عید کا دن ہے گلے لگا کر ملئے

23

عید کے دن نماز پڑھنے کے بعد عید ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ بچپن میں ہمیں عید ملنے کا بڑا شوق ہوا کرتا تھا جب تک عید گاہ میں موجود آخری شخص سے عید نہیں مل لی جاتی تب تک گھر نہیں لوٹا کرتے تھے لیکن اب یہ صورتحال بالکل تبدیل ہو چکی ہے کیونکہ اب نہ تو وہ عمر ہے اور نہ ہی وہ جان جب کوئی عید ملنچی بڑے جارحانہ انداز میں ہماری طرف بازو آزمائی کے لئے بڑھتا دکھائی دیتا ہے تو ہماری ہڈیاں اسے دیکھ کر ہی چٹخنے لگتی ہیں۔ گزشتہ عید پر تو کچھ یوں ہوا کہ ہمارے ایک دیرینہ دوست جو فکرِ معاش کے چکر میں کسی دوسرے شہر میں پدھار چکے ہیں عید کے عید ملتے ہیں ہمیں جو دیکھا تو اس محبت سے ہمیں دبوچا کے ہمارے حلق سے سویاں باہر کو لپکیں اللہ بھلا کرے ہمارے ہونٹوں کا جن کی کوشش سے باہر آنے سے محفوظ رہیں اور موصوف کے کپڑے سلامت ورنہ ان کی عید تو ادھر ہی دید کے قابل ہو جاتی اور ہماری حالت بڑی عید کے اس مینڈھے جیسی جسے بچے کھلا کھلا کر ادھ موا کر دیتے ہیں۔ اس سے گزشتہ عید پر ہمیں لوگوں نے عید مل مل کر ململ بنا دیا تھا، اگلی بار ہمارا پکا ارادہ تھا کہ عید انتہائی ناگزیر حالات میں ملیں گے بے شک اس طرح دوستیاں متاثر ہوں لیکن کم از کم پسلیاں تو محفوظ رہیں گی لیکن مروت اور دنیا داری آڑے آ گئی اور ہم بھی بادلِ نخواستہ پہلوان نما عید ملنچیوں کی آغوش میں تڑپتے رہے لیکن کسی کی دل آزاری نہیں ہونے دی۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر معانقہ کو بھی اسپورٹس کی فہرست میں شامل کر لیا جائے تو یہ بھی ایک دنگل ہو گا اور اسے ایک کھیل کی حیثیت حاصل ہو گی، پھر اسے اولمپک میں شامل کر لیا جائے تو کم از کم ایک کھیل ایسا ہو گا جس میں ہم بھی گولڈ میڈل حاصل کر سکتے ہوں گے۔ جب اس کھیل کو اولمپک کا درجہ عطا ہو گیا تو پھر اس کی کرکٹ اکیڈمیوں کی طرز پر اکیڈمیاں بھی معرضِ وجود میں آئیں گی جہاں معانقے کے پسلی توڑ داؤ پیچ اور مدِمقابل کے تابڑ توڑ حملوں سے بچاؤ کی تربیت دی جائے گی۔ ہم یہ چاہیں گے کہ ایسا جلد ہو اور سب سے پہلے کسی معانقہ اکیڈمی میں داخلہ لیں کیونکہ اپنی موجودہ ڈھلتی عمر اور زوال پزیر جسامت کے ساتھ ہم عید ملن کے وار سہنے کے قابل نہیں رہے۔ نہ جانے یہ کیوں فرض کر لیا گیا ہے کہ عید ملنے میں جتنا سامنے والے پر تشدد کرو گے اتنا ہی اس کے دل میں گھر کرو گے۔ گویا آپ کی تکلیف اس کی ریلیف ٹھہری۔ ہمارے ہمسائے میں عید گاہ کے بالکل سامنے سیاسی میاں کا گھر ہے جن کی صحت ایسی کہ ہم سے ان میں سے چار نکلیں محبت ان میں سیاست کی حد تک مبالغہ آمیز ی کی طرح، وہ کسی اور مسجد میں پہلے ہی نماز پڑھ کر عید ملنے کے لئے ڈنڈ ڈولے تیار کئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی ہم سا منحنی ان کے ہاتھ آئے تو رمضان میں کھائے گئے سارے سموسے پکوڑے باہر کر دیں۔ عموماً عید گاہ سے واپسی پر ہماری پہلی مڈ بھیڑ انہی سیاسی میاں سے ہوتی ہے وہ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ ہمسائے سے سارے سال کے بدلے آج ہی لینے ہیں، چونکہ ہم ان سے آدھے سے بھی کم پر ہوتے ہیں لہٰذا وہ ہمیں بڑی آسانی سے دبوچ لیتے ہیں ہماری حالت اس بگلے کے بچے جیسی ہوتی ہے جو گھونسلے میں لاچار دانے دنکے کے لئے اپنی ماں کا منتظر ہوتا ہے ماں دور چوبچ میں دانا لئے اسے گھونسلے سے باہر آنے کی ترغیب دے رہی ہوتی ہے۔ جیسے تیسے سیاسی میاں کو بھگتا کر گھر آتے ہیں تو بیگم پہلے سے ہی اپنے باوا کے گھر کے ارمان دل میں سجائے بیٹھی ہوتی ہیں۔ ہم پر وہیں سے دہشت طاری ہو جاتی ہے کیونکہ بڑی سے رشتہ ہونے کے ناتے ہم وہاں بڑے ہوتے ہیں لیکن جسامت کے لحاظ سے وہ سب ہم سے کئی گنا بڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک سالا صاحب تو ڈرائنگ روم میں گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں جو عید ملنے کے بہانے اپنی بہن کے بدلے چکانے کے منتظر ہمیں آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ جونہی ہم ان کے آرم لاک میں آئے انہوں نے ہمیں سختی سے جکڑ لیا اور تین بار ضربِ شدید کا ارتکاب کیا۔ ہر بار ہمیں ادھ موا کر کے اور ہماری آہ و فغاں کو نظر انداز کر کے وہ فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ گھورتے جیسے کہہ رہے ہوں اور کرو گے بے زبانوں پر ظلم۔ ابھی اوسان بحال ہی ہوئے تھے کہ سسرالیوں میں سے ایک اور عزیز آن دھمکے ۔ یک نہ شد دو شد یعنی ایک تو سسرائیل اوپر سے دور پار کا بیگماتی رشتہ دار حسبِ روایت انہوں نے جبری معانقے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو ہم نے ان پر واضح کر دیا کہ ہم ابھی پہلے حملے سے پوری طرح جانبر نہیں ہوئے ہیں لہٰذا وہ مصافحے پر قناعت کر کے ثوابِ دارین حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن انہوں نے ہماری التجا کو برملا نہ جانا اور لیا ایک بار پھر سے ہماری ہڈیوں کا نشانہ ۔ انہوں نے نہایت شائستگی کے ساتھ ہمیں سینے سے لگایا چند سیکنڈ تک اسی طرح ساکت پوزیشن میں رہے انہوں نے بازوؤں کی مدد سے ہمارے سینے کو دبانا شروع کر دیا ۔ اس وقت تو تکلیف میں ہوش ہی نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں مگر ان کے جانے کے بعد عقدہ کھلا کہ ان کی اندر اندر سے سسرال سے لگتی ہے جس کا خمیازہ داماد میاں کو جھیلنا پڑا۔ گھر واپسی پر تہہ خانہ نشین ہو گئے۔ خود کو خود ساختہ قید میں مبتلا کر کے ہم نے گھر والوں کو سختی سے تاکید کر دی کہ اب کسی کو بالخصوص دوستوں کو ہماری ہوا بھی نہ لگنے دیں۔ رات گئے اس اندھیر کوٹھڑی سے باہر آئے، دوسرے دن صبح ناشتے کی تیاری کر رہے تھے کہ ہمارے دفتر کے ایک ساتھی آن پہنچے اور ماشاء اللہ جن کا ڈیل ڈول بھی ایسا کہ بالکل جاپانی سومو پہلوان۔ یہ پہلے شخص تھے جن سے عید مل کر کچھ راحت نصیب ہوئی۔ دوسرے لوگ کندھا بہ کندھا سینہ با سینہ عید ملتے رہے اور یہ ہمارے رفیق شکم بہ شکم معانقہ کرتے ہیں بڑے ہی منفرد انداز میں۔ وہ اپنی تھل تھل کرتی توند کو نمایاں کرتے ہوئے آگے بڑھے اپنے دونوں ہاتھ ہمارے کندھوں پر رکھے اور پیٹ سے پیٹ ملا کر دو تین بار دائیں سے بائیں رگڑ دیا، تکلیف کے بجائے تھوڑی سی گدگدی ہوئی۔ ان کا یہ عاجلانہ معانقہ بڑا بھلا لگا۔ دن میں کچھ افاقہ رہا دوپہر میں ہمارے دوست شاہ صاحب آن دھمکے، ہمارے بچپن کے دوست ہیں ہم ماضی میں ایک ہی محلے میں رہتے تھے، ایک ہی کالج میں اکٹھے پڑھتے آج کل اسلام آباد میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں چونکہ آبائی گھر فیصل آبا ہے اس لئے عید ہر سال یہیں کرتے ہیں۔ بچپن سے ہی ہماری اور ان کی جسامت میں بڑا واضح فرق رہا ہے۔شاہ صاحب نے گلے ملنے کے ارادے سے جیسے ہی پیش قدمی کی بچپن کی یاد ذہن میں آسمانی بجلی کی مانند کوندی اور میں نے دست بستہ عرض کی شاہ جی عید تو باسی ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم کوئی اور تاویل پیش کرتے ہم نے خود کو ان کے سینے سے چمٹا ہوا پایا۔ انہوں نے پوری قوت کے ساتھ بازوؤں میں بھر کر اوپر نیچے اٹھایا تو بس خدا کی پناہ۔ یوں محسوس ہوا جیسے دنیا سے اٹھا لیا گیا ہو۔ شام میں ہماری زوجہ محترمہ کی کولیگ عید مبارک کہنے تشریف لائیں تو کچھ دل میں ہلکہ ہلکہ ساز بجا انہوں نے بھائی جان عید مبارک کہا تو ہم نے جاری معمول کے مطابق معانقائی پیش رفت کی ہی تھی کہ بیگم کا ہنگورا ہمیں عالمِ تخیل سے حقیقی دنیا میں لے آیا کہ یہ قابلِ دست درازیٔ قانون و اخلاق ہے تو کچھ ہوش ٹھکانے ہوئے اور پھر کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ڈھیٹوں کی مانند خفیف سے شرمندگی لئے ایک جانب ہو کر اندر ہی اندر سلگتے ہوئے دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے گانے لگے۔

تبصرے بند ہیں.