سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل پانچ ججوں کے متفقہ فیصلے نے ایک بات ثابت کر دی ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار اور مضبوط جمہوری ریاست ہے جہاں آئین کی بالادستی اور حکمرانی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت ہی ایک ایسا راستہ ہے جو ریاست پاکستان کو اقوام عالم میں ایک کامیاب اور کامران مملکت اور ریاست کے طور پر فخر کے ساتھ کھڑا رکھ سکتا ہے ہمارے ہاں سیاستدانوں کو نالائق، ’’غدار‘‘، وغیرہ وغیرہ کہہ کر ان کی بے توقیری کرنے کی کاوشیں کی جاتی رہی ہیں لیکن اس کیس میں اپوزیشن نے جس اتحاد اور قوت کا مظاہرہ کیا جس حکمت عملی کے ذریعے، جس منصوبہ سازی کے ذریعے آئین کی بالادستی کے لئے کاوشیں کیں۔ آئینی اور قانونی راستہ اختیار کیا وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے لیکن سپریم کورٹ نے آٹھ صفحات پر مشتمل جو متفقہ فیصلہ جاری کیا ہے وہ ہماری قومی تاریخ کا شاندار باب نہیں بلکہ ایک شاندار کتاب بننے جا رہا ہے اس معرکے میں نہ تو اپوزیشن کی جیت ہوئی ہے اور نہ ہی کسی کی ہار، صرف اور صرف اسے ’’آئین کی بالادستی‘‘ اور ’’جمہوریت کی فتح‘‘ قرار دیا جانا چاہئے۔ اس فیصلے کے فوری نتائج کے طور پر گزرے چند دنوں سے حکومتی سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے غیرآئینی اقدام کے باعث پورا ملک جس بے یقینی کی صورت حال کا شکار ہو گیا تھا اوراس ’’غیرآئینی‘‘ فیصلے کے ساتھ ہی وزیراعظم نے اسمبلی کی تحلیل کی جو ایڈوائس صدر کو دی اور صدر نے جو احکامات جاری کئے وہ تمام بیک جنبش قلم ختم کرنے کے باعث قوم ایک بار پھر 3 اپریل 2022 کے فیصلہ کن مقام پر آ چکی ہے۔ گویا بحران ٹلتا ہوا نظر آنے لگا ہے۔
ناکام اور نامراد پی ٹی آئی قیادت معاملات کو پٹڑی سے ایک بار پھر اتارنے کے لئے تیار نظر آ رہے ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل اور وزارت عظمیٰ سے عمران خان کی فارغ خطی کے تحریری احکامات کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے تک ملک بغیر کسی چیف ایگزیکٹو کے چلتا رہا ہے۔ اس وقفے کے دوران ملک کا کوئی فرد کسی آئینی اور قانونی سربراہ نہیں تھا ایک ایٹمی طاقت بغیر کسی قانونی حکمران کے کیسے چلتی رہی؟ صدر پاکستان کے کسی زبانی/ شخصی احکامات کے تحت عمران خان
بزعم خود قائم مقام وزیراعظم کے طور پر کام کرتے رہے جو سراسر اور قطعاً غیرآئینی اور غیرقانونی تھا۔
حکمران جماعت نے ایسا ہی کچھ غیرآئینی اور غیرقانونی، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کر رکھا ہے۔ انہوں نے جو کچھ مرکز میں کیا ویسا ہی کچھ پنجاب میں کر رہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ مرکز میں ان کے جماعتیے ایسا کر رہے تھے جبکہ یہاں پنجاب میں ایسا غیرآئینی اور غیرقانونی کرنے کے لئے ق لیگ کے چودھری پرویز الٰہی کو ذمہ داری سونپ رکھی ہے عمران خان صاحب نے چودھری پرویز الٰہی کوصوبے کی وزارت اعلیٰ کا لالی پاپ دے کر ایسا کھیل کھیلنے پر آمادہ کیا ہے حیران کن بات ہے کہ ان کی پانچ ممبران قومی اسمبلی پر مشتمل پارٹی بھی ٹوٹ گئی ہے۔ 7 اپریل 2020 کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہاں صوبہ پنجاب میں جاری غیرآئینی اور غیرقانونی ڈرامے کا بھی جلد ہی ڈراپ سین ہونے جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے جس طرح آئین کی بالادستی مرکز میں قائم کرکے قوم کو ایک بڑے بحران سے نکالا ہے بالکل اسی طرح ہائیکورٹ صوبہ پنجاب میں جاری ڈرامے کو ’’ڈراپ سین‘‘ تک پہنچانے میں ایسے ہی کردار ادا کرے گی۔ پی ٹی آئی کی ناکام قیادت یہاں بھی کسی نہ کسی قسم کا عذر یا اپ سیٹ کرنے کی کاوشیں ضرور کرے گی۔ ان کی تاریخ یہی کچھ بتاتی ہے۔
عمرن خان کی تحریک انصاف ایک تبدیلی اور انصاف کا استعارہ بن کر ابھری تھی عمران خان کی اپیل پر قوم انہیں نوٹ پہلے ہی دے رہی تھی۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال کا قیام اس بات کی دلیل ہے کہ قوم نے انہیں نوٹ دے کر ان کی اپیل پر بھرپور انداز میںلبیک کہا تھا۔ عمران خان صاحب کی نظام کی بوسیدگی، معاشی و معاشرتی ناانصافیوں اور کجیوںپر تنقید کا خیرمقدم کرتے ہوئے معاشرے کے وہ طبقات بھی میدان عمل میں اترنے کے لئے تیار ہونے لگے جو اس سے پہلے صرف اپنے نرم گرم ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کرصرف ٹیلی ویژن سکرینوں تک محدود تھے عمران خان صاحب 15 سال تک دھواں دھار تقاریر کرتے رہے، نوجوانوں کو لیکچر دے کر بھڑکاتے رہے لیکن وہ قوم کی قیادت کے منصب کے قریب بھی نہ پھٹک سکے حتیٰ کہ 2011 میں ان کی مینار پاکستان میں ایک ’’عظیم الشان جلسے‘‘ میں لیڈر کے طور پر رونمائی کرائی گئی اور پھر 2018 میں دھونس دھاندلی کے ذریعے ایوان اقتدار میں پہنچایا گیا۔ انہوں نے کرپشن کے خاتمے اور دیانتدار قیادت کے ذریعے قوم کے مسائل حل کرنے کی جو گردان 22 سال تک جاری رکھی تھی اس میں حکمران بننے کے بعد اور بھی زورِ بیان پیدا ہوا انہوں نے شریف خاندان و ن لیگ، زرداری خاندان اور پیپلز پارٹی کو نشانے پر رکھ لیا، بدزبانی، بدکلامی اور پست درجے کے معاشرتی رویوں کی جی بھر کر نہ صرف تشہیر کی بلکہ اسے فروغ دینے کی منظم کاوشیں کیں۔ کارکردگی کے میدان میں، کارسرکار کے میدان میں، قومی معیشت کو پروان چڑھانے کہے حوالے سے، عامتہ الناس کی بھلائی و خیرخواہی کے اعتبار سے مکمل طور پر ناکام ہونے کے ساتھ ساتھ کرپشن کے فروغ کے ذریعے پاکستان اور اس میں بسنے والے عوا کو شدید مشکلات کا شکار کردیا۔ قوم عمران خان کے بیانیے اور نااہلی کے گرداب میں پھنسی ہوئی کراہ رہی ہے۔ تحریک انصاف کے 44ماہی دور اقتدار میں نفرت اور ناکامی کی خوب پرورش ہوئی۔ معاشی، سیاسی اور معاشرتی انارکی نے پرورش پائی حتیٰ کہ اپوزیشن اکٹھی ہونے لگی اور پھر تحریک عدم اعتماد آ گئی۔ پارلیمانی جنگ میں واضح شکست دیکھتے ہوئے عمران خان صاحب نے ملک کو ایک بڑے آئینی بحران کا شکار کر دیا جس کو سپریم کورٹ نے ناکام بنایا۔
اب معاملات ایک بار پھر آئینی و پارلیمانی پٹڑی پر چڑھ گئے ہیں اور عمران خان اور ان کی تحریک شاید تاریخ کے اندھیروں میں گم ہو جائے انہوں نے 22 سال تک جو بیانیہ بنایا۔ قوم کے جذبات کو ابھارا۔ تبدیلی کا خواب دکھایا جو 44 ماہ کے اندر اندر کرچی کرچی ہو چکا ہے۔ قومی معیشت ناکامی اور نامرادی کی بدبودار دلدل میں پھنسی ہوئی ہے جبکہ عمران خان صاحب بیانیے بدلتے اپنے نوجوانوں کو ابھارنے اور گرمانے کے لئے تقریروں پر تقریرں کئے چلے جا رہے ہیں ان کے موضوعات ایسے ہی ہیں جو 2011 کے ’’عظیم الشان‘‘ جلسے سے پہلے اور بعد تھے۔ اب ان کے جذباتی خطاب اپنی اثرپذیری کھو چکے ہیں ان کی بڑھکیں اور نعرے اب کھوکھلے لگتے ہیں۔ انہوں نے قوم کو بلکہ نوجوان نسل کو بری طرح مایوس کیا ہے۔ وہ قومی سیاسی تاریخ میں ایک ناکام اور نامراد حکمران کے طور پر اپنا مقام متعین کر چکے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.