بیانیہ فروش

95

ارادہ تو تھا کہ اب آگے بڑھیں گے، عمران خان کے دلدل سے نکل کے قومی موضوعات پر بات ہو گی لیکن سابق وزیراعظم جب جھوٹ بول کر توجہ حاصل کرتے ہیں تو اس کے جواب میں دوسری طرف سے سچ آتا ہے اور یوں یہ نیا موضوع بن جاتا ہے۔ یہ طریقہ ہے عمران خان کے خبروں میں رہنے کا۔ مجھے کبھی کرکٹ سے دلچسپی نہیں رہی، یہ قدرتی بات ہے کہ کرکٹ کے حوالے سے میرا کوئی آئیڈیل تھا نہ ہے البتہ بطور ٹیم مجھے کرکٹ ٹیم کے جیتنے کی دعائیں کرنا ہوتی ہیں۔ عمران خان کو میں ہر سال بسنت کے دوسرے دن اخبار میں دیکھتا، گلے میں پیلا ’’پٹکا‘‘ کپڑا، عینک، عورتوں کی اکثریت ہوتی۔ جب کرکٹ چھوڑی تو نوازشریف نے ہسپتال کی جگہ اور آدھے سے زیادہ رقم بھی دی۔ ہسپتال بن گیا۔ جنرل حمید گل کے ساتھ سیاست میں انٹری ماری۔ جنرل مشرف کے در پر دستک دی۔ جنرل حمید گل سے اب تک گود سے گود سفر طے کر کے مسند اقتدار تک پہنچے۔ 2013 میں عمران خان مقبولیت کے عروج پر تھے مگر انتخابات میں تیسرے نمبر پر بھی نہ تھے یہ بات جہانگیر ترین اس وقت کہہ رہے تھے جب وہ عمران خان کے ساتھ تھے۔ پہلا بیانیہ کہ ملک میں انصاف ہو گا، یکساں نظام تعلیم اور انصاف کا مطلب ہر سطح پر انصاف ہو گا۔ پھر حکومت کے قریب ہوئے تو انتخابات سے قبل دھاندلی کے زمرے میں آنے والی حرکت کی کہ 90 دن میں عمران حکومت آ گئی تو فلاں فلاں کارنامے انجام دیں گے پھر 6 مہینے مانگے گئے۔ یہ یاد رہے کہ ان کی تمام کہہ مکرنیوں اور احمقانہ پالیسیوں کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنی ساکھ کی قیمت پر جاری رکھنے دیا۔ اب وقت آیا کہ ریڑھی چھابڑی والا بھی کہنے لگا کہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ میں ایک خودکار نظام ہے جو اپنی عزت پہ حرف آئے، ملکی مفاد ہو تو ردعمل میں آتا ہے۔ حکومت اپنے منشور پر عمل درآمد میں بُری طرح ناکام ہوئی، احتساب انتقام بن گیا۔ آئین شکنی سرپرائز جبکہ چور چور مخالفین کو ڈاکو کہنے والوں کی جب اپنی چوریاں اور ڈکیتیاں زبان زد عام ہوئیں تو پھر بیانیہ بدلا۔ یہ یاد رہے کہ عمران خان دوران حکمرانی بھی کبھی چین کا نظام، ملائیشیا، ترکی، سعودیہ اور کبھی امریکہ یورپ اور کبھی ریاست مدینہ کا نظام کی بتی کے پیچھے عوام کو لگاتا رہا۔ تاریخی بے روزگاری، مہنگائی، لاقانونیت قابو سے باہر ہوئی
تو پھر اپوزیشن نے جو 2019 سے ان کو موقع دیئے جا رہی تھی، تحریک عدم اعتماد لے آئی۔ 8 تاریخ کو تحریک عدم اعتماد آئی تو 27 مارچ تک کسی قسم کی پاکستان اور عمران خان کے خلاف بیرونی سازش یا مداخلت نظر نہ آئی جب اتحادی ساتھ چھوڑ گئے۔ اپنی پارٹی بغاوت کر گئی تو 27 مارچ کو جیب سے ایک نام نہاد خط بیانیہ کے طور پر نکالا کہ امریکہ سازش کر رہا ہے۔ وہ امریکہ جس کا ٹرمپ ان کا آئیڈیل تھا جس نے عمران خان سے کہا کہ پہلے حکمران ہماری بات نہیں مانتے تھے۔ عمران خان نے واپسی پر کہا کہ میں نے ورلڈ کپ جیتا ہے یہ باتیں دہرانا پڑ رہی ہیں کیونکہ عمران خان کی بات میں، مجھے، میرے، عمران سے شروع ہو کر ان کی اپنی بات پر ختم ہوتی ہے۔ انہوں نے روس کا دورہ کیا جبکہ بطور حکمران سب سے پہلے موجودہ تاریخ میں صدر زرداری نے روس کا دورہ کیا تھا۔ چین ابھرتی ہوئی بلکہ اب دنیا میں دوسری سپرپاور ہے صدر زرداری نے 35 کے قریب دورے کیے، نوازشریف نے دورے کیے، سی پیک گوادر بہت دفعہ دہرا چکا۔ اب پولیٹیکل سائنس میں ایک اصطلاح Populist politics کی چلتی ہے یعنی عوام میں جو سلگتے ہوئے کھلتے ہوئے مسائل ہوں ان پر مافوق الفطرت طریقہ سے بات کی جائے۔ عوام کو ذہنی طور پر سن کر دیا جائے وہ گھر کا سودا لینا بھول جائیں، دراصل عمران خان کو 6 ماہ پہلے پتہ چل چکا تھا کہ وہ اب جا رہے ہیں لہٰذا انہوں نے اپنے آئندہ انتخابات کے بیانیے بنانا شروع کر دیئے۔ احتساب کا بیانیہ خاک ہوا کہ خود قابل احتساب ہو گئے۔ چوری کے الزام لگ گئے کرپشن کے قصے عام ہوئے۔ یکدم مارکیٹ میں بھٹو صاحب کو بیچنے کے لیے لے آئے کہ وہ عظیم اور خود دار رہنما تھے، آزاد خارجہ پالیسی اپنائی تھی۔ Post truth politics شروع کی ایک خیالی خاکہ بنایا اور وہ خاکہ عوام میں فروخت کے لیے رکھ دیا۔ ان کے فالوور ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور یہ ان کے سامنے ہر جھوٹ فروخت کرتے ہیں اور وہ ان کا دفاع شروع کر دیتے ہیں حالانکہ عمران خان نے وہ کام کیا جو بھارت نہ کر سکا۔ اداروں کے اندر لڑائی، اداروں کی اداروں سے لڑائی، قوم منتشر، اندرون ملک پاکستانی بیرون ملک پاکستانی آپس میں لڑا دیئے۔ جناب بھٹو کو ہنری کسنجر کی دھمکی، امریکی وزیر کا خط، نکسن کی زاتی محفل میں دی گئی گالی، اندرا گاندھی کا یہ کہنا کہ میں ذلفی پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں، پہلی بار اسلامی سربراہی کانفرنس، امریکہ یورپ کی تیل بندی کر کے تہلکہ مچا دیا۔ ملک کو آئین، تعلیمی ادارے، ہسپتال، سٹیل ملز، زرعی اصلاحات، ایک شکست خوردہ قوم کو دنیا کی عزت دار اقوام میں کھڑا کر دیا۔ پھر ہر سطح کی سازش ہوئی۔ عمران خان کی حکومت کو 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریاں دینے سے امریکہ نے منع کیا تھا۔ ٹرمپ کی اتنی پیروی کی کہ دنیا میں ٹرمپ ہی کہلائے۔ یہ عجیب سیاست دان ہے۔ مذہب کارڈ، ریاست مدینہ، چین، ملائیشیا، ترکی، امریکہ یورپ سب بیچ رہا ہے۔ حتیٰ کہ ایوب خان اور جناب بھٹو کو بھی بیچا اور اب آزادی یا غلامی۔ بندہ پوچھے آزادی کس سے؟ تم اپنا سٹیٹ بنک دے چکے، اس کے گورنر کو آئین سے بالا کر چکے، 15 سال میں لیا جانے والا قرضہ 70 فیصد آپ کے دور میں لیا گیا۔ Economic sovereignty کے بغیر کوئی دوسری بات کرنے والا ذہنی مریض ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کی بات کرنے والے کے معید یوسف نے کہہ دیا تھا کہ ہم سے کسی نے اڈے مانگے ہی نہیں تھے، ملک چلانے کے لیے پیسے نہیں اپنا بینک 6 ارب روپے میں بیچ چکے، عوام نڈھال کر دیئے، ادارے تھکا دیئے، آئین شکنی کی نئی مثالیں پیدا کر دیں۔ قوم کو انتشار، انارکی اور خانہ جنگی کی سی صورت حال میں مبتلا کر دیا۔ یہی بیانیہ ہے۔ خان صاحب پہلے اپنے حکمرانی دور کا حساب دینا ہو گا۔ ایک جعلی خط کو کفن بنا کر آپ اپنے دور حکومت میں ملک کو بربادی کے گھاٹ اتارنے کی حرکت کو دفن نہیں کر سکتے۔ آپ کا بیانیہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے دفن کر دیا۔ آپ کے فالوورز 2013 میں جو تھے وہ بعد میں کبھی نہیں ہوئے، یہ فوٹو شاپ جلسے، آزادی، غلامی کا چورن نہیں بکے گا۔ شور اٹھے گا جیسے سیون اپ نمک ڈالنے سے اوپر آتی ہے پھر اوقات میں آ جاتی ہے جیسے آپ کی دیانت داری ایک گھڑی کی مار نکلی اور چودھری پرویز الٰہی ایک ڈپٹی سپیکر کے اختیارات کے استعمال پر ڈھیر ہو گئے۔ بیانیہ فروش اب عملیت کا مظاہرہ کریں تو لوگ بیانیے پر یقین کریں گے ورنہ محض بیانیہ فروشی ڈھیر ہو جائے گی۔

تبصرے بند ہیں.