پی ٹی آئی اور ق لیگ کا اتحاد

85

امپورٹڈ حکومت نا منطور کا نعرہ سوشل میڈیا کے بعد ملک کے طول و عرض میں بھی مقبول عام ہو رہا ہے ، انتخابات اب نوشتہ دیوار ہیں، کیونکہ عمران خان اور اپوزیشن کے بعد اب مولانا فضل الرحمان جیسے جید حکومتی اتحادی بھی انتخابات اور نئے مینڈیٹ کی بات کر رہے ہیں۔ ویسے بھی ملکی حالات کو تھوڑے عرصہ میں بہترین سطح پر لانا موجودہ مخلوط حکومت کے لئے آسان نہیں ہو گا ،پنجاب جیسے بڑے صوبے میں ابھی تک حکمرانی ہی ایک آئینی مسئلہ بنا ہوا ہے اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہا کہ یہاں حکمران کون ہے ؟ انتظامی حالات روز بروز خراب ہو رہے ہیں ، بیورو کریسی کو تو وفاق نے کنٹرول کرنا شروع کر دیا ہے مگر سیاسی حکومتی معاملات ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں۔آئندہ الیکشن میں موجودہ حکومتی اتحاد میں سے کس کس کا اتحاد برقرار رہے گا ، یہ معاملات بھی ابھی مخمصے کا شکار ہیں جبکہ دوسری طرف موجودہ اپوزیشن میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) ایک دوسرے کے ساتھ چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) اور پنجاب کے چودھری خاندان کی سیاست ایک نئے دور میں داخل ہو چکی ہے ، اس کے باوجود کہ پی ڈی ایم نے چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ پنجاب کی پیشکش کی مگر چودھری خاندان کے سیاسی وارث چودھری مونس الٰہی نے تحریک عدم اعتماد کے موقع پر عمران خان کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا اور بڑی جرأت سے کہا کوئی بات نہیں اگر پرانی رفاقت کو قائم رکھنے کی قیمت ادا کرنے کیلئے جیل جانا پڑا تو اس سے دریغ نہیں کریں گے، اگرچہ اس وجہ سے چودھری خاندان کے اندر معمولی سی رنجش بھی پیدا ہوئی اور طارق بشیر چیمہ جیسے مخلص دوست الگ ہو گئے ، کہا جا رہا ہے کہ چودھری خاندان کے سیاسی وارث مونس الٰہی ہونگے،اگر چہ بڑے چودھری صاحب کے بیٹے سالک حسین اور شافع حسین بھی حلقہ کی سیاست اور کاروبار میں ہیں مگر کل وقتی سیاست مونس الٰہی نے ہی کی ، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اور ملکی سیاست کے اسرارو رموز چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی کی رفاقت میں طویل وقت گزار کر سیکھ چکے ہیں،پنجاب ہی نہیں ملکی سطح پر سیاستدانوں سے رابطے اور تعلقات بنانے اور قائم رکھنے کے گر سے بھی آگاہ ہیں،سچ یہ ہے کہ اس وقت مریم نواز،حمزہ شہباز اور بلاول بھٹو کے ساتھ ساتھ وہ بھی اگلی نسل کا اچھا انتخاب ہیں،یہی وجہ ہے کہ ق لیگ کے سربراہان نے عمران خان کے ساتھ سیاسی رفاقت قائم رکھنے کا فیصلہ کیا،جس کی بڑی قیمت گزشتہ دنوں پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے دوران چودھری پرویز الٰہی نے اداکی،تشدد کے باعث وہ اور ان کے میڈیا ایڈوائزر ہمارے دوست اقبال چودھری آج بھی صاحب فراش ہیں،لیکن اگر ق لیگ پی ڈی ایم کا ساتھ دیتی اور عمران خان کیخلاف زرداری صاحب کی پیشکش قبول کر لیتی تو چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ تو شاید بن جاتے مگر ان کا سیاسی کیریئر دائو پر لگ جاتا، پنجاب میں شریف اور چودھری خاندان ایک دوسرے سے اب بہت دور جا چکے ہیں ،وقتی طور پر وہ مل بھی جاتے تو دل ملنا بہت مشکل تھا جبکہ پنجاب کی حد تک ق لیگ تحریک انصاف کی فطری اتحادی ہے،چودھری خاندان کو تو پنجاب کی سیاست کا وسیع تجربہ ہے،جوڑ توڑ کے ہنر سے بھی آگاہ ہیں،دوستی نبھانا اور تعلق قائم رکھنا اس خاندان کی روایت رہی ہے۔
پی ٹی آئی کو جن گونا گوں حالات کا آخری دنوں میں سامنا کرنا پڑا اس کی بھی بنیادی وجہ ق لیگ سے ماضی میں اس کے اتحاد کی جڑیں کمزور ہونا تھیں اگر عمران خان شروع میں ہی چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کی ذمہ داری سے نوازتے تو ان حالات کا سامنا ہی نہ کرنا پڑتا،چودھری خاندان کوآج بھی صوبہ میں اہمیت حاصل ہے،ان کی بات مانی جاتی ہے،عوام میں بھی ان کی جڑیں مضبوط ہیں، پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ دی جاتی تو ارکان منحرف ہوتے نہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی،اس حقیقت کو سمجھنے کی اشد ضرورت تھی کہ پی ٹی آئی میں پرویز الٰہی کے جوڑ اور پائے کا کوئی سیاست دان نہیں،ان حالات میں پرویزالٰہی بہترین پرفارم کر سکتے تھے ، دوسری طرف موجودہ حکومتی جماعتوں میں ذہنی ہم آہنگی کا فقدان ہے ،پنجاب میں ن اور پیپلز پارٹی کو مشترکہ امیدوار لانے میں مشکلات ہوں گی ، ابھی تو اتحادی جماعتوں میں الیکشن کے انعقاد پر ہی واضح اختلافات ہیں،اختر مینگل اتحاد کو خیر باد کہہ چکے اور فضل الر حمٰن نے فوری عام انتخابات کا مطالبہ کر دیا ہے،ایسی صورت میں ان کا مخلوط حکومت چلانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،الیکشن سے پہلے ہی جوتیوں میں دال بٹنے کا اندیشہ ہے مگر عام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ پر تو سر پھٹول کا واضح امکان دکھائی دے رہا ہے۔ان حالات میں پی ٹی آئی اور ق لیگ اچھے ساتھی ثابت ہو سکتے ہیں اور الیکشن جوآئندہ مالی سال کے بجٹ کے فوری بعد ممکن دکھائی دے رہے ہیں، میں بھی ق لیگ تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کا انتخابی اتحاد کامیابی کا موجب بن سکتا ہے ،سیانے کہتے ہیں آزمودہ کو آزمانا نہیں پڑتا، پنجاب میں ق لیگ اور اس کے راہنماؤں کے سیاسی اور سماجی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ،وہ مستقبل میں بھی اچھا انتخاب ثابت ہوں گے،چودھری خاندان کے بلوچ اور پختون قوم پرستوں سے بھی اچھے تعلقات ہیں،اسٹیبلشمنٹ میں بھی ان کی ریپوٹیشن اچھی ہے،سندھی قوم پرستوں کے اتحاد گرینڈ ڈیمو کریٹکس الائنس سے بھی ان کے وسیع رابطے ہیں،پنجاب میں تو وہ خود پانچ سال وزیر اعلیٰ رہے اور اس حیثیت سے ان کا دورآج بھی مثالی ہے اور یاد کیا جاتا ہے،قومی ایشوز پر تحریک انصاف اور ق لیگ میں مماثلت ہے مگر ماضی میں پنجاب سے الیکٹ ایبلز نے ماحول خراب کیا جس کی وجہ سے یہ نوبت آئی کہ پی ٹی آئی حکومت ماضی کا حصہ بن گئی۔
ملکی سیاسی حالات حکومت کی تبدیلی کے بعد بھی پر سکون دکھائی نہیں دیتے ، موجوں کی طغیانی ساحل سے پسپا ہو کر پیچھے چلی گئی ہے لیکن لہروں کا شور اب بھی کانوں کو سنائی دے رہا ہے،یہ مدو جذر کسی بھی وقت ساحل پر آکر سر پٹک سکتا ہے،جس کیلئے ایک مضبوط مستحکم مؤثر اور منظم اپوزیشن کی سخت ضرورت ہے اور ق لیگ کے بغیر پی ٹی آئی کو پنجاب میں کامیابی بہت مشکل ہو گی،اگر چہ عمران خان میدان عمل میں تن تنہا نکل چکے مگر جیسے انہوں نے شیخ رشید کو ساتھ رکھا ہے ق لیگ کو بھی ساتھ رکھیں،عمران خان آج ، جمعرات کو مینار پاکستان میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے جا رہے ہیں اس موقع پر اہم اعلانات متوقع ہیں،خیال ہے کہ عید کے بعد وہ ملک بھر میں دھرنوں کی کال دیں گے،ایسے میں ق لیگ بھی ہمقدم ہو تو پنجاب میں زبردست مظاہرے اور دھرنے دئیے جا سکتے ہیں،خاص طور پر دیہی علاقوں میں ،اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد اپوزیشن سے ایوان میں احتجاج کا آپشن نہیں ہے،مگر عوامی سطح پر اپوزیشن کو دبائو بڑھانے کی ضرورت ہو گی اور ق لیگ اس دبائو کو بڑھانے میں پی ٹی آئی کا اچھا بازو ثابت ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.