قومی معیشت اور عمران خان کی سیاست

17

پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے سیاست عدم استحکام، معاشرتی بے راہ روی، عدم برداشت کے کلچر کا فروغ، عمران خان کی ایوانِ اقتدار سے رخصتی کے بعد انتقامی سیاست و عدم رواداری اور ایسے دیگر معاملات نے ہمارے قومی مسائل میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے لیکن سب سے خطرناک معاملہ قومی معاشی ابتری اور بظاہر لاینحل معاشی مسائل خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کر رہے ہیں عمران خان نے اپنے 44 ماہی دور اقتدار میں نہ صرف سیاست اور معاشرت کو بلکہ قومی معیشت کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں سے اس کی فوری واپسی ممکن نظر نہیں آتی ہے۔ن لیگی و اپوزیشن جماعتوں کی حکومت درمیانی مدت میں ان مسائل کو حل کرتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے پھر ایسے ماحول میں جب عمران خان جوشِ انتقام میں بپھرے ہوئے، موجودہ حکومت کو گرانے کے لئے یکسو ہو چکے ہیں وہ اپنے فالوورز کو بھی سول نافرمانی اور ایجی ٹیشن پر اکسا رہے ہیں۔ بے یقینی کی صورت حال پیدا کر رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اور معاشی عدم یقینی کے باعث مجموعی معاملات پر ناامیدی اور نامرادی کی دبیز تہہ چڑھی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
قومیں شکست اس وقت کھاتی ہیں جب وہ ہمت ہار جاتی ہیں۔ وسائل کی کمی مشکلات میں اضافہ، دشمن کی فوج کشی، قدرتی آفات اور وبائیں، قوموں کو تباہ نہیں کرتیں ہمارے سامنے تاریخ میں بہت سی مثالیں ہیں جنگ عظیم دوم میں خوفناک تباہی ہوئی۔ کروڑوں انسان ہلاک ہوئے، زخمی ہوئے، اپاہج ہوئے لیکن جنگ کے خاتمے کے بعد سب اقوام تندہی سے تعمیرنو میں لگ گئیں۔ تباہ حال یورپ، پہلے سے زیادہ خوشنما، ترقی یافتہ خطہ ارض کی صورت میں ہمارے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ایٹمی حملوں نے تو اس قوم کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا جنگ میں مکمل شکست کے بعد، شکست نہیں مانی۔ جاپان کی تعمیرنو کا آغاز ہوا اور بہت جلد جاپانی اقوام عالم میں ایک کامیاب و کامران قوم کے طور پر سامنے آئے۔
پاکستان بلاشبہ مشکلات کا شکار ہے ہر سطح پر، ہر شعبے میں مشکلات ہیں لیکن جس قدر ذہنی و عملی بے یقینی پھیلائی جا رہی ہے وہ یقینا پریشان کن ہے۔ عمران خان 22 سال تک حکمرانوں کے خلاف مصروفِ جہاد رہے انہوں نے حکمرانوں کی ’’کارکردگی‘‘ کو پاکستان کے مسائل کی جڑ قرار دیا، بری کارکردگی میں کرپشن کو اولین عنصر قرار دے کر وہ قوم کو ’’ایماندار اور قابل‘‘ قیادت کے ذریعے مسائل حل کرنے اور پاکستان کو ’’ریاست مدینہ‘‘ بنانے کے عزم کا اظہار کرتے رہے۔ 2011 تک انہیں بہت زیادہ پذیرائی نہ مل سکی حتیٰ کہ بڑوں کی نظر ان پر پڑی اور پھر 2018 میں انہیں بڑے تزک و احتشام کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں بٹھایا گیا۔ ریاست کے تمام ستون عمران خان کی حکمرانی کو سہارنے اور آگے بڑھانے میں جٹ گئے۔ ن لیگی قیادت کو عدالتی فیصلے کے ذریعے جیل بھجوا دیا گیا۔ باقی قیادت کو نیب اور ایف آئی اے
کے سپرد کر دیا گیا۔ عمران خان حکومت کو ’’کلین سویپ‘‘ دیا گیا لیکن انہوں نے ساڑھے تین سال کے دوران ملک کو سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے پست ترین مقام تک پہنچا دیا پھر جب انہیں قانونی اور آئینی طور پر چلتا کیا گیاتو ان کی نالائقی، نااہلی تو ایک طرف ان کا جذبہ انتقام عروج پر پہنچا ہوا نظر آ رہا ہے وہ ہر شے کو برباد کرنے پر تلے بیٹھے ہوئے ہیں اپنے حواریوں کو مرنے مارنے کے لئے تیار رہنے کی کالیں دے رہے ہیں۔ان کی پوری سیاست ’’انکار اور انتشار‘‘ پر مبنی ہے اور اب وہ اسے نقطہ عروج یعنی ’’خونی‘‘ بنانے پر تلے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سردست وہ اپنی حکمت عملی میں کامیاب نظر آ رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت کی کمزوری کا تاثر قائم کر دیا ہے رواں ماہ کے آخر میں لانگ مارچ اور دھرنے کی کال کے ذریعے وہ حکومت کو ناکام بنانے میں بڑی یکسوئی اور مستعدی کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب اور حلف برداری کے حوالے سے تحریک انصاف و حواریوں کا کردار انتہائی شرمناک رہا ہے اور اب گورنر پنجاب کی رخصتی و نئے کی تقرری کے حوالے سے صدر کا کردار کسی طور بھی ان کی پوزیشن کے شایان شان نہیں ہے وہ صدر مملکت کے بجائے تحریک انصاف کے ایک ’’ادنیٰ کارکن‘‘ کا طرز عمل اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں جبکہ حکومت کی بے بسی کا تاثر پختہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے سعودی عرب سے 8 ارب ڈالر، امارات سے 10 ارب ڈالر جبکہ چین سے 28 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے حاصل کر لئے ہیں انتہائی قلیل عرصے میں یہ بہت بڑی کامیابی ہے جس کے باعث قومی معیشت میں بہتری کی امید پیدا ہو سکتی ہے لیکن اس سب کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی معاملات درست سمت میں آگے بڑھیں۔ ایسے نہیں جیسے عمران خان تندی و تیزی سے معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف لے جا رہے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.