انا اور عناد

31

بندہِ مومن کا اصل اثاثہ اخلاص ہے۔ لاالٰہ الا اللہ پڑھنے والا دراصل اخلاص پر قائم رہنے کا عزم کرتا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھنے والا جن بتوں کی نفی کرتا ہے، ان میں سر فہرست اس کی اپنی انا کا بت ہے۔ دل کو خانہِ خدا کہا جاتا ہے، لیکن انانیت سے بھرے انسان کا دل ایک بت خانہ ہے۔ درحقیقت ہر منفی جذبہ، خیال اور احساس ایک بت کی مانند ہے جس کے سامنے انسان گھٹنوں کے بل جھکتا ہے۔ فتح سے پہلے یہ حرم ایک صنم کدہ ہوتا ہے۔ جب فتح حاصل ہو جائے اور حق آن پہنچے تو باطل کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ بت گرا دیے جاتے ہیں۔ حق شانِ رسالتؐ کی صورت میں آتا ہے اور رسالتؐ اپنے شانوں پر ولائت کو کھڑا کرتی ہے تا آن کہ تمام بت گرا دیے جائیں، خانہ خدا سب بتوں سے پاک ہو جائے، یہاں تجلیاتِ ذات ظاہر ہو جائیں۔۔۔ مخفی ظاہر ہو جائے اور ظاہر کا طلسمِ سامری زائل ہو جائے۔
اخلاص اپنے مفاد اور مزاج کی نفی کا نام ہے۔ مفاد کی نفی کرنا قدرے آسان ہے، کیونکہ مفاد ظاہر ہو جاتا ہے، لیکن مزاج کی نفی کرنا ایک کارِ دشوار ہے۔ مزاج ہمارے وجود کا حصہ بن کر ہماری شناخت بن جاتا ہے۔ اس جھوٹی شناخت سے پیچھا چھڑانا آسان نہیں۔ کسی دینی و فلاحی کام میں اپنے مفاد کی قربانی دینا آسان ہے، کیونکہ انسان دیکھ رہا ہوتا ہے کہ مفاد پرستی ترک نہ کی گئی تو یہ بیل منڈھے نہیں چڑھے گی۔ مزاج کی قربانی دینا مشکل ہے، کیونکہ ہر انسان اپنے مزاج کو مثبت اور دوسروں کے مزاج کو منفی تصور کرتا چلا آیا ہے۔ باالفاظِ دیگر خود سے خود کو نکالنا ایک دشوار امر ہے۔ اس کے لیے تزکیہِ نفس درکار ہوتا ہے۔ تزکیہ نفس کوئی ذی نفس ہی کرتا ہے۔ اس کے لیے کسی انسان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنا پڑتا ہے۔ یہ نفس پر گراں گزرتا ہے۔ اپنے ہی جیسے کسی انسان کی بالادستی قبول کرنا، اس کے حریمِ دل میں رسائی پانے کے لیے اپنی عقل کی کھڑاویں اتارنا، اپنے زعمِ شعور کا شور ختم کرنا یقیناً ایک امرِ دشوار ہے۔ طور پر جانے والوں کو بھی یہ کھڑاویں اتارنے کا حکم ہوتا ہے، فخلع نعلیک۔ کسی نے کہا تھا:
لازم نہیں کہ سب کو ملے ایک سا جواب
کیوں نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی
جلوہِ طور کی باتیں تو بہت دور کی بات، تاریخ نے دیکھا کہ چون و چرا کی کھٹ کھٹ خضر ایسے بے عیب راہنما کے ساتھ بھی کھٹ پٹ کرا دیتی ہے۔ بہرطور عقل کے پاس عقل کی راہنمائی کے لیے سوائے دلائل کے اور کچھ نہیں، اور دلیل کی کم مائیگی یہ کہ ہر دلیل کے جواب میں ایک دلیل موجود ہوتی ہے۔ کس دلیل کو ماننا ہے اور کسے رد
کرنا ہے، یہ فیصلہ دل کرتا ہے۔
دلیل کے حق میں بہت زیادہ دلائل پیش کرنے والے آج کل سوشل میڈیا پر ایک آیت کا جزوی ترجمہ دہراتے نظر آتے ہیں، وہ اس آیت کا ایک جزو لیتے ہیں اور اس کے سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ترجمہ کچھ یوں کیا جاتا ہے کہ جو زندہ ہوا وہ دلیل سے زندہ ہوا اور جو مرا وہ دلیل سے مرا۔ ایک معروف سکالر نے لفظ ’’بینہ‘‘ کا ترجمہ ’’دلیل‘‘ کر دیا اور پھر یار لوگ اسی دلیل پر قائم ہو گئے۔ دلیل پر ’’قائم‘‘ ہونے کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ اس میں عقل کی فوقیت برقرار رہتی ہے۔ اگر یہ عقل کسی راہنما کی ہو تو خیر کوئی بات نہیں، لیکن یہ عقل شریف اگر اپنے ہی خانہِ قدرت سے تعلق رکھتی ہو تو اس سے خطرناک بات کوئی نہیں۔ سورۃ توبہ کی مذکورہ آیت جنگِ بدر کے موقع پر نازل ہوئی۔ سیاق و سباق اس آیت کا یہ ہے کہ مجاہدینِ اسلام کفار مکہ کے قافلے کا قصد رکھتے تھے، وہ آسان ہدف تھا، جب کہ اللہ رب العالمین کا ارادہ مجاہدین اسلام کو کفارِ قریش کی فوج سے ٹکرانے کا تھا۔ دنیاوی ساز و سامان اور دلائل کی روشنی میں دیکھا جائے تو عددی قوت اور سامانِ حرب میں کفار کا پلڑا بھاری تھا۔ دلیل کے ساتھ چلنے والا کبھی یہ تصور بھی نہ کرتا کہ اہلِ اسلام اور کفار کے درمیان جنگ ہو سکتی ہے، وہ یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اہلِ اسلام اپنی عددی قلت اور بے سر وسامانی کے باوجود غالب آ سکتے ہیں، لیکن جب رب کا فیصلہ آن پہنچا تو ایسے ہی ہوا۔ یہ آیت ظاہری دلیل کے ٹوٹنے پر دلالت کرتی ہے ناں کہ دلیل کے قائم ہونے پر۔ عربی ایک قدیم اور بلیغ زبان ہے، اس کے مقابلے میں اردو بے مایہ ہے، خواہ ہماری لسانی عصبیت کو ٹھیس ہی کیوں نہ پہنچے، بات ایسے ہی ہے۔ ’’بینہ‘‘ کا اصل مفہوم ہے ’’واضح طور پر‘‘ جسے انگلش میں کہتے ہیں evidently۔ ہماری اردو کی کم مائیگی نے اس کا ترجمہ دلیل کر دیا۔ مفہوم یہ نہیں کہ جو مرتا ہے کسی دلیل کے ساتھ مرتا ہے اور جو زندہ رہتا ہے کسی دلیل کے ساتھ زندہ رہتا ہے۔ برادرانِ کرام! آیت کے سیاق و سباق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، آیت کے ایک جزو کو کل سمجھتے ہوئے، ’’بینہ‘‘ کا ترجمہ فقط ’’دلیل‘‘ کرتے ہوئے آپ اسی نیتجے پر پہنچیں گے جس پر آپ پہلے سے ’’پہنچے ہوئے ہیں‘‘۔
آمدم برسرِ مطلب، انا کی اپنی دلیل ہے۔ ہر ظالم شخص کے پاس اپنے ظلم کے جواز کی ایک اپنی دلیل موجود ہوتی ہے۔ دلیل صرف ذہن کو قائل کرتی ہے، یہ دل کو مائل نہیں کرتی، اور دل کو نظر کے تیر سے بھی کہاں گھائل کرتی ہے!! شام کے محلات تعمیر کرنے والوں نے بھی یہ دلیل دی تھی کہ ہم اسلام کی شوکت و عظمت دکھانے کے لیے یہ سنگ و خشت کی تعمیرات کر رہے ہیں۔ زور اور زر کے پروردہ یہ بھول گئے کہ اسلام کا حقیقی فخر تو فقر ہے۔۔۔ فقرِ سلمان و بوذر۔۔۔ فقرِ حیدر۔۔۔ جس فقر پر سرکارِ دو عالمؐ کو فخر ہے۔
انا کا لازمی نتیجہ عناد ہے۔ انا کے الاؤ کے گرد سب کے سب منفی جذبے رقص کرنے لگتے ہیں۔ حسد، بغض، نفرت، طنز، طعن و تشنیع سب سفلی جذبات فقط ایک انا کی تسکین کے لیے کسی عامل کے موکلات کی طرح دم بھر میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ انا کا اسیر ایک ایسے زندان میں ہے جس میں کوئی روزن نہیں، وہ کسی دیوارِ بے در کی طرف رخ کیے بیٹھا ہے اور اس پر مرتسم سایوں کو دیکھتا ہے، سایوں سے باتیں کرتا ہے۔ وہ اپنے مکالمات ہی کو مقالاتِ افلاطون سمجھتا ہے۔ انہیں دوسروں پر ٹھونستا ہے، خود کو ہمہ وقت درست اور دوسروں کو غلط سمجھتا ہے۔ تفنن طبع کے لیے پہلے ایک لطیفہ سن لیں، لطیفے سے لطایف کشید کیے جا سکتے ہیں۔ ایک بیگم صاحبہ زندگی میں پہلی مرتبہ موٹر وے پر گاڑی لے گئیں۔ گھر فون کر رہی ہیں اور بڑے ہی تشویشناک لہجے میں بتا رہی ہیں، پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے لوگوں کو، جسے دیکھو موٹر وے پر ون وے کی خلاف ورزی کرتا ہوا سامنے سے دندناتا چلا آ رہا ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے۔ اجماع ایک اہم اصولِ دین ہے۔ فرمایا گیا کہ میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہ ہو گی، اگر تم ان میں اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے سوادِ اعظم کا ساتھ دو۔ غیر فطری جذبوں کے زیرِ اثر معکوس راستوں پر بھٹکنے والا انسان اگر اپنی فطرتِ سلیم پر واپس آ جائے تو صراطِ مستقیم پر آ جائے گا۔ صراطِ مستقیم پر چلنے والا روحِ دین سے روشناس کرا دیاجاتا ہے، اس کے اندر فرقان ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ بھانت بھانت کی دلیلیں اس کے سفر کو بے سمت نہیں ہونے دیتیں۔
انا کو کہاں تک فنا کرنا ہے، قرآن گواہ ہے، ’’فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک۔۔۔ پس! تمہارے رب کی قسم، یہ لوگ مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنا لیں پھر جو کچھ تم حکم فرما دو اپنے دلوں میں اس سے کوئی رکاوٹ نہ پائیں اوراچھی طرح دل سے مان لیں‘‘۔
انا جب تک کسی چوکھٹ پر سجدہ ریز نہیں ہوتی، انسان کی عبادت ہو، سیاست ہو یا پھرکوئی سیادت، وہ بجائے اک زینہ سعادت کے منزلِ شقاوت بن جاتی ہے۔ وہ ایک چوکھٹ ہے۔۔۔ شہرِ علم میں نصب ایک چوکھٹ جس سے اس شہر کی طرف جانے کا اذن بھی ملتا ہے، راستہ بھی۔۔۔ اور پھرمنزل بھی!!
صد رائیگاں ہوئے، ابلیس کا مقدر ہوئے
وہ سجدے جو کسی چوکھٹ کے روبرو نہ ہوئے

تبصرے بند ہیں.