دیکھ مگر پیار سے

13

یہ ایک کائناتی حقیقت ہے کہ انسان فطرتاً بڑا جلد باز ہے یہ جلد بازی اسے ہر موقع پر ٹھوکر کھانے پر مجبور کرتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا۔ یہ قانون قدرت ہے جس سے فرار کی کوئی راہ میسر نہیں ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا ہے۔ نصف صدی پہلے جب شعور کی دہلیز پر قدم رکھا دن اور رات کے دائرے میں خود کو قید پایا۔ صبح وقت پر اٹھنا وقت پر سکول جانا تاخیر سے پہنچنے پر سرزنش وصول کرنا گھر آکر تھوڑی بہت آزادی کے احساس پر ہوم ورک کے دباؤ کی چکی میں لینا بڑا مشکل لگتا تھا جگنوؤں اور تتلیوں سے کھیلنے کی خواہش اور درختوں کی شاخوں پر بیٹھے پرندوں کی نغمے بڑے دلکش تھے موسموں کا تغیر اور بادلوں اور بارشوں کی آمد و رفت اس کو دو چند کر دیتی تھی مگر ہمارے سر پر پڑھائی کا بوجھ ہمیں ان دلفریبیوں سے دور رکھے ہوئے تھا اور یہ مسافتیں آج بھی قائم و دائم ہیں۔
ہمارا بچپن ہی ہمیں اپنے سارے مسائل و مشکلات کی سب سے بڑی وجہ نظر آتا تھا اور زندگی اس امید کی کرن پر کچے دھاگے کی طرح بندھی ہوئی تھی کہ جب بڑے ہو جائیں گے تو سارے مسئلے خود بخود ہی حل ہو جائیں گے اور وقت کی غلامی کی ساری زنجیریں ٹوٹ گریں گی۔ ہمارے پاس اپنے اس thesis کی حمایت میں سب سے بڑی عملی دلیل بھی موجود تھی۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ گاؤں سے خاصا دور شہر کی طرف جانے والی جس بس پر ہمیں روزانہ دو دفعہ سوار ہونے کی اذیت سے گزرنا پڑتا تھا اس کے اپنے بائی لاز واضح لکھے ہوتے تھے مثلاً اپنے سامان کی خود حفاظت کریں ۔ ہمارے پاس چونکہ سامان نہیں ہوتا تھا لہٰذا ہمیں اس قانون پر اعتراض نہ تھا ہمارے لیے بس کے قانون کا دوسرا آرٹیکل ایک کالا قانون تھا جس میں صاف لکھا ہوا تھا کہ آدھی سواری کو سیٹ نہیں ملے گی کچھ بسوں میں یہی قانون معمولی ترمیم کے ساتھ درج ہوتا تھا کہ آدھی سواری کو گود میں بٹھا لیں مگر اس قانون کا اطلاق تو اس آدھی سواری پر تھا جس کے ساتھ کوئی پوری سواری بھی محو سفر ہو ہم تو وقت پیدائش کی طرح اکیلے جاتے اور اکیلے ہی واپس آتے تھے۔ اول تو بس میں نشست ہوتی ہی نہیں تھی کھڑے ہونا پڑتا تھا اور کبھی مل بھی جاتی تو ہمارے اوپر بس کا آرٹیکل 2 کنڈیکٹر کی طرف
سے فوری نافذ العمل ہو جاتا جو ہمیں پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 6 سے زیادہ خطرناک لگتا تھا۔ اس قانون کی وجہ سے مجھے بڑے ہونے کی جلدی تھی کہ جب ہم بھی بڑے ہو جائیں گے تو ہمیں اس بس میں نشست کا حق حاصل ہو جائے گا اور کوئی ہمیں اپنی نشست سے نہیں اٹھائے گا۔
جلدی بڑے ہونے کی حسین خواہش کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ جب انسان بڑا ہو جاتا ہے تو اسے سکول نہیں جانا پڑتا اور جب جانے کے لیے ہمارے پاس کوئی سکول ہی نہیں ہو گا تو زندگی میں ہمیں اور کیا چاہیے پھر ہم آزاد ہوں گے کہ صبح جتنے بچے چاہیں اٹھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا لیکن ہمارے یہ سارے تصورات ایک ایک کر کے شیشے کی طرح چور چور ہو چکے ہیں۔ اس وقت ہمیں کیا پتہ تھا کہ بڑے ہو کر زندگی کے پل صراط کا روزانہ سفر سکول لے جانے والی اس بس سے زیادہ کٹھن ہے۔ جس کے پیچھے لکھا ہوتا تھا کہ تیز رفتاری خطرناک ہے۔
جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں اس وقت لوکل سفر میں بھی بس والے ٹکٹ جاری کرتے تھے بلکہ بس کا آرٹیکل 3 مسافروں کو پابند کرتا تھا کہ ٹکٹ لینا نہ بھولیں اور اگر کوئی کنڈیکٹر کرایہ وصول کر کے ٹکٹ نہ دے تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا تھا کہ یہ پیسے وہ بے ایمانی اور خیانت سے اپنی جیب میں ڈال رہا ہے ہمارے شہر کے لاری اڈے میں یہ کہانیاں بطور مثال مشہور تھیں کہ فلاں ٹرانسپورٹر یا بس مالک نے اپنے کیریئر کا آغاز بس کنڈیکٹر سے کیا تھا بلکہ اس دور میں اسے کلینڈر کہا جاتا تھا ملکہ ترنم نور جہاں کا وہ گانا اس کا ثبوت ہے کہ
مینوں رکھ لے کلینڈر نال لمیاں روٹاں تے
بلاٹکٹ سفر کرنا کرپشن سمجھا جاتا تھا اور اس بارے میں بس کے کسی کو نے میں یہ بھی لکھا ہوتا تھا کہ بلاٹکٹ مسافر کو حوالہ پولیس کیا جائے گا۔ بعد میں زندگی کی حقیقتیں آشکار ہونا شروع ہوئیں تو ایسا لگا کہ ہمارا وطن عزیز وہی نیو خان کی بس ہے جس میں ہر طاقتور مسافر بلاٹکٹ محوسفر ہے مگر مجال ہے کوئی پوچھنے والا ہو۔
جس بس کا ذکر چل رہا ہے یہ کسی دور افتادہ ٹاؤن کے کچے پکے راستوں سے ہوتی ہوئی ہمارے گاؤں کے بس سٹاپ سے گزر کر شہر جاتی تھی گویا ہم اس کے راستے کے مسافر تھے اور اس دور میں بس کے بائی لاز میں راستے کی سواری کا ٹکٹ الگ ہوتا تھا جس پر باقاعدہ چھپا ہوا تھا کہ یہ راستے کی سواری کا ٹکٹ ہے۔ ہمیں وہ حقوق حاصل نہیں تھے جو ایک اڈے سے دوسرے اڈے تک جانے والے مسافر کے لیے ہوتے ہیں جسے پنجابی کلینڈر ’’توڑ دی سواری‘‘ یعنی آخر تک جانے والی سواری کہتے تھے اس کا سامان خود اٹھا کر رکھتے اور اس کی بڑی آؤ بھگت کرتے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ زندگی کے اس سفر میں بھی ہم تو راستے کی سواری ہیں بسیں رواں دواں چلتی رہیں گی ہمارا سفر راستے سے ہی شروع اور راستے ہی میں ختم۔ اتنی سی ہی تو مہلت ہے ۔
ہمیں اپنے بچپن کے دور کی بس کے اندر رقم کی گئی قانون سازی سے زیادہ بس کے فرنٹ اور بیک پر لکھے گئے دو چھوٹے چھوٹے جملے بہت دیر بعد سمجھ آئے سامنے لکھا ہوتا تھا۔ ’’دیکھ مگر پیار سے‘‘ اگر کوئی چیز ہمارے بے سمت مسافر قوم نے اپنی زندگی میں سب سے زیادہ مجرمانہ طریقے سے پس پشت ڈالی ہے تو وہ ’’دیکھ مگر پیار سے‘‘ ہے کیونکہ ہم ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظر سے دیکھتے ہیں اور معمولی بات پر خنجر آزمائی پر اتر آتے ہیں۔ اس قبیل کی جو دوسری چیز ہم نے آندھیوں کے سپرد کی ہے وہ جس کے پیچھے لکھا گیا قول ’’جلنے والے کا منہ کالا‘‘ ہے۔ یہ گویا ایک دھمکی یا وارننگ ہے کہ اگر حسد کرو گے تو سوائے اپنے آپ کو نقصان دینے کے تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ وطن عزیز کے سوا دنیا بھر کی کسی بس کے پیچھے یہ نہیں لکھا ہوتا مگر وہ لوگ شاید اتنا حسد نہیں کرتے۔ اس جملے کی سب سے زیادہ ضرورت ہمیں ہے۔ اب احوال واقعی یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ گدھا گاڑی اور چنگ چی رکشا والے نے بھی پیچھے یہ اعلان لا تعلقی لکھا ہوتا ہے کہ جلنے والے کا منہ کالا۔ ہم سوچتے ہیں کہ کیا ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ان سے بھی حسد کرتے ہیں۔
چلتے چلتے آپ کو اپنی ایک ایسی بس کے بارے بتانا ہے جس کا نمبر 3994ہمیں آج تک نہیں بھولا اس بس کے آگے اور پیچھے جلی الفاظ میں ’’حاجن بس‘‘ لکھا ہوتا تھا جس کا پس منظر یہ تھا کہ یہ ایک دفعہ خشکی کے راستے مسافروں کو لے کر ایران شام کے راستے سعودی عرب مکہ اور مدینہ لے کر گئی تھی جس کے اندر سفر کی تاریخیں اور واقعات اور شہروں کے فاصلے لکھے گئے تھے بس کا لیبل دیکھ کہ مسافر اس میں سفر کرنے کو اعزاز سمجھتے تھے آج بھی ہمارے سارے فضائل و اعمال لیبل یا اشتہاری سرگرمیوں کے مرہون منت ہیں۔

تبصرے بند ہیں.