سات اپر یل 2022 کا فیصلہ

25

قارئین کرام، اوپر دئیے گئے عنوان کے بارے میں کسی تمہید میں پڑنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ آخر عمران خان نے ایسا کیا کر دیا کہ سپریم کورٹ نے اسمبلیاں بحال کرنے کا اس قدر دو ٹوک مگر اعتماد سے بھرپور فیصلہ دیا۔ مگر نہیں صاحب نہیں، عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں کوئی ایک غلطی نہیں کی، بلکہ ان کا پورا دور اپنی انا اور ضد کی رکھوالی کرتے گزرا۔ مثال کے طور پہ دیکھ لیجئے کہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنے بھی سمجھا سمجھا کر تھک گئے مگر انہیں معلوم نہیں کہ عثمان بزدار نے کیا گیدڑ سنگھی سنگھائی تھی کہ وہ ان صاحب کے با رے میں ایک لفظ سننے کو تیار نہیں تھے۔ لیکن پھر انا اور ضد جس طرح ٹوٹی اسے سب نے دیکھا۔ اگر بنظرِ غور دیکھیں تو عمران خان کی تنزلی کی بڑی وجہ عثمان بزدار ہیں۔ اور اب چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بینچ کے فیصلے نے آئین کی پاسداری کے حق میں ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے۔ چنانچہ اس فیصلے کے اثرات وسیع تر اور جامع نوعیت کے ہوں گے۔ اس فیصلے نے حقیقی معنوں میں نظریہ ضرورت کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا اور ہماری قومی زندگی میں ایک واضح اصول متعین کر دیا جو آنے والے وقتوں میں عوام اور عوامی نمائندوں کی مدد اور رہنمائی کرتا رہے گا۔ مختصر وقت میں ایک بڑا آئینی مسئلہ حل کر کے معزز منصفین نے یہ واضح کر دیا ہے کہ نظامِ عدل آئین اور قانون کی حفاظت اور بوقت ضرورت تشریح کے لیے ہمہ وقت مستعد اور چوکس ہے۔ گزشتہ اتوار کے روز پیدا ہونے والے بحران کا ازخود نوٹس لے کر یہ ثابت کیا گیا کہ ملک میں جاری آئینی اور قانونی معاملات پر عدلیہ کی گہری نظر ہے۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی تین اپریل کی رولنگ فی الجملہ نظریہ ضرورت کے ماتحت ہی تھی جس کو ڈھال بنا کر وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کارروائی کو غتربود کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ امر کسی طرح بھی مخفی نہیں کہ ڈپٹی سپیکر اس رولنگ کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کو عدم اعتماد کے آئینی عمل سے بچ نکلنے کا راستہ فراہم کرنا چاہتے تھے، مگر آئین سے اس انحراف نے آئین کی دوسری خلاف ورزی کا راستہ بھی کھول دیا جو وزیراعظم کی جانب سے صدر مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی صورت میں سامنے آیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا مذکورہ فیصلہ ان حالات میں درست سمت کا تعین کرتا ہے۔ اس فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ نے آئین کے شارح اور گارڈین ہونے کا عملی ثبوت فراہم کیا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کا فرض منصبی ہے کہ وہ آئین پاکستان کے تحفظ اور اس پر پیدا ہونے والے ابہام کا ازالہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ چنانچہ اس فیصلے سے یہ اصول وضع ہو گیا ہے کہ آئین پاکستان کوئی موم کی ناک نہیں کہ جب جہاں کسی کا جی چاہے اپنے مفادات کے حق میں اس کے کسی حصے کی اپنی مرضی سے تشریح کر کے اپنا مقصد پورا کر لے۔ یہ دراصل صریحاً آمرانہ رویہ ہے جو ہمارے
ہاں بدقسمتی سے جمہوری قوتوں میں بھی سرایت کر چکا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس فیصلے کے ذریعے ایک واضح لکیر کھینچ دی اور آئین کی دفعات کو اپنی مرضی کے معانی پہنا کر اپنا مطلب نکالنے والی قوتوں کو خبردار کر دیا ہے۔ اس فیصلے کی حقیقی اہمیت اس کے دُور رَس اثرات میں مضمر ہے۔ یہ کسی زمان و مکان یا حالات و واقعات تک محدود فیصلہ نہیں بلکہ اس سے جو نظریہ اور اصول قائم ہوتا ہے وہ مستقبل بعید میں بھی پاکستان کے آئین کی حفاظت کا فریضہ انجام دیتا رہے گا۔ آنے والے وقتوں میں جب بھی کوئی فرد یا جماعت آئین پاکستان کے کسی حصے سے انحراف کی مرتکب ہو گی تو 7 اپریل 2022ء کا سپریم کورٹ آف پاکستان کا یہ فیصلہ ایک واضح اور ناقابل تنسیخ نظیر کی صورت میں آئین پاکستان کے تحفظ کا فرض انجام دے گا۔ اس فیصلے نے موجودہ بحران سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دیا ہے اور اس سے آگے بڑھنے اور بطور ایک قوم اپنا سفر جاری رکھنے کے در بھی وا کر دیئے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ 3 اپریل کو جو آئینی عمل جہاں اور جیسے بھی رک گیا تھا وہ آج وہیں سے آگے بڑھایا جائے گا اور وزیراعظم اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا کریں گے۔ ان کے پاس یہی آئینی راستہ ہے اور بطور سیاسی رہنما بھی انہیں یہی کرنا چاہیے کہ جرأت کے ساتھ اس کارروائی کا سامنا کریں۔ اقتدار مختصر ہوتا ہے، بالآخر تو انہیں اقتدار سے علیحدہ ہونا ہی ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ایک ملک گیر سیاسی جماعت کے سربراہ اور پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے وہ آئینی تقاضوں کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ عدم اعتماد کی یہ تحریک ملکی صورت حال میں ایک ایسا پتھر بن چکی ہے جس نے جمود کی صورت پیدا کر دی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ سلسلہ منطقی انجام تک پہنچے تاکہ ملک اس ابہام سے نکلے اور کاروبارِ زندگی ایک بار پھر فروغ پا سکے۔ معیشت کے سر پر چھائی ہوئی بے یقینی کی بلائیں ٹلیں اور ملکی معاملات معمول کے مطابق بحال ہوں۔ وفاقی وزیر فواد چودھری نے گزشتہ سہ پہر کابینہ اجلاس کے بعد یہ انکشاف کیا تھا کہ حکومت نے اپنے خلاف غیر ملکی سازش کے حوالے سے تحقیقات کے لیے لیفٹیننٹ جنرل (ر) طارق خان کی سربراہی میں کمیشن قائم کیا ہے جو تین ماہ میں یہ تحقیقی کام مکمل کرے گا، مگر کچھ ہی دیر میں طارق خان صاحب کی جانب سے وضاحت آ گئی کہ انہوں نے اس کمیشن کی سربراہی قبول کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ ٹھیک ہے اس معاملے کی انکوائری بھی ہونی چاہیے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے ساتھ ہم اپنی پوری قومی زندگی کو باندھ تو نہیں سکتے۔ حکومت اگر ضروری سمجھتی ہے تو انکوائری کا کام بھی چلائے تاکہ اس مبینہ خط سے منسلک ابہام دور ہو اور قوم تک حقیقت پہنچ سکے، مگر دیگر معاملات بھی چلتے رہنے چاہئیں کہ تحرک ہی زندگی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ فوری توجہ کے طالب اور بھی بہت سے مسائل ہیں، ایسے میں صرف اس ایک نکتے کو لے کر بیٹھ جانے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ معیشت کا عدم استحکام ہے، مہنگائی ہے، عوامی ابہام اور جمود کی سی کیفیت ہے، امورِ مملکت ہیں، زرعی و صنعتی سیکٹر کی ترقی کے اہداف ہیں، درآمدات و برآمدات کا بڑھتا ہوا فرق ہے۔ سبھی مسائل فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ بائیس کروڑ عوام ہیں، ان کی سوچیں اور کچھ آدرش ہیں۔ ان کا خیال رکھنا جانا چاہیے۔ عوام کے جذبات کا استحصال کرنے کے بجائے عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کو اس وقت اس طرزِ عمل کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کے مابین ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنے کے لیے مکالمے کی ضرورت ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اس طرف توجہ دینی چاہیے اور شخصی عناد کے بجائے ملکی ترقی، خوش حالی اور اقوامِ عالم میں پاکستان کو بلند مقام دلانے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے۔ چوہتر پچھتر سال کی قومی زندگی اور متعدد تجربوں کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ کچھ حدود و قیود مقرر کر لی جائیں اور یہ تہیہ کہ اس سے آگے نہیں بڑھنا، تاکہ آگے بڑھنے کی راہ استوار ہو سکے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے نے ان حدود و قیود کا کچھ تعین کر دیا ہے۔ قوموں کی زندگی میں بحران پیدا اور رکاوٹیں کھڑی ہوتی ہیں لیکن وہ اجتماعی سوچ کو بروئے کار لا کر ان پر قابو پاتیں اور سرخرو ٹھہرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم بھی ایک بحران سے نکلے ہیں تاہم آگے محتاط ہو کر چلنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے بند ہیں.