سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کے مصداق پیغام بہت واضح اور دو ٹوک تھا۔ کہہ دیا گیا ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہونے دیجیے گا۔ ابھی حالات بہت نازک موڑ پر ہیں۔ معمولی غلطی بھی معاملات کو کہیں سے کہیں لیجا سکتی ہے۔ معاملات بگڑے تو حالات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ پھر شاید ہم بھی آپکی مدد نہ کرسکیں۔ جو مطالبات سامنے رکھے گئے ان میں سرِفہرست مریم نواز کو وزیر اعظم ہائوس سے دور رکھنا ہے۔ وہ وہاں نہ آئیں اور اگر کبھی بہ امرِمجبوری آنا بھی پڑے تو وہ زیادہ نمایاں نہ ہوں۔ نواز شریف فی الحال ملک میں واپس آئیں اور نہ ہی میڈیا پر آ کر خطابات کریں۔ انکا ایک غلط پیغام وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت اور مقتدر حلقوں سے ان کے تعلقات میں بڑا بگاڑ پیدا کرسکتا ہے۔ ملک کے طاقتور حلقے مریم نواز کی ماضیِ قریب کی سرگرمیوں اور بیانیے کو پسند کرتے تھے اور نہ ہی وہ اسے اب فراموش کرسکے ہیں۔ چیزیں ابھی تازہ ہیں۔ بہتری میں کچھ وقت لگے گا۔ ایسے میں عمران خان کی احتجاجی تحریک کے پیش نظر اگر حالات کو نہ سنبھالا گیا تو پانی سرسے اوپر بھی ہوسکتا ہے۔
حکومت امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری لائے اورسابقہ حکومت کے پیدا کردہ تاثر کو یکسر زائل نہ بھی کر سکے تو کم از کم اس میں کمی ضرور لائے۔ امریکہ کی مدد کے بغیر فی الحال پاکستان اپنے معاشی اور دفاعی مسائل حل نہیں کر سکتا۔ ایک اور مطالبہ جو حکومت کے سامنے رکھا گیا وہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر رکھنا ہے۔ حکومت کی جانب سے افغانستان کو خوراک کی ترسیل اپریل کے مہینے میں بند کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کا بھی کہا گیا ہے۔
اگرچہ یہ ایک خوش آئند امر ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی وفاقی کابینہ نے بالآخر حلف اٹھا لیا ہے جس سے غیر یقینی سیاسی صورت حال میں بہتری کی امید پیدا ہوئی ہے تاہم اپوزیشن کی جانب سے بیشتر وزراء کی ساکھ کے حوالے سے کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے یہ جملے کہ ہمیں اب بس کام ، کام اور کام کرنا ہے بظاہر خوشنما محسوس ہوتے ہیں تاہم ان پر موجودہ حالات میں عمل پیرا ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ مشکلات کے پہاڑ انکے سامنے کھڑے ہیں تاہم اْمید کی جاتی ہے کہ جس طرح انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں صوبہ پنجاب میں معاملات کو چلایا وہ وفاق میں بھی مسائل پر قابو پانے میں کامیاب رہینگے۔ تاہم وقت کی گرد تھمنے میں کچھ وقت لگے گا۔ پارٹی قائد نواز شریف اور مریم نواز کو حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اپنا ہراگلا قدم سوچ سمجھ کر رکھنا ہوگا۔ اگر ان حالات میں شہباز شریف ناکام رہے تو یہ نہ صرف انکی بلکہ مسلم لیگ نواز کی حلیف تمام جماعتوں کی بھی ایک بڑی ناکامی ہوگی۔ چنانچہ سمجھ لینا چاہیے کہ غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔
بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو وزیر خارجہ بن کر جلد حلف اْٹھالیں گے۔ شہباز شریف نے انہیں اس ضمن میں نواز شریف سے ملنے کا مشورہ دیا ہے۔ جس کے لئے وہ جلد لندن میں ان سے ملاقات بھی کرینگے۔ تاہم آشنائے حالات کچھ اور ہی خبر دیتے ہیں۔ جہاں مقتدر حلقے انہیں وزارت خارجہ پر نہیں دیکھنا چاہتے وہاں خود انکی پارٹی اور مسلم لیگ نواز میں یہ بحث چل نکلی ہے کہ چونکہ بلاول بھٹو اپنی پارٹی کے چیئرمین ہیں اس لیے انکا محض وزیر خارجہ بننا انکے اسٹیٹس کے خلاف ہے۔ چنانچہ یا توانہیں ابھی کچھ انتظار کرنا چاہیے یا پھر انہیں کسی ایسے عہدے کا چنائو کرنا چاہیے جو انکے اسٹیٹس کے مطابق ہو۔ آشنائے حالات کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلاول بھٹو کو یہ مشور ہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ موجود حالات میں کچھ عرصہ ابھی لندن ہی میں قیام کریں۔ جہاں تک مقتدر حلقوں کا تعلق ہے تو وہ بھی انہیں اس وزارت کے لئے بہت جونیئر سمجھتے ہیں۔
میدان سیاست میں سوالات اور امکانات تو بہت سے ہیں ، کہنے تو کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہوگا جیسا کہ ماضی کی اپوزیشن جماعتوں پر مشتمل حکومتی الائنس سوچ رہا ہے یا پھر وہ کچھ ہونے جارہا ہے جو سابق حکومت اور اس وقت کی اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی اور اس کے چاہنے والے سوچ رہے ہیں، گھمسان کا سیاسی رن ہے، نواز شریف جہاں ملک کے کم پڑھے لکھے طبقے خاص طور پر بزنس اور تاجر طبقے کو متاثر کرنے میں کامیاب رہے توعمران خان ملک کے پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے کی ایک بڑی تعدادکی سوچ پر حاوی نظر آتے ہیں۔ ملک میں ایک واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ ہر گلی ، ہر محلے اور ہر علاقہ میں لوگ بحث و مباحثے میں الجھے نظر آتے ہیں۔
دونوں جانب کے کارکن امید اور نا امیدی کے منجھدار میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے کارکن سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت ہر جگہ سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔ ان کو اب بھی لگتا ہے کہ عمران اپنی احتجاجی تحریک کے ذریعے تْرپ کاکوئی ایسا پتا پھینکے گئے جو سب کو ورطہ حیرت میں مبتلا کردے گا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ جلد الیکشن کرانے کے نواز شریف کے مطالبے پر اس وقت چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عمل پیرا ہیں۔ تاہم اس امر کے امکانات کہ وہ اپنی احتجاجی تحریک کے بل بوتے پر عوام میں اتنی پذیرائی حاصل کرسکیں گے جس کی بدولت اگر جلد الیکشن ہوتے ہیں تو وہ دو تہائی اکثریت حاصل لر لیں گے، ہنوز مشکل امر ہے۔ عدالت عظمیٰ میں ہونے والی صدارتی ریفرنس کے نتیجے میں خود انکے اور انکے پارٹی رہنمائوں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی بھی عمل میں آ سکتی ہے۔ ایسے میں فارن فنڈنگ کیس میں انکے نا اہل ہونے کے امکان کو بھی یکسر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایسے میں وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی جانب سے اپنے عہدہ کا قلمدان سنبھالتے ہی میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو ختم کرنے کا اعلان خوش آئند ہے۔ سابقہ حکومت نے میڈیا کا گلا دبانے کے لئے جو اقدامات اْٹھائے ان میں میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا فیصلہ بھی انہی کا ایک حصہ ہے۔ کون نہیں جانتا کہ سابق حکومت نے اپنے کوتاہ اندیش مشیروں کے مشوروں پر عمل کرتے ہوئے میڈیا کے ہونٹ سینے اور گلا دبانے کے لئے پیکا سمیت کئی نت نئے ہتھکنڈو ں پر کام کیا۔ انکا یہ کہنا بھی درست ہے کہ پاکستان میں آزادی رائے پر ہر شخص کا حق ہے چنانچہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ ملکر میڈیا کے مسائل کو حل تلاش کرینگے۔
جہاں تک وزیر اعظم شہباز شریف کا تعلق ہے تو انکے لئے ایک اور پیغام بہت واضح ہے کہ آپ کے کرنے کے لئے جو کام بس کام اور بس کام ہیں وہ مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پسے ہوئے عوام ہے۔ انہیں اور انکے رفقا کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ بحیثیت ایک سیاسی جماعت جلد یا بدیر عوام کے پاس جانا ہوگا۔ پٹرول، گیس، بجلی اور بنیادی اشیا خورو نوش کی قیمتیں اعتدال پر لانا انکے لیے ناگزیر ہے۔ اس ایجنڈا کو ان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.