وزیراعظم کے لیے پیغام

19

بالآخر پھر وہی ہوا جو نوشتہ دیوار تھا۔اْس کا جانا ہی بنتا تھا۔وہ چلا گیا اور اپنے پیچھے واپسی کے بہت سے دروازے بھی بند کرگیا۔ اب اسکی اقتدار میں واپسی ناممکن نہ سہی ،محال تو ضرور ہے۔
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے چلے آئے ہیں لیکن
بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے
بھلا کب تک آپ پاکستانیوں کی اکثریت کے اعتماد کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔ماضی گواہ ہے کہ جس نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی اسکا اقتدار زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا او ر اسے قصہ پارینہ بننے میں زیادہ وقت نہ لگا۔بھلا آپ نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ آپ عوام کو بے وقوف بناتے رہیں گے اور وہ بلا چوں چراںآپکی ہر بات مانتی چلے جائے گی۔یقینا آپ کی یاداشتوں سے یہ جلد محو نہ ہو گا کہ آپ نے اقتدار میں آنے کے لئے بہت سے بلند و بانگ دعوے اور سینکڑوں وعدے کیے تھے۔آپ نے اپنے مخالفین کو چور ، ڈاکو اور ناجانے کیا کیا کہا تھا ، لوگوں کی ایک بڑی تعداد آپ کی چکنی چپڑی باتوں میں آ بھی گئی اور آپ کو اپنا مسیحا سمجھنے لگی۔عمران خان رب ذو الجلال و الاکرام نے آپ کو ایک نادر موقع فراہم کیا تھاکہ اقتدار میں آکر سوختہ بال پاکستانی عوام کی خدمت کریں ،ان وعدوں کی سختی کے ساتھ پاسداری کریں جن کی بنیاد پر عوام آپکو اقتدار میں لائے۔ تاہم اگر آپکے چار سالہ دور ِ اقتدار پر نظر دوڑائیں تو یہ کہنا یقینا درست ہوگا کہ عمران خان کا دور ِ حکومت بد ترین بد انتظامی ،ناقابل برداشت مہنگائی، ملک و قوم پر قرضوں کے بے پناہ بوجھ، جھوٹ اور یوٹرنز سے عبارت رہا۔نہ لاکھوں گھروں کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی کروڑوں نوکریوں کی کوئی خبر۔ آپ ہی بتادیں کہ آپکے دور حکومت میں کتنے نئے ڈیمز ،ہسپتال ،اور یا پھر تعلیمی ادارے بنے۔چند سال پہلے ڈیڑھ سو روپے میں باآسانی ملنے والا گھی کا پیکٹ جب آج ایک غریب پاکستانی کو پانچ سو روپے میں ملے گااور ایسے میں پٹرول ، ڈالر ، گیس اور بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے تو عام آدمی چار و نا چارخود کشی کا نہیں سوچے گا تو کرنے کے لئے پھر اسکے پاس اور کیا باقی بچے گا۔ اگر آپ نے ایسا کیا ہوتا تو اس میں رتی بھر بھی شبہ نہیں کے آپکی حکومت جانے پرمحض چند ہزار لوگ ہی سڑکوں پر نہ نکلتے بلکہ ان کی تعداد کروڑوں میں ہوتی۔بہت سادہ سی بات ہے اقتدار تب تک وزیراعظم کے پاس رہتا
ہے جب تک اسکے پاس اسمبلی میں اکثریت رہتی ہے جب یہ اکثریت نہیں رہتی تو پھر کوئی بھی وزیراعظم نہیں رہتا۔یہ عین جمہوری عمل اور آئین و قانون کے مطابق ہے۔آپ تو کہتے تھے آپ کو اقتدار کا کوئی لالچ نہیں تاہم جس طرح آپ اور آپکے رفقاء آخری وقت تک کرسی سے لپٹے رہے اس کی بھی مثال خال خال ہی کہیں ملتی ہے۔ آپ اور آپکے صاف دیدہ مصاحبین نے آئین و قانوں کے کسی بھی ضابطے کو ماننے سے انکار کردیااور نہ ہی پارلیمنٹ اور نہ ہی عدلیہ کے فیصلوں کو درخو ر اعتناء سمجھا۔ آخری چند گھنٹوں میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر ملک کو تصادم اور بد امنی کے راستے پر دھکیلنے کے لئے آپ نے جو خطرناک اقدامات اْٹھانے کی سعی لا حاصل کی آنے والے دور میں مورخ ضرور اس پر رقم طراز ہوگا۔ اقتدار کی غلام گردشوں سے آشنا دوستوں کا کہنا ہے کہ آخری چند گھنٹوں میں عمران خان نے عسکری قیادت پر بھرپور زور دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد رکوانے کے لئے ملک میں ایمرجنسی لگا دے۔ جب عسکری قیادت نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو ممکنہ ردعمل کے تناظر میں ملک میں سپہ سالار کی تبدیلی کی باتیں تیزی سے گردش کرنے لگیں۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ پھر وزیر اعظم کے مصاحبین نے انہیں مشورہ دیا کہ اسمبلی میں موجود شہباز شریف ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو سمیت اپوزیشن کے ان اہم رہنمائوں کو گرفتار کرلیا جائے جن کے خلاف نیب اور ایف آئی اے میں مقدمات ہیں۔ اس فیصلے کے تناظر میں پریزن وینز اور رینجرز کو طلب کی گیا تاہم رینجرز نے بھی ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ وہ تو بھلا ہو اعلیٰ عدلیہ کا جس کے بروقت ایکشن سے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر دبائو بنا جو اس وقت تک سپریم کورٹ اور وزیر اعظم ہائوس کے درمیان شٹل کاک بن چکے تھے ، اعصاب کی جنگ ہار گئے اور استعفیٰ دیکر گھر چلے گئے۔ نتیجتاً ملک کے افق پر موجود بحران چھٹا۔ عمران خان اگر سمجھداری کا مظاہرہ کریں تو انکے پاس اب بھی پارلیمنٹ میں ایک مضبوط اپوزیشن موجود ہے وہ اب بھی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر حکومت کو سخت مقابلہ دے سکتے ہیں۔یاد رہے کہ ملک کو تصادم کے راستے پر دھکیلنا نہ ہی انکے اور نہ ہی ملک و قوم کے فائدے میں ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی جن اقدامات کا اعلان کیا ہے وہ خاصے مثبت ہیں۔کم ازکم تنخواہ 25ہزار ، پنشنرز اور لگ بھگ ایک لاکھ تک تنخواہ پانے والے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر 10فیصد اضافہ اور پاک چین اکنامک کاریڈور کی برق رفتار تکمیل کے اعلانات خوش آئند ہیں۔لیٹر گیٹ کی تحقیقات کے لئے پارلیمانی کمیشن کا قیام بھی ایک مثبت اور بروقت اقدام ہے۔وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی ماہرین کو سفارشات کی تیاری کا حکم بھی دے دیا۔ ہنگامی اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے ہنگامی بنیادوں پر معاشی تجاویز اور سفارشات کی تیاری، ملک کو درپیش سنگین صورتحال اور معاشی چیلنجز سے نکلنے کے لیے ہدایات جاری کیں۔تجاویز زراعت، صنعت، سرمایہ کاری، بینکاری سے متعلقہ طبقات کی آراء کی روشنی میں مرتب ہوں گی۔تاجر و کاروباری برادری سمیت تمام متعلقہ طبقات کی آراء لی جائیں گی۔تجاویز کے حصول کے لیے آئندہ چند دنوں میں سمٹ منعقد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ نیشنل اکنامک کونسل تشکیل دینے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ نیشنل اکنامک کونسل غیرجانبدار اور ممتاز معاشی ماہرین پر مشتمل ہوگی۔اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ سنگین مالی خطرات دیکھتے ہوئے فوری وسط اور طویل المدتی اہداف کا واضح تعین کریں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اب تک کیے گئے اقدام اور اعلانات مثبت اقدامات ہیں تاہم یہ ناکافی ہیں۔انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے پاس اپنی حکومت اور اپنی جماعت سمیت اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کی عوام میں ساکھ بنانے کے لئے وقت بہت کم ہے۔ انہیں دیکھنا ہوگا کہ ماضی کی حکومت کی طرح انکی جانب سے کی گئیں باتیں محض زبانی جمع خرچ بن کر نہ رہ جائیں۔  ان پر فوری عملدرآمد ہونا چاہیے تاکہ ان کی جماعت آئندہ الیکشن میں عوام کے پاس باوقار طریقے سے جا سکیں۔ پٹرول ، بجلی اور گیس کی نرخ کم کرنا اشد ضروری ہیں۔میڈیا انڈسٹری اور اس سے وابستہ افراد بھی انکی توجہ کے طلبگار ہیں۔ ایسے میں اگر وہ پچھلی حکومت کی جانب سے سٹاک ایکسچینج پر لگائے گئے کیپٹل گین ٹیکس کو ختم کردیں تو اس سے اس کی رفتار میں تیزی سے بہتری آئے گی۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تویہاں پرویز الٰہی ریٹ لگوانے کے چکر میں وزارت اعلیٰ کے ساتھ سپیکر شپ سے بھی جاتے نظر آتے ہیں۔حمزہ شہباز ایک اچھی چوائس ہیں وہ پنجاب کی بیوروکریسی سے کام لینے کا اچھا تجربہ رکھتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.