’’سی۔زن‘‘

23

دوستو، رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی منافع خوروں کا ’’سیزن‘‘ لگ جاتا ہے۔۔ ’’سی۔زن‘‘ ٹھرکیوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے، یعنی ہر راہ چلتی ’’زن‘‘ کو دیکھو یعنی ’’ سی‘‘ کرو۔۔ جب کہ رمضان المبارک منافع خوروں کے لئے مختص ہوچکا ہے،یہ وہ مہینہ ہوتا ہے جس کا اللہ کے نیک لوگوں کو بے چینی سے انتظار رہتا ہے،لیکن نیک بندوں سے زیادہ اس ماہ کا انتظار تو ’’سیزن‘‘ لگانے والے منافع خور بھی شدت سے کرتے ہیں جو پورا سال کی کسر اسی ماہ میں باآسانی نکال لیتے ہیں اور پھر پورے سال بیٹھ کر کھاتے ہیں۔۔
رمضان کے لوگوں نے بہت سے معنی بیان کئے ہیں لیکن اصل عربی زبان میں رمضان کے معنی ہیں ’’جھلسا دینے والا‘‘ تو رمضان کا اصل مقصد سال بھر کے گناہوں کو بخشوانا ہوا۔۔ رمضان کے مہینے کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان تقویٰ کو اپنا کر اپنے گناہوں کو بخشوالے اور اللہ کی عبادت میں غفلت کو ختم کرے۔اللہ تعالیٰ بھی جانتے تھے کہ جب یہ انسان دنیا کے کاروبار اور کام دھندوں میں لگے گا تو رفتہ رفتہ اس کے دل پر غفلت کے پردے پڑ جایا کریں گے۔ اور دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں کھو جائے گا تو اس غفلت کو دور کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً کچھ اوقات مقرر فرما دیئے ہیں۔ ان میں سے ایک رمضان المبارک کا مہینہ ہے۔ اس لئے کہ سال کے گیارہ مہینے تو آپ تجارت میں، زراعت میں، مزدوری میں اور دنیا کے کاروبار اور دھندوں میں، کھانے کھانے اور ہنسنے بولنے میں لگے رہے اور اس کے نتیجہ میں دلوں پر غفلت کا پردہ پڑنے لگتا ہے۔ اس لئے ایک مہینہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے مقرر فرما دیا کہ اس مہینے میں تم اپنے اصل مقصد تخلیق یعنی عبادت کی طرف لوٹ کر آؤ۔ جس کے لئے تمہیں دنیا میں بھیجا گیا، اس ماہ میں اللہ کی عبادت میں لگو، اور گیارہ مہینے تک تم سے جو گناہ سرزد ہوئے ہیں، ان کو بخشواؤ۔
رمضان آپ کے نفس کی آزمائش کے لئے آتا ہے، لیکن ہمارے یہاں دیکھاگیا ہے کہ سحری میں لسی کے ڈرم خالی ہوجاتے ہیں،الائچی والی چائے پی جاتی ہے کہ دن میں پیاس نہ لگے، افطار میں دسترخوان بھرے ہوتے ہیں۔روزے دار دن بھر کی بھوک و پیاس کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی دھن میں دسترخوان پر ہلہ بول دیتاہے۔۔ اس بار کچھ احتیاط کرنی ہوگی۔۔ذیابیطس کے مریضوں کو رمضان المبارک میں سحری و افطاری کے دوران مناسب احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہئیں اور دیر سے ہضم ہونے والی غذاوں کا سحری میں استعمال عمل میں لائیں جبکہ عام حالات کے بر عکس ذیابیطس کے مریض سحری میں کم تلا ہوا پراٹھا اور انڈے کی زردی استعمال کر سکتے ہیں۔ معالجین کے مشورہ پر عمل کر کے اس مقدس ماہ کے فیوض و برکات حاصل کر سکتے ہیں۔طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسولین لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ،البتہ شوگر لیول60سے نیچے آنے پر روزہ توڑ لینا چاہیے تاکہ انسانی زندگی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔طبی ماہرین کے مطابق رمضان المبارک کے دوران غذا میں تازہ پھل،سبزیاں اور دہی کا استعمال کریں تاکہ افطار میں صرف دو کھجوریں کھائی جائیں۔ماہرین طب کا کہناہے کہ اگر سحری اور افطاری میں توازن بر قرار رکھا جائے تو ذیابیطس کے مریض اس مہینے میں روزوں سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور مذہبی فرائض کے ساتھ ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھ سکتے ہیں۔ایک وکیل نے رمضان کے دنوں میں عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے مذاق کرتے پوچھا کہ حضرت، علماء تعبیر و تاولیل میں بڑے ماہر ہوتے ہیں کوئی ایسا نسخہ بتائیں کہ انسان کھاتا پیتا رہے اور روزہ بھی نہ ٹوٹے۔حضرت شاہ جی کو اس کا یہ مذاق برا تو لگا لیکن شاہ جی نے سوچا کہ اس بابو کا دماغ بھی ٹھکانے لگانا ضروری ہے۔شاہ جی نے اپنے مخصوص انداز میں حاضرانہ جواب دیتے ہوئے فرمایا ۔۔یہ تو بہت آسان ہے۔ایک شخص کو مقرر کردو جو تمہیں صبح سے شام تک جوتے مارتا رہے اور تم جوتے کھاتے رہو اور اس کے نتیجے میں آپ کو جو غصہ آئے اس غصے کو پیتے جاؤ۔اس طرح جوتے کھاتے رہو اور غصہ پیتے رہو۔ کھانا پینا بھی ہوجائیگا اور روزہ بھی نہیں ٹوٹے گا ۔۔
رمضان کے مہینے سے گھبرانا نہیں چاہیے کہ سارا دن بھوکا رہنا پڑے گا بلکہ خوش ہونا چاہیے کہ روزہ فرض کرکے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنا دوست بنانے کا انتظام فرمایا ورنہ آپ کا شمار اُن دیہاتیوں میں ہوجائے گا جن سے ایک مولوی صاحب نے وعظ میں فرمایا کہ بھائیو! رمضان المبارک آرہے ہیں، دیکھو مہینہ بھر روزہ رکھنا، رمضان کے آتے ہی روزہ فرض ہوجاتا ہے۔ دیہاتیوں نے کہا کہ رمضان شریف کدھر سے آتے ہیں۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ مغرب کی طرف سے جب پہلی تاریخ کا چاند دکھائی دیتا ہے۔ گاؤں والے جاہل، بیوقوف تھے۔ سب نے طے کیا کہ چلو پہلی تاریخ کو گاؤں سے باہر مغرب کی طرف لاٹھی لے کر بیٹھ جائیں گے جب رمضان شریف آئیں گے تو ہم لوگ اُن کو مار مار کر بھگادیں گے لہٰذا روزہ نہیں رکھنا پڑے گا۔ چناں چہ سورج ڈوب چکا تھا، ایک آدمی مغرب کی طرف سے اونٹ پر بیٹھا ہوا آرہا تھا۔ سب لاٹھی لے کر دوڑے مگر سوچا کہ پہلے نام تو پوچھ لو کہ واقعی یہ رمضان ہے بھی یا نہیں۔ سب نے پوچھا کہ جناب! آپ کا نام کیا ہے؟ اُس نے کہا کہ میر انام رمضان علی ہے۔ بس پھر کیا تھا سب نے اُس پر ڈنڈے برسانا شروع کردیے۔ بے چارہ گھبراکر اونٹ گھماکر واپس بھاگ گیا۔ ایک مہینہ بعد مولانا آئے۔ پوچھا کہ بھائی روزے رکھے تھے؟ کہا کہ ہم پر روزہ فرض ہی نہیں ہوا، رمضان شریف کو ہم نے گاؤں میں داخل ہی نہیں ہونے دیا۔ ۔باباجی کل دلچسپ قصہ سنارہے تھے۔۔بتانے لگے۔۔ آج افطار سے پہلے اپنی زوجہ ماجدہ سے فرمائش کردی کہ ،افطاری میں سموسے کھاؤں گا۔۔زوجہ ماجدہ نے گھور کر دیکھتے ہوئے برجستہ کہا۔۔بھکاریوں کی کوئی پسند نہیں ہوتی۔۔باباجی نے یہ قصہ سنانے کے بعد شہباز شریف کو بے نقط سنانی شروع کردی۔۔۔باباجی کے گھر دعوت افطار تھی، ہم باباجی کے گھر نمازعصر اداکرکے پہنچ گئے، گپ شپ ہونے لگی۔ہم نے باباجی سے پوچھا۔۔یہ بے قراری کیا ہوتی ہے؟؟ باباجی نے وائی وائی کا ’’راؤٹر‘‘ بندکرتے ہوئے کہا۔۔لے پتر ہُن محسوس کر۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔روزہ رکھنا فرض ہے لیکن۔۔روزہ رکھ کر ہرکسی سے یہ پوچھنا کہ آپ کا روزہ ہے،بالکل بھی فرض نہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

تبصرے بند ہیں.