شہبازشریف کا دورہ سعودی عرب

21

وزیراعظم شہباز شریف ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد ان کا یہ پہلا غیرملکی دورہ ہے۔ دورے کے دوران وزیراعظم پاکستان، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز اور دیگر متعلقہ حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں اقتصادی و تجارتی روابط کو بڑھانے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے علاوہ سعودی عرب میں پاکستانی افرادی قوت کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے بات چیت کی۔ اس موقع پر دونوں دوست ممالک باہمی دلچسپی کے امور خاص طور پر متعدد علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ایک ایسے وقت میں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں جب پاکستان کو بڑھتے ہوئے مالیاتی اور تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ سعودی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کے زرعی، تیل، گیس، سیاحت، ٹرانسپورٹ، انڈسٹریز، آئی ٹی، میڈیا، مواصلات اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ سعودی عرب 20 لاکھ سے زیادہ پاکستانی ورکرز ہیں، جس کے باعث یہ پاکستان کا سب سے بڑا ترسیلاتِ زر کا ذریعہ ہے۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2019ء اور اپریل 2020ء کے درمیان 4-4 بلین ڈالر کی ترسیل ہوئی ہے لیکن ان میں سے زیادہ تر غیر ہنرمند یا نیم ہنرمند لیبر کے زمرے میں آتے ہیں۔ افغا ستان سے امر یکہ کے انخلا کے بعد، پا کستان کی مغربی سرحد پر نازک صورت حال کا سامنا ہے۔ مشرقی سرحد کس پار بھی انتہا پسند طاقتوں کی وجہ سے مسلئہ کشمیر مزید پیچیدیوں کا شکار ہے۔ اندرونی طور پر معاشی بگاڑنے سیاسی استحکام کو ہی نہیں، بلکہ بیرونی چیلنجز نے نمٹنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کر رکھا ہے۔ ان سنگین حالات میں مسجد نبوی میں پیش آنے والا واقعہ پاکستانی قوم اور سیاست کے لیے افسوسناک اور باعث ندامت ہے۔ سیاست کو اس کے موقع محل پر رکھنا چاہیے۔ روایت اور اصول تو یہی تھا مگر یوں لگتا ہے کہ پاکستانی سماج میں یہ اقدار دم توڑ رہی ہیں۔ ایسے واقعات آئے روز پیش آ رہے ہیں جہاں کسی جماعت کے کارکن مخالف جماعت کے قائدین کے خلاف اشتعال انگیزی اور واہیات جملے بازی پر اُتر آتے ہیں۔ یہ صورت حال پچھلے کچھ عرصے کے دوران شدت اختیار کرتی گئی ہے۔ ملک کے اندر اور باہر سیاسی مخالفین کے خلاف احتجاج کا یہ قابل افسوس انداز جمعرات کے روز اپنے عروج پر دیکھا گیا۔ اس سے قبل لندن میں مسلم لیگ(ن) کے قائد کے گھر کے باہر طوفانِ بدتمیزی کے مظاہر سامنے آتے رہے ہیں جبکہ پچھلے دنوں عمران خان صاحب کی سابقہ اہلیہ کے گھر کے باہر بھی یہی عمل دہرایا گیا۔ پاکستان میں سیاسی رہنماؤں کے اپنے مخالفین سے تعلقات بے شک معتدل کبھی نہیں رہے مگر بدتہذیبی کے جو مناظر اب دیکھے جا رہے ہیں اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ سیاسی مخالفتوں کا یہ ناشائستہ انداز قومی سطح پر زیادہ اثر نہیں چھوڑتا رہا اور
اس قسم کے واقعات کو متحارب فریقوں میں حساب برابر کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہوئے نظر اندازہ کیا جاتا رہا۔ تاہم مسجد نبوی کے تقدس کو ماپال کرتے ہوئے نعرہ بازی اور ہجوم کی صورت میں مخالف جماعت کے قائدین کو گھیرنے کی کوشش بلاشبہ پاکستان کے ہر شہری کے لیے بے حد افسوس کا باعث اور بجا طور پر قابل مذمت ہے۔ اس واقعے کے احساسات صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے ہوں گے بلکہ دنیا بھر کی مسلم آبادی کو اس صورت حال سے شدید رنج پہنچا ہو گا۔ حرمین شریفین کا تقدس ہر مسلمان کی روح میں رچا بسا ہے۔ چنانچہ حیرت ہے کہ پاکستانی حکومت کے وفد کے خلاف مسجد نبوی میں نعرے بازی کرنے والوں کو اُس مقام کی تقدیس کے منافی حرکات کی جسارت کیسے ہوئی؟ اس واقعے نے پاکستانی معاشرے کی سیاسی نفسیات پر کئی سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ یہ باعث صد افسوس واقعہ ماضی کے بہت سے واقعات کی انتہائی صورت تھی۔ لندن میں ایک سیاسی رہنما کے گھر کے باہر جو طوفانِ بدتمیزی مچایا جاتا رہا اگر بروقت ایسا کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ان حرکات سے باز رکھنے کو شش کی جاتی تو ممکن ہے اس اندوہناک صورت حال کی نبوت نہ آتی۔ اس باعث افسوس صورت حال کی ذمہ داری سیاسی رہنماؤں کو لینی چاہیے۔ بے شک کسی رہنما کی جانب سے حرم مقدس میں ایسی گستاخی کی ہدایت نہیں دی گئی ہو گی اور یہ مانا جا سکتا ہے کہ یہ ان لوگوں کا ذاتی فعل ہی ہو گا مگر سیاسی رہنما اپنی جماعت کے کارکنوں اور حامیوں کی فکری رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے تو مانا جا سکتا ہے کہ ایسا کبھی نہ ہوتا۔ اگر کوئی سیاسی رہنما اپنے پیروکاروں کی سیاسی اور اخلاقی تربیت ہی نہیں کرتا، انہیں اچھے بُرے کی تمیز نہیں سکھاتا اور سیاسی اور جمہوری اخلاقیات سے آگاہ نہیں کرتا تو آخر سیاسی رہنما کے کردار کا تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ مان لینے میں کوئی باک نہیں کہ ہماری سیاسی رہنما اس معاملے میں بُری طرح ناکام ہیں۔ شخصیت اور قوم کی تعمیر رہنمائی کے بنیادی اجزا ہیں۔ مگر ہمارے رہنماؤں کی نظر اس جانب بالکل نہیں جاتی۔ عوام کے ساتھ ان کا تعلق صرف جلسوں، جلوسوں کی رونق بڑھانے والے ہجوم اور ووٹ دینے والے طرفداروں کی حد تک ہے۔ کوئی سیاسی رہنما نہیں جس نے اپنی سیاست کو اخلاقی اور قومی تعمیر کے مقاصد میں وسیلے کے طور پر اپنایا ہو۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ مخالف سیاستدان کو زچ کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیا جاتا۔ نہ مقام دیکھا جاتا ہے، نہ موقع۔ پاکستانی قوم کی سیاسی تربیت سے محرومی کے نتائج پہلے ہی بہت تشویشناک ہو چکے ہیں مگر یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں رہے گا۔ غالب امکان ہے کہ بدقسمتی کا یہ سلسلہ آگے بھی جائے گا اور پاکستان کے اندر اور باہر اس کے مظاہر مزید افسوسناک واقعات کی صورت میں سامنے آ سکتے ہیں۔ ملک کے اندر پولرائزیشن پہلے ہی انتہا کو چھو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس کی جھلکیاں واضح نظر آتی ہیں، جہاں کوئی کسی کی بات سننے کو تیار نہیں۔ مجذوب کا مکالمہ تو یوں لگتا ہے پرانی بات ہو چکی۔ یہ جذباتی پن پاکستانی سماج کو غیر معمولی نقصان پہنچا رہا ہے۔ 65 فیصد نوجوان آبادی پر مشتمل ملک کے لیے سماجی اعتبار سے یہ صورت حال کسی المیے سے کم نہیں، جہاں سیاسی بات چیت میں ہوش کے بجائے صرف جوش سے کام لیا جاتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کی پرفارمنس کی جانچ کے بجائے عوام دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور آنکھیں بند کر کے کسی کی تعریف اور کسی کی تکذیب کیے چلے جاتے ہیں۔ اگر اس روش کو بہتر طرزِ عمل اور سیاسی اقدار کی تربیت کے ذریعے تبدیل نہ کیا گیا تو سماجی سطح پر تصادم اور سیاسی منافرت کا عمل رک نہیں سکے گا۔ مسجد نبوی میں سیاسی مخالفین کے خلاف نعرے بازی اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستانی سماج سیاسی بنیادوں پر تقسیم کی آخری حدوں پر کھڑا ہے جہاں عقل و شعور نے اپنا کام چھوڑ دیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کون مسلمان اس پرلے درجے کی حماقت کا سوچ بھی کیسے سکتا ہے۔ جس آستان میں کوئی اونچی سانس بھی نہیں لیتا، تیز قدم بھی نہیں اُٹھاتا، کیا وہاں کسی کو غیر مہذب اور نعرہ بازی کی جرأت ہو سکتی ہے؟ اس افسوسناک واقعے پر صرف اظہارِ افسوس کافی نہیں۔ اس بگڑتے ہوئے مرض کی علامت تصور کرتے ہوئے نفسیاتی مریض معاشرے کی چارہ گری کے لیے دوا اور دعا دونوں ضروری ہیں۔

تبصرے بند ہیں.