قومی حکومت۔۔۔؟؟

31

کہتے ہیں بغیر کسی ’’مداخلت‘‘ کے جمہوری عمل کے ذریعے ملک میں ایک حکومت گئی اور دوسری آ گئی۔ مرکز میں شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان اور پنجاب میں ان کے فرزند حمزہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔ مرکز میں بارہ تیرہ پارٹیوں کی اور پنجاب میں تین جماعتوں کی مخلوط حکومت بھی بن تو گئی لیکن کمزور معیشت، عالمی کساد بازاری اور بے یقینی کی وجہ سے استحکام ندارد اور لگتا ہے ریت مٹھی سے نکلتی جا رہی ہے۔۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی شہباز سپیڈ کے باوجود حالات کی نزاکت سمجھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو ملک کو اس گرداب سے نکالنے کی دعوت دے چکے ہیں۔ فی الوقت کچھ سیاسی پارٹیاں اپنی باقی ماندہ مدت پوری کرنے اور کچھ قبل ازوقت اتتخابات کا ڈھول پیٹ رہی ہیں۔ لیکن ڈوبتی معیشت اور آئندہ آنے والے گمبھیر مسائل کو دیکھتے ہوئے ان مسائل کا حل قومی حکومت ہی ہے جس میں تمام پارٹیاں اپنا ایجنڈا بھول کر پاکستان کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔ اگر قبل ازوقت انتخابات کرا بھی دیے جاتے ہیں تو ان سے سوائے حکومت کی تبدیلی کے اور کیا حاصل ہو سکے گا۔ اگر انتخابات سے معیشت بہتر ہوتی ہے تو آج کے بجائے ابھی کرا لیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو ’’میں‘‘ چھوڑ کر ’’ہم‘‘ یعنی پاکستان کے ایجنڈے پر آنا پڑے گا۔ سٹیٹ بنک کے اعداد و شمار دیکھیں تو زرمبادلہ کے ذخائر 11.31 ارب ڈالر ہیں۔ اس کے علاوہ نجی بنکوں میں یہ ذخائر 6 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ مانگے تانگے کے اور ادھار لیے گئے فکسڈ ڈیپازٹس (تقریباً 9 ارب ڈالر) اصل ڈیپازٹس سے کہیں بڑھ گئے ہیں۔ آنے والے وقت میں ہمیں ان میں سے نصف سے زائد قریباً 6 ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کرنا ہے۔ فکسڈ ڈیپازٹ سخت ترین شرائط پر دیے گئے جو جب چاہیں واپس لیے جا سکتے ہیں اور عدم ادائیگی کی صورت میں ڈیفالٹ ڈکلیئر کرنے کی شرط بھی شامل ہے۔ امپورٹ بڑھ رہی ہیں اور ایکسپورٹ کم ہو رہی ہیں۔ اشیا ضروریہ کی قیمتیں آسمان تک پہنچ رہی ہیں، خارجہ محاذ بھی غیر یقینی کا شکار ہے، اندرونی محاذ بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ بجلی، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بھی بڑھانا پڑیں گی۔ بھاری غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی بھی سر پر ہے یہ سب کچھ کسی مخلوط حکومت کے بس میں نہیں اور ان مسائل کے حل کے لیے سب سیاسی جماعتوں کو اپنی انا چھوڑ کر اکٹھا ہونا پڑے گا۔ اس نیک کام میں عدلیہ سمیت ان اداروں کو بھی آگے آنا پڑے گا جو کہ خود کو ’’غیر جانبدار‘‘ اور سیاست سے ماورا ہونے کی دعویدار ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی آپسی اختلافات سے بالاتر ہو کر پاکستان کے لیے اکٹھا ہونا پڑے گا۔
گو کہ قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے لیکن ان حالات میں حکمران اتحاد کے لوگ بھی بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اپنی حکومت کی باقی ماندہ حکومت پوری کرنے کا کہہ رہے ہیں جبکہ اسحاق ڈار، رانا ثنااللہ اور دیگر اکتوبر تک عام انتخابات کی نوید سنا رہے ہیں۔ ہر ایک کے پاس اپنی دلیل ہے مدت پوری کرنے کا کہنے والے اس عرصے میں عوام کے لیے کچھ ریلیف کا دعویٰ کر رہے ہیں تا کہ انتخابات میں تیاری کے ساتھ جایا جائے۔ جبکہ قبل ازوقت انتخابات کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ملک کی ڈوبتی معیشت کے پیش نظر روزمرہ کی اشیا کی مہنگائی، عالمی مالیاتی اداروں سے سخت شرائط پر معاہدے و قرضوں کا حصول اور نتیجتاً پٹرول، ڈیزل اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے سے سارا بوجھ مخلوط حکومت پر پڑے گا جس کی قیمت آئندہ انتخابات میں حکومتی اتحاد کو دینا پڑے گی۔
قبل از وقت انتخابات کی سب سے پہلے آواز جمعیت علما اسلام کے مولانا فضل الرحمان نے اٹھائی اور عمران خان حکومت جانے کے بعد اور اتحادی حکومت بننے کے بعد بھی قبل ازوقت انتخابات کے حامی ہیں۔ ان کے بیٹے اور کچھ پارٹی اراکین کو حکومت میں عہدے دے کر بظاہر خاموش کرا دیا گیا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ انہیں آج تک مخلوط حکومت سے کچھ نہ ملا اور آج بھی وہ قبل از وقت انتخابات کے حامی ہیں۔ مخلوط حکومت کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ ن بھی قبل از وقت انتخابات پر تقسیم ہے۔ رہ گئی پیپلز پارٹی تو اس کی پنجاب، بلوچستان یا خیبر پختونخوا میں سیاسی حیثیت مضبوط نہیں اور اس کا سارا اثر اور زور صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں تک ہے اس لیے وہ قبل ازوقت انتخابات کے حق میں نہیں۔ وہ باقی وقت میں سندھ میں ترقیاتی کام کر کے بچی کھچی ساکھ بحال کرنا چاہتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حکومتی اتحاد قبل ازوقت انتخابات کے بارے میں تقسیم ہے۔
ملک میں سیاسی رواداری کا بھی شدید فقدان ہے۔ دھرنوں، جلسوں اور لانگ مارچ کے ماحول میں قوم مزید تقسیم ہو رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان اس بحران سے نکلنے کے لیے قومی حکومت یا کوئی ایسا حل نکالیں جس سے سیاسی کشیدگی کم ہو اور معیشت کی بحالی کے لیے بھی سب یکجا ہوں۔ لیکن اس سب کے لیے ’’میں‘‘ کو چھوڑ کر ’’ہم‘‘ پر آنا پڑے گا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا پڑے گا۔
کالم کے بارے میں اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کریں۔

تبصرے بند ہیں.