وزیر اعظم شہباز شریف مختلف محکموں کی بریفنگز میں معترض ہوئے کہ کسی بھی سیکٹر میں بر وقت فیصلے کیوں نہ لئے گئے؟ تو ان پر یہ رازآشکار ہوا کہ ملک کے اداروں میں گزشتہ کافی عرصہ سے اہم فیصلے نہ کرنے یا فوری طور پر نہ کرنے کا غیر تحریری فیصلہ ہو چکا ہے ،اسی وجہ سے انرجی سیکٹر جمود کا شکار رہا،مہنگائی بڑھی اور دیگر اہم اصلاحات بھی نہ ہو سکیں،وزیر اعظم سمجھ گئے کہ یہ سب نیب اور کئی دوسرے اداروں کے خوف کی وجہ سے ہے۔وہ خود بھی نیب کا شکار ہوئے اور ان کے ارد گرد ان کے ہمنوا سینکڑوں لوگ بھی اسی آگ میں جلتے رہے ،دہائی دیتے رہے، ان کی طرف سے اور ان کے موجودہ اتحادیوں کی طرف سے بھی نیب کے مظالم کا ذکر بار بار ہوتا رہا۔
ہمارے دوست اور انتہائی محنتی بیوروکریٹ احد خان چیمہ نے بھی نیب کو ایک بار پھر ایکسپوز کر دیا ہے ،کہتے ہیں نیب سے ڈرنا نہیں کام کرنا ہے مگر ہمارے جیسے ملک میں کوئی ان جیسے اداروں سے کب تک لڑے گا ، کب تک کام کرے گا ، نیب سے بچنے کیلئے ایک ہی راستہ ہے کہ سرکاری دفاتر بند کر دئے جائیں اور کاروبار کسی اور ملک میں جا کر کر لیا جائے،نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری ۔ پاکستان میں انصاف حکومت کے دور میں جب جب کسی کو نیب کا شکار بنایا گیا ،ہر ایک پر ایک ہی وہی گھسا پٹا ،آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام لگا ،میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اس الزام میں آپ دودھ پیتے بچے کو بھی گرفتار کر لیں گے تو وہ بھی شائد اپنا بچاو ٔنہ کر سکے،وہ بھی نہیں بتا سکے گا کہ ماں کا دودھ تو تھوڑا پیا مگر زیادہ صحت مند کیسے ہو گیا؟
کرپشن کسی بھی ملک، ادارے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے کرپشن زدہ ممالک میں صرف سرکاری خزانہ ہی خالی نہیں ہوتا بلکہ قومی معیشت، صنعت، زراعت، امن و امان، عدل و انصاف یہاں تک کہ سول سوسائٹی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی و خوشحالی کی ایک وجہ کرپشن کے سوراخ بند کرنا بھی ہے کرپشن کے خاتمہ میں سخت ترین سزائیں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں، پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں حکومتی سطح پر کرپشن کا آغاز ہوا ،اور اسی دور میں کرپشن کے تدارک کے لئے اقدامات بھی شروع کئے گئے۔ ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف بھی کرپشن کا الزام عائد کر کے کیا تھا مگر حکومت کی برطرفی کے بعد معاملہ ٹھپ ہو گیا یہی برائی کی اصل جڑ ثابت ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف نے بھی احتساب کا ادارہ قائم کیا جسے مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا ، جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں احتساب بیورو کے نام سے ادارہ قائم کیا مگر احتساب کا یہ قانون کرپشن کے خاتمہ یا کمی کے بجائے سیاسی انتقام کا ذریعہ بن گیا، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایک دوسرے کے خلاف اس قانون کا بے جا استعمال کیا مگر کرپشن ختم تو کیا کم بھی نہ ہوئی۔
تحریک انصاف حکومت نے کرپشن کا خاتمہ اور قومی لٹیروں کا احتساب اپنے منشور کا بنیادی جز بنایا، بڑے طمطراق سے احتسابی عمل شروع کیا انکوائریاں، مقدمات، ریفرنسز، گرفتاریاں ہونے لگیں مگر نتیجہ صفر، اگرچہ نیب نے عوام سے دھوکہ دہی سے رقوم اینٹھنے اور نچلی سطح پر کرپشن کے کچھ کیسوں میں کامیابی حاصل کی ورنہ بڑے کیسوں میں نامزد افراد سے کیا برآمد ہو ا۔تحریک انصاف کا نیا پاکستان شرفاء خاص طور سیاستدانوں اور بیورو کریسی کیلئے عذاب کی شکل اختیار کیے رہا ، عمر، عہدہ، خدمات کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے صرف اس جرم میں اعلیٰ بیوروکریسی کے دیانتدار، اہل، تجربہ کار افسروں کو گرفتار کیا گیا کہ وہ سابق حکمرانوں کے بہت قریب تھے یا اہم منصوبوں میں ان کو معاونت فراہم کرتے رہے، حکومتی شخصیات سے قربت کوئی گناہ نہیں اوراگر منصوبوں میں کسی قسم کی بے ضابطگی، بدعنوانی ہوئی تو گرفتاری سے قبل انکوائری کی جاتی اور جس نے اس کا زبانی یا تحریری حکم دیا تھا اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی۔
نیب حکام مگر جانے کس کو راضی کرنے کے لئے ملزم کو مجرم بناتے رہے، کئی کئی ماہ جیل میں ڈالے رکھا جسمانی ریمانڈ لیا گیا مگر اتنے طویل عرصہ کے بعدبھی ریفرنس دائر کئے نہ مقدمہ کا چالان عدالت میں پیش کیا گیا،اس کے باوجود روزانہ ایک نت نئی لسٹ نیب جاری کرتا اور ان کو مجرموں کی طرح ٹریٹ کرتا اور لسٹ والے شریف لوگ منہ چھپاتے پھرتے۔
کیا کیا مثالیں دیں سینئر بیوروکریٹ سلیما ن غنی کو ضعیف العمری کے باوجود گرفتار کیا گیا وہ ایک ناکردہ گناہ کی سزا بھگتتے رہے، عدالت سے رجوع کرنے پر نیب ان کے خلاف کوئی ثبوت اور گواہ نہ پیش کر سکا اور سلیمان غنی کو ضمانت پر رہائی مل گئی، ایسا ہی سلوک فواد حسن فواد ،احد چیمہ اور بے شمار بیوروکریٹس کے ساتھ روا رکھا گیا ۔ دونوں کے خلاف کرپشن الزامات کے انبار لگائے گئے مگر کسی جرم کا ثبوت اور گواہ پیش نہ کیا گیا، پنجاب کی 56 کمپنیوں کا کیس ابھی ادھورا ہے مگر فواد حسین فواد اور ان کے اہل خانہ نے جو ذہنی اذیت برداشت کی اس کا ازالہ کرنے کو کوئی تیار نہیں۔احد چیمہ کو شاید تین سال قید میں رکھا گیا اور یہ بھی مینج کیا جاتا رہا کہ دونوں کی ضمانت بھی نہ ہو سکے۔
ابھی تک تمام بڑی سیاسی جماعتیں احتساب قوانین پر معترض ہیں ،سابق وزیر اعظم عمران خان اس قانون میں ترمیم کی بات کو این آر او کا نام دیتے رہے ،اب شائد انہیں نیب کی چیرہ دستیوں کا اندازہ ہونا شروع ہو چکا ہو گا،سابق خاتون اول کی دوست فرح کا کیس ان کے لئے نیب کا ایک تحفہ ہے ۔اسی طرح ن لیگ اور پیپلزپارٹی اپنے ادوار میں نیب قانون کا غلط استعمال ایک دوسرے کے خلاف کرتے رہے تب انہیں اس قانون میں ترمیم کا خیال تک نہ آیا کہ دونوں ذہنی آسودگی اور سیاسی مفادات حاصل کرتے تھے، سابق حکومت نے اس حوالے سے تاجروں، بیوروکریٹس، سیاستدانوںکے اعتراضات کے بعد پہلے صدارتی آرڈی نینس کے ذریعے ترمیم کی پھر اسے واپس لے کر اسمبلی کے ذریعے قانون سازی کا عندیہ دیا۔
سپریم کورٹ بھی نیب حکام، اداروں کی کارکردگی، طریقہ کار پر سوال اٹھا چکی ہے، ہمارے ہاں سب سے بری روایت نچلی سے اوپری سطح تک یہ ہے کہ جس پر الزام عائد کیا جائے اپنی بے گناہی کے ثبوت لانا بھی اس کی ذمہ داری قرار پاتی ہے، تھانوں، کچہریوں میں بھی اسی روایت پر عمل ہوتا ہے حالانکہ الزام دہندہ کو اپنے الزام کے حق میںثبوت پیش کرنے کا ذمہ دار ہونا چاہئے، مگر یہاں الٹا پہیہ گھوم رہا ہے اور عرصہ دراز سے ایسا ہو رہا ہے۔ بیورو کریسی کسی بھی ریاست کا اہم ستون ہوتی ہے، ریاست کا اگر اس پر اعتماد نہ ہو تو ایسی بیوروکریسی کسی کام کی نہیں رہتی،وقت آ گیا ہے کہ حکومت نیب کو ختم کرنے کا فوری فیصلہ کرے اور ہر ادارے کے قوانین کو بہتر بنایا جائے تاکہ کرپشن شروع ہونے سے پہلے ہی پکڑی جا سکے،ورنہ اس ملک میں ترقی و خوشحالی کا خواب دیکھنا حماقت ہو گی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.