تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو چکی، نئے وزیر اعظم کا انتخاب ہو چکا اور نئی حکومت اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکی۔ اس سارے ہنگامے میں البتہ ایک المیہ تھا جو سماج پر بیت گیا۔ بھائی بھائی سے ناراض ہوا،گھروں میں پھوٹ پڑی، دوست دست و گریبان ہوئے ، درسگاہوں میں نفرتوں کا راج رہا ، سوشل میڈیا میدان جنگ بنا رہا اور ٹی وی چینلز آگ اگلتے رہے۔ اب جبکہ گرد بیٹھ چکی، کچھ لوگ منزل مراد کو پا چکے اور کچھ تخت سے اتار دیے گئے ، لازم ہے کہ سماج بھی اپنی روش پر غور کرے۔ ان ساری سیاسی بحثوں اور ہنگاموں میں میرا اورآپ کا کوئی ذاتی مفاد نہیںتھا ، توکیوں ناچند باتوں پر سنجیدگی سے غور کرلیا جائے۔ جانے والی حکومت پی ٹی آئی کی تھی توپچھلے پونے چار سال کی کارکردگی کا سوال بھی انہی سے ہوگا ،اس لیے میں پی ٹی آئی قیادت سے سنجیدگی سے چند سوالات کرنا چاہتا ہوں لیکن سوالات سے پہلے میں چند باتوں کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔
عمران خان ہوں ، زرداری، شہباز شریف یا مولانا مجھے کسی سے کوئی ذاتی خار ہے نہ ہی میں ان میں سے کسی کو دودھ کا دھلا ہوا سمجھتا ہوں۔ان میں سے کسی ایک کی مخالفت کا یہ مطلب نہیں کہ میں دوسروں کی حمایت کر رہا ہوں، نہ ہی اس کے برعکس۔کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے ورکرز کی سیاسی تربیت کا اہتمام نہیں کیا ، تحریک انصاف سے لے کر جمعیت تک سب جماعتوں کے کارکن بدتہذیبی و بدتمیزی میں طاق ہیں۔تمام سیاسی جماعتوں کے پیرو کاروں میں حقیقت پسندی نہ ہونے کے برابر ، سب میں جذباتیت، ہیجان ، دشنام اور مبالغہ آمیزی کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اپنا لیڈر خدا کا چنیدہ اور دوسرا شیطان صفت ہے۔ان بنیادی باتوں کے اعتراف کے بعدہم سوالات کی طرف بڑھتے ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان کی تمام پالیسیوں کا دار ومدار بشریٰ بی بی کے جادو ٹونوں پر تھا؟کیا یہ بات بائیس کروڑ عوام اور خود عمران خان کے لیے باعث عار نہیں تھی کہ بنی گالہ کا ایک کمرا اور اس کمرے میں بیٹھی ایک عورت ملکی تقدیر کے فیصلے کرتی تھی ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان نے بزدار جیسے شخص کو آدھا پاکستان حوالے کر کے غلطی کی تھی؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان کے ارد گرد موجود لوگ لوٹے ، کرپٹ ،مفاد پرست اور دیگر سیاسی جماعتوں کے دھتکارے ہوئے لوگ تھے ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان اگر اپنے ارد گرد لوٹے اور کرپٹ افراد بٹھا سکتے تھے تو قوم کے وسیع تر مفاد میں اپوزیشن سے بھی مفاہمت کر تے اور ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرتے ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان انتقام اور ردعمل کی سیاست سے آگے نہیں بڑھ سکے ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان اپنے مزعومہ چوروں ، ڈاکووں اور لٹیروں سے کرپشن کا ایک پیسہ نہیں نکلوا سکے ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان جن لوٹوں کی بنیاد پر حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تھے انہی لوٹوں کے جانے سے ناکام ہوئے؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان ملکی معیشت کو درست سمت پر نہیں لا سکے اور ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھکیل دیا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان میں ایک لیڈر کی صفات ، حکومت سنبھالنے کے بعد بھی پیدا نہ ہوسکیں ؟وہ رد عمل اور انتقام کی سیاست سے نہیں نکل سکے اور رد عمل کا شکار انسان نارمل ری ایکٹ نہیں کر سکتا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ حکومت سنبھالنے کے بعد بھی عمران خان اپنی ذات کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے، ان کی خود پسندی، نرگسیت اور تکبرعروج پر رہا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان کی ذات قول و عمل کے تضاد کی حسین شاہکار بنی رہی ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکی سازش کا ڈھونگ رچانے والے عمران خان نے فرانسیسی سفیر کو نکالنے سے اس لیے انکار کر دیا تھا کہ یورپی یونین ناراض ہو جائے گی؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان نے ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ قرضے لیے اور اس کے باوجود خاطر خواہ ترقیاتی کام نہیں کروا سکے ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان کے دور حکومت میں سب سے زیادہ بوجھ غریب عوام پر پڑا ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ صرف پانچ سیٹوں والی پارٹی اور پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو سے بلیک میل ہوئے ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ اقتدار کی بجائے اقدار کی سیاست کرنے میں ناکام رہے ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے اور اسی کے دھکے سے نکالے گئے ؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ عمران خان فارن پالیسی میں ناکام رہے اور انہوں نے دوست ملکوں کو ناراض کیا-
کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ اپنی سیاست کے ساتھ ساتھ ریاستی پالیسیوں میں بھی حقیقت پسندی کی بجائے جذباتیت اور نرگسیت کا شکار رہے؟
یہ میں نے چند اہم امور کی نشاندہی کی ہے، قارئین از خود اس لسٹ میں سنجیدہ اضافہ کرسکتے ہیں۔اور پی ٹی آئی قیادت سے بھی امید ہے کہ وہ ان امور پر سنجیدگی سے غور کریں گے اور اپنی آیندہ جدوجہد کے عنوان میں ان غلطیوں کو مدنظر رکھیں گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.