر ڈاکٹروں کا تقرر کیجئے، وہاں سے مفادات کے ٹکراؤ والے نکالئے اور دوسرے مرحلے میں پی ایم سی کے قانون کو درست کیجئے، کیا یہ بھلی بات ہے کہ وکیلوں اورانجینئروں کی کونسلیں وکیل اور انجینئر چلائیں اور ڈاکٹروں جیسے اہم ترین شعبے میں کیک پیسٹری اور فیشن انڈسٹری کے لوگ بیٹھے ہوں، ان کی وجہ سے ڈر ہے، میرے منہ میں خاک، کہیں پاکستان کی ڈاکٹروں کی ڈگریاں بین الاقوامی طور پر مسترد ہی نہ کردی جائیں، جلدی کیجئے، وقت بہت کم ہے۔

تبصرے بند ہیں.