معاشی مشکلات اور عابد بٹ کی تجاویز

23

تجارت کے فروغ کے لئے قرآن کی واضح ہدایات ہیں اللہ تجارت کو پسند کرتے ہیں اور سود سے منع فرماتے ہیںاس لئے تجارت کرنے والوں کی ایک اہمیت ہے ملکی سطح پر ان کی دلجوئی ملک کی ترقی میں بہت فائدہ مند ثابت ہوتی رہی ہے کاروبار کے ہونے سے ایک ملک کو کتنے فائدے ملتے ہیں۔سب سے پہلے اکانومی کو بڑھاوا ملتا ہے، پھر عوام کو نوکریا ں ملتی ہیں، ملک کا پیسا ملکی ترقی میں استعمال ہوتا ہے، گورنمنٹ ٹیکس کی مد میں فائدہ لیتی ہے اکانومی کی ترقی سے ملکی کرنسی بھی مضبوط ہوتی ہے
جب ریاست اورعوام اپنا اپنا حق ادا کرتے ہیں توقوم بننا شروع ہوجاتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب دنیا اس قوم کے گن گاتی ہے یہی معاملہ دنیا کی بہترین اقوام میں سے چینی قوم نے کیا جہاں عام آدمی سے لے کر خاص بننے کا موقع غریب عوام کو بھی اتنا ہی دیا گیا جتنا کہ جیب میں پیسے رکھنے والے شہری کا تھا حکومت نے ریاست اور عوام کے معاملات کو ذمہ داری سمجھ کرپورا کیا اس لئے تو چین پوری دنیا پہ چھا چکا ہے،چین ہمارا پڑوسی اور دوست ملک ہے۔ ہمیں چینی قوم کی محنت سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے چینی گورنمنٹ ہر لمحے اپنی قوم کی ترقی میں فکرمند ہے اور اس لئے دنیا جانتی ہے کہ کیسے چینی گورنمنٹ نے اپنی عوام کو غربت سے نکالا غربت سے نکالنے میں چینی گورنمنٹ نے چھوٹے لیول کے کاروباری معاملات کو اجاگر کیا اور دیکھیں کیسے معروف چیمپئن اور ریکارڈ ہولڈرز کی بات کرتے ہوئے، چین غربت کی کمی میں عالمی رہنما اور چیمپئن ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ، عالمی بینک کے مطابق، 1990 سے 2015 تک 730 ملین سے زیادہ چینیوں نے خود کو غربت سے دور کیا، اس معاملے میں زیادہ تر صنعتی ممالک کو 100-150 سال لگے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شعبے میں چین کی پالیسیاں موثر ہیں سنہ 2016 میں، عالمی بینک کی رپورٹ نے اس بات کی تصدیق بھی کی جب شی جن پنگ نے 2012 میں اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ہر موڑ پر ریاستی معیشت کی اہمیت کو بیان کیا، جب کہ ان کے اردگرد سبھی دیکھتے رہے کہ چین کی تیز رفتار معیشت نجی کاروباریوں کے ذریعے چل رہی ہے۔ اس کے بعد سے، شی نے پالیسی میں ایک غیر واضح تبدیلی کی ہے۔ جس وقت انہوں نے عہدہ سنبھالا، نجی فرمیں چین میں تمام سرمایہ کاری کے تقریباً 50% اور اقتصادی پیداوار کے تقریباً 75% کے لیے ذمہ دار تھیں۔ لیکن جیسا کہ نکولس لارڈی، ایک امریکی ماہر اقتصادیات جنہوں نے طویل عرصے سے چینی معیشت کا مطالعہ کیا ہے، ایک حالیہ تحقیق میں یہ نتیجہ اخذ کیا، ”2012 کے بعد سے، نجی، مارکیٹ سے چلنے والی ترقی نے ریاست کے کردار کو دوبارہ زندہ کرنے کا راستہ دیا ہے۔”
ماؤ دور سے لے کر، چینی ریاستی فرموں کا ہمیشہ معیشت میں اہم کردار رہا ہے، اور کمیونسٹ پارٹی نے ہمیشہ ریاستی فرموں پر براہ راست کنٹرول برقرار رکھا ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے، پارٹی نے ا سے یقینی بنانے کی بھی کوشش کی ہے کہ اس نے نجی کاروبار میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اپنی پہلی میعاد میں، ڑی نے ایک سمندری تبدیلی کی نگرانی کی ہے کہ حکومتی اور نجی کاروبار دونوں کا اکٹھے ہونا معیشت کے کردار کو ڈرامائی طور پر مضبوط کرتی ہے۔
یو ایس نیشنل کاؤنٹر انٹیلی جنس اینڈ سیکیورٹی سینٹر کے ڈائریکٹر سے جب چین کے کاروباریوں کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے ان دو پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ”چینی حکومت کے ساتھ چینی کمپنی کے تعلقات مغرب کی حکومتوں کے ساتھ نجی شعبے کی کمپنی کے تعلقات کی طرح نہیں ہیں”۔شی جن پنگ کے تحت اس طرح کی تبدیلیوں نے امریکہ اور یورپی یونین کو اپنی منڈیوں، ٹیکنالوجی اور کمپنیوں تک چینی رسائی کو محدود نہ کرنے کا بہانہ دیا ہے۔
ملکی سطح پر پرائیویٹ سیکٹر کی کمپنیوں کے درمیان تعلقات، ایک حد تک ، لچکدار ہیں – یقیناً ریاستی کمپنیوں سے زیادہ۔ ملک عادتاً اپنے روزمرہ کے کاموں کا مائیکرو مینیج نہیں کرتی ہے۔ فرمیں بڑے پیمانے پر اب بھی اپنے بنیادی کاروباری فیصلوں کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن ایک تجزیہ کار کے الفاظ میں، چیمبر آف کامرس کا کردار بہت اہم ہے تجارت کے فروغ میں یہ پل کا کام کرتی ہے گورنمنٹ اور بزنس کمیونٹی کی تجارت کو کیسے فروغ دینا ہے، کونسی پالیسیز گورنمنٹ اور بزنس کمیونٹی کے لئے فائدہ مند ہیں ،کسے اختیار کرنے میںفائدہ ہے کسے چھوڑنے میں فائدہ ہے۔ اس لئے پاکستان میں ہر ٹریڈ زون کا علیحدہ چیمبر آف کامرس ہے اور یہ سب ملک کی اکانومی کے بڑھاوے کے لئے کام کر رہی ہیں ااوورسیز پاکستانیوں کا اکانومی کو بہتر کرنے میں بھی بہت ہاتھ ہے جن میں کافی اوورسیز پاکستانیوں کا نام ہیںاوورسیز پاکستان فاؤنڈیشن کا کردار بھی اہم ہے کچھ دن پہلے ایک اوورسیز پاکستانی عابد بٹ جو کافی عرصہ سے اپنا سرمایہ لے کر پاکستان شفٹ ہو چکے ہیں کا انٹرویو سن رہا تھا ، جوکہ ففتھ پلر کے چیئرمین اور آمانا گروپ کے سربراہ ہیں، انہوں نے پاکستان گورنمنٹ کو مشورہ دیا ہے کہ اگر پاکستان کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط کرنا چاہتے ہیں تو بزنس مین کو حکومتی فیصلوں میں شامل کریں اسکے ساتھ ساتھ انہوں نے ٹیکس اور بزنس لاز کے حوالے سے کافی اچھے مشورے دیے جس میں خسارے میں چلنے والی گورنمنٹ سٹیل مل کی مثال کچھ بہتر محسوس نظر آتی ہے اصولاََ دیکھا جا ئے تو گورنمنٹ کا کام ملک چلانا ہے جبکہ بزنس مین کو ساتھ شامل کر کے اور کچھ اختیارات اور ٹارگٹ دے کر اسے بہتر انداز میں چلا سکتا ہے انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ وہ پاکستان میں بیرون ملک سے بہت بڑا سرمایہ لا سکتے ہیں اگر حکومت انہیں اجازت دے تو وہ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پاکستان لا سکتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پاکستان کا ٹیکس ریونیو کس طرح بڑھ سکتا ہے۔
پاکستان بورڈ آف انویسٹمنٹ کے مطابق، ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کل مینوفیکچرنگ سیکٹر کا 46 فیصد ہے اور تقریباً 25 ملین پاکستانیوں کو روزگار فراہم کرتی ہے، جی ڈی پی میں 8.5 فیصد کا حصہ ڈالتی ہے۔ یہ مجموعی برآمدات میں بھی 60 فیصد حصہ ڈالتا ہے اور پاکستان کے لیے زرمبادلہ کمانے والے بڑے اداروں میں سے ایک ہے۔ گورنمنٹ سے گزارش ہے ملکی تجارتی پیداوار کو بڑھانے میں بزنس کمیونٹی کا بازو بنے اور ٹیکس و سہولیات میں مدد کرے ،پھر دیکھیں کیسے ہم بھی چین سے آگے جاتے نظر آئیں گے پاکستان زندہ باد-پائندہ باد

تبصرے بند ہیں.