مفتی پوپلزئی سے مکالمہ

51

سچ تو یہ ہے کہ بحیثیت ایک حقیر، فقیر اور پرتقصیر مسلمان ، میں ہر عالم دین کے جوتے سیدھے کرنے کو باعث عزت و شرف سمجھتا ہوں مگر یہاں معاملہ میرے صحافی ہونے کا ہے، سوال پوچھنا جس کا فرض ہے سو اسی لئے عید کا ایک مرتبہ پھر پورے ملک سے پہلے اعلان کرنے پر محترم المقام مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے سوال پوچھے، پوچھا ، کیا وجہ ہے کہ آپ کے لوگوں کو شوال کا چاند ہر مرتبہ ہی رمضان کی انتیسویں شب نظر آجاتا ہے، میں نے صرف ایک مرتبہ آپ لوگوں کو تیس روزے کرتے ہوئے دیکھا جب آپ عمرے پر گئے ہوئے تھے۔ میرا سوال یہ بھی تھا کہ رویت ہلال کمیٹی تمام مسالک کے پندرہ جید علما پر مشتمل ہے اور عوام الناس کی طرح آپ کو بہرحال یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہئے کہ وہاں صرف مولوی ہی چاند دیکھتے ہیں، وہاں محکمہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، سپارکو، محکمہ موسمیات اورمذہبی امور سمیت چار محکموں کے گریڈ بیس کے ٹیکنوکریٹس ( ماہرین) ہوتے ہیں۔ وہ سب کے سب شہر کی سب سے اونچی بلڈنگ کی چھت پر بڑی بڑی دور بینیں لگا کے چاند کو تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ بات صرف مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی نہیں ہے بلکہ صوبائی کمیٹیاں اپنی جگہ پر موجود ہیں، ان کمیٹیوں میں بھی تمام مسالک کے علما اور افسران موجود ہیں اور پھر ضلعی کمیٹیاں ہیں۔ کرا چی میں اب جدید ترین الیکٹرانک ٹیلی سکوپ بھی موجود ہے اور جب ان سب کو چاند نظر نہیں آتا تو آپ کے لوگوں کو کیسے نظر آجاتا ہے؟
مفتی شہاب الدین پوپلزئی کہتے ہیں کہ وہ تمام علما اور کمیٹیوں کا احترام کرتے ہیں مگر وہ سائنس کو اہمیت نہیں دیتے، فرماتے ہیں کہ وہ اسلام کی بنیاد پر چاند تلاش کرتے ہیں اوراس کے لئے وہ اپنے بندوں کی تربیت کرتے ہیں، پانچ سو کو کہتے ہیں تو دس بارہ توضرور چاند دیکھتے ہیں۔ بصدا حترام ، مجھے ان کی بات میں کئی جھول نظر آتے ہیں۔ پہلا جھو ل تویہ ہے کہ ہم سب سے نے چاند کو بنانا اور تراشنا نہیں بلکہ اس کا ظہور ہونے کے بعد اسے دیکھنا ہے سو چاند چڑھے کا تو سب دیکھیں گے ، یہ ممکن نہیں کہ مولانا کے حامیوں کو نظر آجائے اور دوسروں کو نظر نہ آئے۔ دوسرے کیا اسلام اور سائنس میں کوئی تفاوت اور اختلاف ہے اور رویت ہلال کمیٹی والے کون سا کرسمس یا ہولی کا چاند دیکھ رہے ہوتے ہیں، وہ اسلام کا ہی کام کررہے ہوتے ہیں۔ میں اسلام کو دین فطرت سمجھتا ہوں اور پورا ایمان رکھتا ہوں کہ فطرت کے تمام مظاہرجو سائنس سے ثابت ہوتے ہیں وہ اسلام سے تضاد میں نہیں جاتے۔ میں نے رویت ہلال ریسرچ کمیٹی کے کرتا دھرتا مفتی خالد جاوید سے رہنمائی چاہی تو انہوں نے بتایا کہ چاند کی پیدائش کے بعد چالیس گھنٹے کی عمر ہو تو چاند نظر آسکتا ہے۔ انتیسویں روزے چاند کی عمر چھتیس گھنٹے کے لگ بھگ تھی اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پاکستان میں کہیں بھی اسے دیکھا جا سکتا۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک ہوائی جہاز جو کینیڈا سے اڑا اورا س نے سولہ گھنٹے کی مسلسل فلائیٹ کے بعد لاہور لینڈ کرنا تھا اور اب کوئی گواہی دے کہ اس نے جہاز کو دس، بارہ گھنٹے بعد ہی لاہوردیکھ لیا تو کیا اس گواہی کو مانا جا سکتا ہے۔ ہم جہاز کی سپیڈ دیکھیں گے، سول ایوی ایشن والوں سے پوچھیں گے، لاہور ائیرپورٹ کا ریکارڈ چیک کریں گے ۔ یہ سب ریکارڈ بتا رہا ہو کہ جہاز فضا میں ہی ہے تو ہم کیسے اس شخص کی گواہی مانیں گے چاہے اس کی گھٹنوں تک لمبی داڑھی ہی کیوں نہ ہو؟
مفتی شہاب الدین پوپلزئی نے موقف اختیار کیا کہ رویت ہلال کمیٹی کے پاس کوئی ایس او پیز نہیں ہیں۔ علامہ راغب نعیمی، رویت ہلال کمیٹی کے رکن ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کمیٹی کے پاس تمام رہنما اصول و ضوابط ، شرائط اور سہولیات موجود ہیں۔ سائنسی اورحکومتی ادارے اس کی معاونت کے لئے موجود ہیں۔ تمام مسالک کے علماء کی نمائندگی اسے قومی کمیٹی بناتی ہے اور سب سے بڑھ کر ہمارے پاس گواہی کو جانچنے کے معیارات موجود ہیں جیسے ایک چاند جو سات بج کر دس منٹ سے تیس منٹ تک مطلع پر رہنا ہے اور کوئی اس کو دیکھنے کی گواہی دیتا ہے تو ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ اس کے دیکھنے کا وقت کیا تھا، چاند کا رخ کس طرف تھا اوراس طرح کے دیگر سوالات مگر دوسری طرف گواہی کا حساب اہل علم کے مطابق ناقص ہے۔ وہ صرف اطلاع لیتے ہیں کہ کسی باریش شخص نے چاند دیکھا ہے اور اس کا نام ڈائری میں لکھ لیتے ہیں۔ میں چاند کے نظر آنے کے حوالے سے قرائن قطعیہ کی بات کرتا ہوں کہ جب چاند نظرآنے کی گواہی ملے تو اس چاند کا سائنسی اور عقلی طور پر نظر آنا بھی یقینی ہونا چاہئے ورنہ اسلام محض قیافوں اوراندازوں کا دین نہیں ہے۔ سورۃ یسین اور سورۃ رحمن سمیت جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کے اصولوں کو آشکار فرمایا ہے۔ سورۃ یسین کا تیسرا رکوع پڑھ لیجئے اور سورۃ رحمن کی پانچویں آیت۔ چاند سورج سب ایک حساب کتاب سے ہیں اور اگر اس حساب کتاب کی نفی ہو گی تو کائنات اسی لمحے تباہ ہوجائے گی۔ مفتی پوپلزئی کے ماننے والوں نے حساب کتاب کے بغیر ہی چاند دیکھ لیاجو ایک حیرت کی بات ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس پر مجھ سے ایک عام شخص کی بجائے رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ جناب عبدالخبیر آزاد کویہ مقدمہ لڑنا چاہئے اور بتانا چاہئے کہ شمالی وزیرستان اور افغانستان کی عید تو بالکل ہی ناممکن تھی، اس روز تو چاند کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی مگر افسوس، ابہام اور اختلاف میں بہت ساروں کا فائدہ ہے۔
ہمارے بہت سارے دوست یہ دلیل دیتے ہیں کہ جب سورج اور چاند ایک ، ایک ہی ہیں اور اسی طرح آسمان بھی ایک توپھر سعودی عرب میں چاند نظر آ گیا تو پورے جہان کی عید ہوگئی مگر اس میں بھی تحقیق اور وضاحت کی اشد ضرورت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے سب سے بڑے دانا اور علم والے ہیں۔ انہوں نے جب ہر علاقے کی رویت الگ الگ ہدایت فرمائی تووہی درست اور سچ ہے۔ تفصیل یوں ہے کہ ہر وہ معاملہ جو موسم کے ساتھ یا چاند، سورج کی گردش کے ساتھ منسلک ہے وہ ہر جگہ کا الگ ہوگا جیسے ہم سورج ڈوبنے پر روزہ کھولتے ہیں تو یہ نہیں ہوسکتا کہ جب سعودی عرب میں سورج ڈوبے تو ہم روزہ کھول لیں ، کراچی سے لاہور اور گلگت تک پونے گھنٹے تک کافرق ملتا ہے۔ سو یہ طے ہوا کہ چاند، سور ج کی گردش مقامی طور پر دیکھی جائے گی جس سے ایک سورج اور ایک آسمان والی دلیل تو رد ہوئی ، مزید وضاحت کہ ہم سعودی عرب میں مغرب کی اذان کے ساتھ پاکستان میں مغرب کی نماز ادا نہیں کرسکتے اور اگر ایسا کریں گے تو پاکستان میں نماز قضا کر بیٹھیں گے۔ مزید جان لیجئے کہ سعودی عرب میں بارش ہو رہی ہو تو آپ کا چھتری لے کر مسجد جانا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ سعودی عرب رویت کی بجائے چاند کی پیدائش سے فیصلہ کرتا ہے جبکہ ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو پورا کرتے ہیں کہ چاند دیکھنے کی سعی کرتے ہیں، یہ دیکھنا اوپر بیان کی گئی تمام شرائط کے ساتھ ہے۔
میں نے اس پر مکالمہ کیا۔ علامہ راغب نعیمی اورمفتی خالد جاوید کی علمی اور سائنسی رہنمائی بھی ساتھ رہی مگر مجھے دکھ ہوا جب مفتی صاحب کے پیروکاروں نے سوال اٹھائے اور کہا کہ پنجاب والے تو روزے ہی نہیں رکھتے، مسلمان ہونے تک پرسوال اٹھائے گئے تو پیارے پختون بھائیو، تمہیں کس نے کہہ دیا کہ پنجاب والے روزے نہیں رکھتے یا نمازیں نہیں پڑھتے۔ وہ الحمد للہ نہ صرف روزے رکھتے ہیں بلکہ غسل اور وضو کی شرائط پوری کرکے ہی نمازیں پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اپنے فرقے، دھڑے ، علاقے اور لیڈرکی بجائے محمد رسول اللہ کی سچی اور پکی غلامی عطا فرمائے۔ آمین۔

تبصرے بند ہیں.