ہمارے ایدھی صاحبان!

23

پاکستان کے بارے میں جب بھی میں اُس کے بدنیت حکمرانوں کے کردار کے حوالے سے فکرمندہوتا ہوں ایک چیز مجھے بڑا حوصلہ دیتی ہے اور میری ساری فکریں دُور کردیتی ہے، اور وہ یہ ہے جس ملک کو اللہ نے ڈاکٹر ادیب رضوی، ڈاکٹر عامر عزیز اور ڈاکٹر امجد ثاقب جیسی عظیم نعمتیں بخش رکھی ہوں، وہ ملک ہمیشہ قائم و دائم ہی رہے گا۔ اُن کی برکتوں سے رہے گا، اصل میں اکثریت ’’گندگی ‘‘ پسند ہے، ہر شعبے میں اچھے لوگ موجود ہیں، اس ضمن میں سینکڑوں مثالیں ہیں، حتیٰ کہ ہماری سیاست میں بھی ہیں، مگر ہماری خرابی یہ ہے اچھائی ہمیں اچھی نہیںلگتی، کسی میں کوئی خوبی ہو ہم دوسروں کو اُس کے بارے میں بتاتے ہوئے ایسے شرماتے ہیں جیسے یہ کوئی ’’گناہ کبیرہ‘‘ ہو، اور کسی میں کوئی بُرائی ہو ہم بڑھ چڑھ کر اسے بیان کرنے کے عمل کو باقاعدہ طورپر ’’کارثواب‘‘ سمجھتے ہیں،اِن حالات میں یوں محسوس ہوتا ہے یہ معاشرہ اچھائی سے مکمل طورپر ناپاک ہوچکا ہے، مگر حقیقت میں ایسی بات نہیں ہے، ایسی بات ہوتی ہم ہرلحاظ سے مکمل طورپر اب تک برباد ہوچکے ہوتے ، یہ ملک صرف اِس وجہ سے ابھی تک قائم ودائم ہے یہاں اچھائی موجود ہے اور بُرائی کے خلاف مزاحمت بھی اچھی خاصی موجود ہے۔ مجھے بہت خوشی ہے، بلکہ سچ پوچھیں میری تو عید سے پہلے عید ہوگئی جب یہ خبر مجھے ملی عالمی شہرت کے حامل فلاحی ادارے اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کو دوروز قبل نوبل پرائز ملا جو پاکستان کے لیے واقعی ایک اعزاز ہے، مگر اُن کا اصل اعزاز وہی ہے جو قدرت نے اُنہیں انسانیت کی بے پناہ خدمت کی صورت میں عطا کررکھا ہے، اُنہوں نے جب سول سروس چھوڑی ہم سوچ رہے تھے یہ کیسا پاگل پن ہے، سول سروس سے بڑھ کر نعمت پاکستان میں بھلاکوئی ہوسکتی ہے؟ مگر تقدیر نے اُن کے لیے ایک بڑا انعام مقرر کررکھا تھا، …کوئی چیف سیکرٹری، کوئی سیکرٹری، کوئی کمشنر، ڈپٹی کمشنر وغیرہ یا بڑے سے بڑے سرکاری عہدے پر فائز کوئی شخص انسانیت کی ویسی خدمت تمام تروسائل ہونے کے باوجود شاید نہیں کرسکتا جو امجد ثاقب نے وسائل کی بے پناہ کمی کے باوجود کی۔ البتہ یہ طے ہے ہمارے بیوروکریٹس ان جیسی سوچ اپنا لیں، اپنے اندر اُن جیسا صبر، تحمل اور جدوجہد کی آرزو پیدا کرلیں یہ ملک بڑی بڑی کامیابیوں سے ہمکنار ہوسکتا ہے، پاکستان میں سب کچھ ہے، صرف نیک نیتی نہیں ہے، ہمارے اعلیٰ کرداروں کو یہ نعمت اللہ عطا فرمادے تو پاکستان سالوں میں نہیں دنوں میں ترقی کے سب سے اُونچے مقام پر پہنچ سکتا ہے، غربت سے نمٹا جاسکتا ہے، نیت کی غربت سے نہیں نمٹا جاسکتا، ہمارا المیہ یہ ہے مجموعی حیثیت میں ہم نیت کے غریب ہیں، اور اس لعنت سے چھٹکارا بھی حاصل نہیں کرنا چاہتے … دوسری مثال میں نے ڈاکٹر ادیب رضوی کی دی، اُنہوں نے میڈیکل کے شعبے میں انسانی خدمت کے جوکمالات دکھائے اُن کی مثال نہیں ملتی، میرا ایمان ہے وہ خود تو ہیں ہی جنتی، مگر جو جوان کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، وہ بھی جنتی ہے، اُن سے محبت کرنے والے سب جنتی ہیں، …پہلے میں اُنہیں زیادہ نہیں جانتا تھا، مگر وطن عزیز بلکہ دنیا کے بہترین آرتھوپیڈک سرجن پروفیسر عامر عزیز نے اُن کی خدمات کی تفصیلات سے مجھے آگاہ کیا، پھر جو کچھ اپنے طورپر اُن کے بارے میں ، میں نے جانا ، یقین کریں میرے دل میں رتی بھر شک نہیں رہا ہمارے ہرقسم کے حکمرانوں کی تمام تر کمینگیوں، نااہلیوں اوربداخلاقیوں و بددیانتیوں کے باوجود یہ ملک ڈاکٹر ادیب رضوی جیسے لوگوں کی نیکیوں کے ثمر کی صورت میں اب تک قائم ہے، … جہاں تک ڈاکٹر ادیب رضوی کو اپنا آئیڈیل قرار دینے والے پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز کا تعلق ہے وہ  بھی قدرت کا پاکستان کو بخشا ہوا ایسا انعام ایسا پھل ایسا اثاثہ ہیں جس کے دم سے جس کی تاثیر سے پاکستان میں انسانیت کا بھرم ابھی تک قائم ہے ، وہ گھرکی ہسپتال کے چیئرمین ہیں، یہ ہسپتال اُن کی سربراہی میں ایسے ایسے کارنامے کرنے جارہا ہے مجھے یقین ہے  بہت جدید ہسپتال کراچی کے آغا خان ہسپتال سے آگے نہ بھی نکل سکاپیچھے بھی نہیں رہے گا، ابھی پچھلے دنوں یہاں سائبرنائف کا افتتاح ہوا، یہ جسم کے مختلف حصوں خصوصاً دماغ میں ٹیومر کے جدید ترین علاج کا ایک ذریعہ ہے، گزشتہ ایک ماہ میں کئی مریض صحت یاب ہوچکے ہیں، اس کے علاوہ ہارٹ سرجری کا اہتمام بھی یہاں کردیا گیا ۔ پروفیسر عامر عزیز اعتماد کا ایک نام ہے، کچھ لوگ تو اُنہیں کہتے ہی ’’پروفیسر اعتماد عزیز‘‘ہیں،…گھرکی ہسپتال کا افتتاح عبدالستار ایدھی نے کیا تھا، ایدھی صاحب چلے گئے مگر اُن کی رحمتیں اُن کی برکتیں ڈاکٹر عامر عزیز  ، ڈاکٹر ادیب رضوی اور ڈاکٹر امجد ثاقب کی صورت میں اب بھی موجود ہیں، یقین کریں عامر عزیز صاحب کی عمر میرے خیال میں پینسٹھ برس ضرور ہوگی ، عمر کے اِس حصے میں بھی رات دن جس طرح مستحق مریضوں کی خدمت میں، میں اُنہیں مگن دیکھتا ہوں مجھے اُن پر رشک آتا ہے، میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل رشک وہ اِس عمل پر ہیں اُنہوں نے اپنا علم اپنا ہنر اپنے تک نہیں رکھا، جو پاکستان میں بڑے بڑے ڈاکٹروں یا ڈاکوئوں کا عمومی رویہ ہے، پروفیسر عامر عزیز نے کئی عامر عزیز پیدا کردیئے ہیں، وہ اکثر فرماتے ہیں میں اگر اپنا علم اپنا ہنر اپنے ساتھ لے کر قبر میں چلے گیا، میں اگر سینکڑوں عامر عزیز پیدا نہ کرکے گیا ، میں اپنے رب کو کیا جواب دوں گا؟۔سو، اب پروفیسر شہزاد جاوید، پروفیسر محمد نعیم، پروفیسر رضوان اکرم، پروفیسر عتیق الزمان کی صورت میں کئی عامر عزیز اب تک وہ پیدا کرچکے ہیں، حتیٰ کہ اپنے بیٹوں ڈاکٹر عمر عزیز اور ڈاکٹر اسد عزیز کو بھی ’’عامر عزیز‘‘ بنانے کے لیے وہ کوشاں ہیں، اُن سے اُسی طرح کی خدمات وہ لیتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ خود اپنے شعبے کا ایک ’’برانڈ‘‘ بنے…گھرکی ہسپتال کے حالیہ پروجیکٹ سائبر نائف ودیگر جاری وساری پروجیکٹس کے لیے کروڑوں روپے درکار ہیں، ابھی پچھلے دنوں پروفیسر عامر عزیز اور برادرم نعیم گھرکی فنڈ ریزنگ کے لیے برطانیہ مانچسٹر گئے ہوئے تھے، لوگوں نے دل کھول کر مدد کی، پاکستان میں بھی  بے شمار مخیر حضرات اس کارخیر میں اپنا حصہ ڈالتے رہتے ہیں،اس ضمن میں سب سے بڑا اور اہم کردار گھرکی ہسپتال کے سابق چیئرمین جناب محسن بلال گھرکی کا ہے۔ گھرکی ہسپتال بغیر کسی سرکاری امداد کے اپنی مدد آپ کے تحت مستحق مریضوں کی مفت خدمات کے لیے رات دن کوشاں ہے، جہاں اِس ہسپتال کے چیئرمین پروفیسر عامر عزیز کو آپ کی دعائوں کی ضرورت ہے، وہاں اس ہسپتال کو آپ کی مالی امداد کی ضرورت بھی ہے، میں چند ایسے فلاحی ادارے ہیں جن کی مدد اس پورے یقین کے ساتھ آپ کرسکتے ہیں کہ آپ کی دی ہوئی امداد یا زکوٰۃ کا ہرگز غلط استعمال نہیں ہوگا، شوکت خانم ، اخوت اور گھرکی ہسپتال ایسے ہی بااعتماد ادارے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.