کرا چی پھر دہشت گردی کے نشا نے پر

13

قارئین کرام کو یاد ہو گا جب کراچی یونیورسٹی کے گیٹ پر ایک خاتون خودکش بمبار نے خود کو اڑا لیا تھا۔ اس تکلیف دہ واقعہ کو بمشکل ایک ہفتہ گزرا تھا کہ کراچی کے مصروف کاروباری علاقے صدر میں بم دھماکے کے نتیجہ میں ایک شخص جاں بحق جبکہ تیرہ افراد زخمی ہو گئے، چھ سے زائد گاڑیاں تباہ، جبکہ املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق دھماکہ خیز مواد سائیکل کے پیچھے کیریئر میں نصب تھا۔ بم دو سے اڑھائی کلو وزنی اور دیسی ساختہ تھا۔ بم میں بال بیئرنگ استعمال کیے گئے۔ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات کا جنم لینا انتہائی خطرناک ہے۔ اگر اس طرح کے مزید واقعات رونما ہوتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دشمن ہمارے ملک کے اہم ترین معاشی و تجارتی شہر میں خوف و ہراس پیدا کر کے ملکی معیشت کا پہیہ جام کرنا چاہتا ہے۔ درحقیقت ملک بھر میں ماہِ جنوری سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر افسوسناک اور ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ اخبارات کی فائلیں اُٹھا کر دیکھ لیجئے، ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے ملک کے چھوٹے، بڑے تقریباً تمام شہروں میں رونما ہوئے ہیں جن کے نتیجے میں متعدد قیمتی جانوں کا زیاں ہو چکا ہے۔ پہلے ایسے واقعات کا سلسلہ زیادہ تر خیبر پختونخوا کے جنوبی اور قبائلی اضلاع تک ہی محدود تھا۔ ایسے میں سوال اُٹھ رہا ہے کہ ان واقعات میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی لہر جن لے رہی ہے جس کے دوران ملک کے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں 2017ء کے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہو چکی تھی۔ اس کا اندازہ اعداد و شمار کی مدد سے لگایا جائے تو ساؤتھ ایشیا ٹیرر ازم پورٹل کے مطابق 2013ء میں پاکستان میں دہشت گردی کے تقریباً چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020ء میں کم ہو کر 319 رہ چکے تھے۔ ان میں سے بھی کئی واقعات ایسے تھے جن میں کالعدم تحریک طالبان، القاعدہ جیسے شدت پسند گروہوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ ملک میں موجود دہشت گردوں کی کارروائیوں کا دائرہ کار انتہائی محدود ہو چکا ہے اور دہشت گرد گروہ ملک بدر کر دیئے گئے ہیں۔ اس دورانیے میں ایسی رپورٹس موصول ہوئیں کہ کالعدم تحریک طالبان کے زیادہ تر اراکین افغانستان فرار ہو چکے تھے اور کئی جیلوں میں قید ہیں۔ اگلے تین سال میں پاکستان میں ان کی واپسی ہوئی جسے بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ اس کا ایک اظہار پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کی شکل میں بھی ہوا۔ گزشتہ برس اگست میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور اس کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی ایک ایسا واقعہ ہے جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔ سکیورٹی صورتِ حال کے تناظر میں اس تبدیلی کا تعلق ایسے گروہوں سے تھا جن کے بارے
میں پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ گروپ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان میں دو مختلف آرا پائی جاتی تھیں۔ حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی دائمی ہے یا وقتی۔ اس سوال سے قطع نظر یہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کے خاتمہ بلکہ افغانستان میں امن و استحکام کی بحالی کے لیے بھی عالمی اور علاقائی فورموں پر بھرپور کردار ادا کیا اور امریکہ اور طالبان کے مابین امن مذاکرات بھی یقینی بنائے۔ پاکستان کے اس موثر کردار کی بنیاد پر ہی امریکی نیٹو فورسز اور ان کے شہریوں کے لیے افغانستان سے پُرامن واپسی ممکن ہوئی جس کے بعد طالبان کو بغیر کسی مزاحمت کابل تک پہنچنے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جب طالبان حکومت پر عائد امریکی پابندیوں کے باعث افغانستان میں انسانی بحران کا آغاز ہوا تو پاکستان نے اس بحران سے نکالنے کے لیے بھی طالبان حکومت کے حق میں علاقائی اور عالمی فورموں پر آواز اُٹھائی اور عالمی سطح پر کانفرنسوں کا بھی انعقاد کیا مگر طالبان نے اس کا صلہ پاک افغان سرحد پر لگائی گئی باڑ اکھاڑ کر دیا۔ اس طرح جن پتوں پر تکیہ تھا وہی پاکستان کو ہوا دیتے نظر آئے۔ جبکہ طالبان حکومت کے ذمہ دار افراد نے پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کیا۔ طالبان حکومت کی اسی آشیرباد نے بھارتی دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے اور یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے کا نادر موقع فراہم کیا۔ اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں بطور خاص پاکستان کی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، وہ طالبان کے دور میں بھی افغانستان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی کا تسلسل برقرار رکھنے کا ہی شاخسانہ ہے۔ جس طرح افغان سکیورٹی فورسز کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر متعدد بار بمباری کی گئی ہے اور جنوبی وزیرستان میں پاکستان سکیورٹی فورسز کے قافلے پر دہشت گردوں کی جانب سے حملے کیے جا رہے ہیں اس سے آنے والے دنوں میں افغان سرحد کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کو مزید خطرات لاحق ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہمارے دشمن بھارت کو بھی یقینا طالبان حکومت کی اس مخاصمانہ پالیسی کے باعث ہی اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے اور یہاں دہشتگردی کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے کا نادر موقع مل رہا ہے اس لیے افسوس ناک واقعات پر محض افغان ناظم الامور کو طلب کر کے انہیں رسمی احتجاجی مراسلے تھمانا ہی کافی نہیں بلکہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو افغان اعلیٰ قیادت سے اس سلسلے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے پر بات چیت کرنا چاہیے۔ طالبان پر واضح کیا جائے کہ اگر ان کے پاس دہشت گردوں کو روکنے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں تو پھر پاکستان از خود آگے بڑھ کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ یہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کا مسئلہ ہے جس سے کسی بھی طور صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت بھارت اپنے اندرونی معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہا ہے لیکن ان منفی ہتھکنڈوں سے اسے پہلے کچھ ملا اور نہ ہی آئندہ ملے گا۔ بھارت کو چاہیے کہ اپنے اندرونی معاملات کو درست کرے اور مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں سے جو نفرت روا رکھی جا رہی ہے، اسے دور کرے۔ پاکستان کے دشمن آسان ٹارگٹ تلاش کرتے رہتے ہیں۔ آرمی پبلک سکول کے بدترین سانحہ کے بعد ریاست، حکومت، سیاسی و سماجی رہنماؤں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف متفقہ ایجنڈا بنایا گیا تھا۔ یہ متفقہ ایجنڈا آج بھی موجود ہے اور یہی دہشت گردی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد ریاست و حکومت کی ذمہ داری ہے۔ گڈ اور بیڈ طالبان کی تفریق کے بغیر تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں کرنا ہوں گی۔

تبصرے بند ہیں.