میں نہ مانوں کی تکرار…!

54

اسے قومی سیاست کا ہی نہیں بلکہ مجموعی قومی زندگی کا المیہ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔کہ کچھ معاملات میں ظاہر باہر حقائق اور شواہد موجود ہونے کے باوجود ایک خاص نقطہ نظر کے حامل اور اپنے ضد اور ہٹ دھرمی کے رویے پر کاربند حلقے انھیں ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ اپنے مخصوص مؤقف  جو انہوں نے ایک خاص سیاق و سباق اور پس منظر اور پیش منظر اور اپنے مخصوص مفادات کے تحت اختیار کر رکھا ہوتا ہے اس پر ہر صورت میں قائم رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ عام سیاسی بیان بازی میں اس طرح کے روّیوں کو کسی حد تک گوارا کیا جا سکتا ہے۔ کہ وہاں مخالفین کی مخالفت کرنا یا ان سے متضاد مؤقف اختیار کرنا ہمارے ہاں کسی نہ کسی صورت میں کب سے رائج چلا آ رہا ہے لیکن جب بات وسیع تر قومی مفاد کی ہو اور ایسے مؤقف اور نقطہ نظر کی ہو جس سے ملکی سلامتی اور ملکی وقار پر حرف آتا ہو تو پھر ایسی ہٹ دھرمی یا میں نہ مانوں کے رویے کو کسی صورت میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ جب انتہائی سمجھ داری ، دانائی، دانشمندی اور غیر جانبداری کے دعویدار دانش در، تجزیہ نگار اورقلم کار بھی اس طرح کے میں نہ مانوں کے رویوں کے پرچارک بن جائیں تو پھر سوائے رونے کے اور قوم کے مستقبل کا ماتم کرنے کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔  امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کی طرف سے اسلام آباد بھیجی جانے والی سائفر ٹیلی گرام 8مارچ کو اسلام آباد میں موصول ہوئی۔ اس طرح اس کی اسلام آباد موصولی کو تقریباً ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ ہو چکا ہے لیکن یہ معاملہ ابھی تک دبا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے تقریباً تین ہفتے اس کی کسی نے سن گن بھی نہ لی۔ مارچ کے آخر میں جب وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش کردہ تحریک عدم اعتماد بعد از طویل انتظار و خرابی بسیار قومی اسمبلی میں حتمی طور پر بحث اور رائے شماری کے لیے پیش کی جانے والی تھی تو اس سائفر ٹیلی گرام کی قسمت جاگی اور 27مارچ کی رات کو وزیرِ اعظم (سابق ) جناب عمران خان نے اسلام آباد جلسہ عام سے خطاب کے دوران جیب سے کاغذ نکالا اور ہوا میں لہراتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ ایک بیرونِ ملک کی طرف سے پاکستان کے خلاف سازش کی تفصیل ہے جس کی بنا پر ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے۔ پھر 28مارچ اور 3اپریل سے 9اپریل اور 10اپریل کو اس تحریک عدم اعتماد کے ساتھ جو کچھ ہوا ، وہ اگر تاریخ کا حصہ ہے تو انتہائی افسوسناک اور شرمناک بھی کہ عمران حکومت کی طرف سے آئین و قانون کے ساتھ کھلم کھلا کھلواڑ ہی نہ کیا گیا بلکہ واضح طور پر اور ظاہر باہر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات اور فیصلوں کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔
یہاں یہ تمام حالات و واقعات اور غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات اور تاخیری حربوں اور شرمناک ہتھکنڈوں کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں تاہم جناب عمران خان یہ سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ان کے خلاف 9اپریل کی رات کو عدالتیں کیوں کھلیں؟ قیدیوں کی وین پارلیمنٹ ہاؤس کیوں پہنچائی گئی تو یہی سوال جناب ایاز میر اور خالد مسعود خان جیسے عمران خان کے حامی سینئر صحافیوں نے بھی اپنے کالموں میں اُٹھایا ہے کہ آخر اعلیٰ عدالتوں کے کھلنے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ سوال اُٹھاتے ہوئے خواہ عمران خان ہو یا اُن کے حامی قلم کار یہ حقیقت ان کی نگاہوں سے پوشیدہ رہنی نہیں چاہیے تھی کہ 9اپریل کو جناب عمران خان کی ہدایت پر قومی اسمبلی میں جو کچھ ہو رہا تھا اور سپیکر اور ڈپٹی سپیکر تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کرانے کے بجائے جو تاخیری ہتھکنڈے استعمال کر رہے تھے کیا یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے 7اپریل کو دیے گئے فیصلے کی خلاف ورزی نہیں تھی اور کیا اس طرح وہ آئین اور قانون کو پامال نہیں کر رہے تھے؟ پسند ، نا پسند، حمایت اور مخالفت ہر کسی کا حق ہے اور اس کے اظہار پر کوئی قدغن نہیں لگائی جانی چاہیے لیکن دن کو رات یا رات کو دن کہنا اور میں نہ مانوں کے رویے کے اظہار کی بہرکیف ہوصلہ شکنی ضرور  ہونی چاہیے۔
مجھے افسوس ہے کہ میں "سازش”کے موضوع سے ہٹ کر کچھ دور چلا گیا۔ جناب عمران خان اور ان کے حکومتی ساتھیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے غیر ملکی سازش ہوئی اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والی اپوزیشن جماعتیں اور اپوزیشن ارکان اس سازش کا آلہ کار بنے۔ اس طرح انھوں نے ملک سے غداری کا ارتکاب کیا۔ عمران خان کے اس بیانیے کو بنیاد بنا کر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے تحریک عدمِ اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ دی جسے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے اپنے متفقہ فیصلہ میں غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا دوسری طرف یہ معاملہ یعنی امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی بھیجی ہوئی سائفر ٹیلی گرام کابینہ کی ڈیفنس کمیٹی میں زیرِ بحث لایا گیا۔ وہاں پاکستان کی پرائم خفیہ ایجنسیوں کی مستند رپورٹس اور سائفر ٹیلی گرام کے مندرجات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ قرار دیا گیا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حوالے سے کسی غیر ملکی سازش کے کوئی آثار یا تانے بانے سامنے نہیں آئے۔ یہ سفیرِ پاکستان کا معمول کا ٹیلی گرام یا مراسلہ تھا جس پر زیادہ سے زیادہ متعلقہ ملک (امریکہ) کو پاکستانی وزارت ِ خارجہ کی طرف سے احتجاجی مراسلہ (ڈی مارش) جاری کیا جانا چاہیے تھا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے اجلاس اور اس کے اعلامیے جس میں کسی غیر ملکی سازش کے وجود کو تسلیم نہیں کیا گیا تھا کے سامنے آنے کے بعد عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے سازش ، سازش اور سازش کی تکرار کو بند کر دیا جاتا۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ عمران خان نے اپنے عوامی جلسوں میں اپنے خلاف کی جانے والی "مبینہ سازش”کی تکرارجاری رکھی۔ اس پر وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف نے قومی اسمبلی کی اپنی تقریر میں کیے جانے والے اعلان کے مطابق ایک بار پھر قومی دفاعی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا، جس میں ایک بار پھر سفیر پاکستان اسد مجید کی سائفر ٹیلی گرام کااز سر نو جائزہ ہی نہ لیا گیا بلکہ اسد مجید سے اس بارے میں ضروری وضاحت بھی مانگی گئی۔ نیشنل ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری کیے جانے والے اعلامیے میں ایک بار پھر حتمی طور پر قرار دیا گیا کہ کسی غیر ملکی سازش کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا اور قومی دفاعی کمیٹی اپنے پہلے والے اجلاس کے اعلامیے کی تائید کرتی ہے۔
معروضی صورتحال کی یہ تفصیل بار بار میڈیا میں آ چکی ہے۔ کیا اس کے بعد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے مبینہ سازش کی "سازشی تھیوری”کے پرچارک کو بند کر دیا جاتا۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ زیادہ زور شور سے اس کا تذکرہ اور مختلف تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں۔ یقینا یہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی ضد، ہٹ دھرمی، نفرت، انتقام اور میں نہ مانوں کے رویوں، اندازِ فکر و عمل کی عکاسی ہے۔ جناب عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ اس سے ملکی اور قومی مفاد اور ریاست کی خارجہ پالیسی کی مبادیات پر ہی زد نہیں پڑ رہی ہے بلکہ خود ان کے مؤقف کی کمزوری بھی عیاں ہو رہی ہے۔ ضد، نفرت، ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کے رویوں نے عمران خان کو پہلے بھی نقصان پہنچایا ہے اور اس حالت تک پہنچایا ہے تو اب بھی وہ اگر اس سلسلے کو جاری رکھتے ہیں تو ان کے لیے سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔

تبصرے بند ہیں.