اسلامی جمہوریہ پاکستان

19

جوئے اور نشے کی لت قبر تک جاتی ہے۔ عمران خان نے ایک بڑا جوا کھیلا ہے اور اب اس کی پوری کوشش ہے کہ مسئلہ کی گہرائی تک نہ جایا جائے اور فوری طور پر الیکشن کروائے جائیں۔ ذرا بریک پر پاؤں رکھیں، سنبھل تو لیں پھر آگے بڑھتے ہیں اتنی جلدی کیا ہے۔ الیکشن کے حالات یہ ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں 16 ضمنی انتخابات میں ایک کے سوا سب میں عمران خان کے امیدوار ہارے تھے۔ عمران خان کا بیانیہ پٹ گیا تھا۔ ان کے پاس عوام میں جانے کے لیے کچھ نہیں تھا اور اس سے بچنے کے لیے حکومت کے خلاف سازش کا الزام عائد کیا گیا۔ دوسرا یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے اس کے تانے بانے کسی نہ کسی جگہ سے جا کر جڑ رہے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین نے جو غیر آئینی اقدام کیا تھا اس پر روک لگائی جاتی تو آج ملک اس آئینی بحران کا شکار نہ ہوتا۔ یہ تو اپوزیشن کی شرافت ہے کہ وہ فائلیں اٹھا کر عدالتوں میں پھر رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ہے مگر سماعت سست روی کا شکار ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر فوری طور پر فیصلہ دیا جاتا۔ یہ مقدمہ فیصلہ کرے گا کہ ملک کا مستقبل کیا ہے۔ اس سماعت کے دوران عمران خان کی پوری کوشش ہے کہ وہ ایسے فیصلے کرتے جائیں کہ سپریم کورٹ کے لیے تمام معاملات کو پہلی پوزیشن تک لے کر جانا مشکل ہو جائے۔ عدالت بھی ان ہتھکنڈوں کو سمجھ رہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ جلد اس کا فیصلہ ہو جائے گا اور نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا جائے گا۔
امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کا اعلان کرنے والے وزیراعظم عمران خان کو توہین رسالت کے مسئلہ پر فرانسیسی سفیر کو نکالنے کی جرات نہیں ہوئی اور اب وہ امریکہ کے خلاف ڈٹ جانے کا بھاشن دے رہا ہے۔ بہت ہو گیا آپ کی دھنوں پر رقص کرنے والے آپ کو مبارک۔ ہم نے وہی بات کرنی ہے جو حق اور سچ ہے۔ ان کے لیے آئین اور قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر آئین کے تقدس کا علم ہوتا تو یوں رسوا نہ ہوتا۔ اکیلے میں یہ لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنستے ہوں گے کہ کیسا بے وقوف بنایا( بے وقوف کی بجائے یہاں پنجابی کا لفظ زیادہ وسیع معنوں میں استعمال ہو سکتا تھا)۔
ایک گل صاحب ہیں پیشے کے اعتبار سے خود کو پروفیسر کہتے ہیں اور دعوی ہے کہ پی ایچ ڈی کر رکھی ہے مگر ابھی تک وہ ڈجکوٹ کے تھڑے سے نہیں اترے اپنی گفتگو سے پرائمری پاس لگتے ہیں۔ کوئی شرم نہ کوئی لحاظ۔ منہ کو کتا باندھا کی اصطلاح جس نے سمجھنا ہو ان کی گفتگو سنے۔ ابھی تو فرح کے قصے سامنے آئے ہیں، ذرا صبر کریں چالیس چوروں والی الف لیلوی داستانیں لوگ بھول جائیں گے۔ اے ٹی ایم مشینوں کو ایک طرف رکھ دیا گیا کہ کون روز روز کارڈ مانگتا پھرے، انہوں نے دفتر میں ٹکسال لگا لی جو صبح شام دھڑا دھڑ کرنسی چھاپ رہی تھی۔ اب پتہ چلا کہ پنجاب میں اتنی تیزی سے تبادلے کیوں ہو رہے ہیں۔ اے سی اور ڈی سی تعینات کرنے کے ریٹ مقرر تھے تو باقی جو عہدے ہیں ان کا بھی کوئی نہ کوئی ریٹ مقرر ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ پیکج بھی چل رہا
ہے کہ دو تبادلوں کے ساتھ ایک فری یا تیسرے پر 50  فیصد آف۔ جو تعینات ہوئے انہوں نے کون سا پیسہ اپنی جیب سے دیا ہے، عوام کا خون نچوڑا ہو گا۔ اے سی اور ڈی سی کی تعیناتی کے نرخ نامے ان کے ساتھیوں نے بے نقاب کیے ہیں، ان سے دست بدست عرض ہے کہ باقی پوسٹوں کے ریٹ بھی سامنے لائے جائیں تاکہ گراں فروشی سے بچا جا سکے۔ اب ان سوالوں کا جواب تو دیں کہ فرح نامی خاتون کس حیثیت سے سرکاری پروٹوکول انجوائے کر رہی تھی اس کے پاس کونسا عہدہ تھا کہ وہ سیون کلب میں بیٹھ کر بیوپار کر رہی تھی۔ ابھی تو بس اتنا ہی سامنے آ رہا ہے کہ پنجاب میں اصل چیف منسٹر فرح خان تھی اور اسی لیے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ فرح نامی خاتون پنجاب حکومت کے طیارے پر دبئی فرار ہو گئی ہیں۔ سچ پوچھیں تو اس پر کمال کی فلم بن سکتی ہے۔ ڈنکی راجہ بنانے والی کمپنی کو اس پر توجہ دینا چاہیے۔ بنا بنایا سکرپٹ ان کو مل گیا تھا۔ علیم خان کے الزامات نئے نہیں ہیں ایک برس پہلے بھی ان کی آڈیو لیک ہوئی تھی کہ ایک حساس ادارے کے ڈی جی کو اس لیے ہٹا دیا گیا کہ وہ اپنی حد کراس کر کے یہ بتا رہا تھا کہ ایک پراپرٹی ڈیلر نے آپ کے گھر سونے کا سیٹ پہنچایا ہے۔
بغیر کسی ثبوت کے اپوزیشن کو غدار بنا دیا گیا۔ حساس اداروں کے ذمہ داران نے رائٹر کو اس بات کی تصدیق کی کہ ان الزامات کے کوئی شواہد موجود نہیں ہے۔ اب یہ فیصلہ ہونا ہے کہ غدار کون ہے۔ اگر اپوزیشن نے ملک اور حکومت کے خلاف غداری کی ہے تو ان کے خلاف مقدمات درج کرائے جائیں، گرفتار کیا جائے اور ان کو پھانسی پر لٹکایا جائے اور اگر کپتان نے یہ سب الزامات اپنی انتخابی مہم کے لیے لگائے ہیں تو پھر اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے خود کو تیار کریں۔ سپریم کورٹ صرف ایک نکتے پر فیصلہ دے گی کہ کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئینی ہے یا نہیں اس پر اس سارے کھیل کا دارومدار ہے۔ کپتان شکست ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ انہیں بھی انتخابات میں جانے پر اعتراز نہیں ہے بس کوئی ان کے دور میں ہونے والی کرپشن اور بدعنوانیوں پر سوال نہ کرے۔
قومی اسمبلی والا ڈرامہ پنجاب اسمبلی میں بھی دہرایا جا رہا ہے۔ یہاں بھی اپوزیشن اکثریت میں ہے اور تحریک انصاف کا امیدوار پرویز الٰہی ہار رہا ہے۔ وہ بھی کسی صورت شکست کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پاکستان میں ہونے والا جمہوری تماشا ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔
پرویز الٰہی اور عمران خان نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ہے۔ عمران خان مقدمات سے خوفزدہ تھے پرویز الٰہی بھی ان کی ‘ نیک نامی’ کے وارث بن گے۔
حکومتی اتحاد مرکز اور پنجاب میں اپنی اکثریت کھو چکی ہے اور اس کی پوری کوشش ہے کہ ملک کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے۔ پرامن انتقال اقتدار جمہوریت کا پہلا بنیادی اصول ہے مگر یہاں یہ نظر نہیں آ رہا۔
ایک لحاظ سے اچھا ہو رہا ہے کہ معاشرے میں دو طبقے سامنے آ رہے ہیں ایک وہ جو جمہوریت پسند ہیں اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو انتظامی مشینری کو استعمال کر کے ہر حال میں اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں۔ مان لیں شکست آپ کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے۔ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کئی دہائیوں سے اقتدار میں ہیں اور حیرت ہو رہی ہے کہ وہ بھی اقتدار کے لیے اتنے اندھے ہو گئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی تو ان کا ڈیرہ لگتی ہے۔سیکرٹری پنجاب اسمبلی کبھی ان کے ذاتی ملازم تھے آج انہوں نے سب کچھ سنبھال رکھا ہے اور پنجاب اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کو روکنے کے لیے وہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے دیر کر دی تو حالات خراب ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔ سول نافرمانی کا نعرہ عمران خان نے لگایا تھا کہیں قوم کو پھر سے وہ نعرہ نہ سننا پڑ جائے۔ ابھی اپوزیشن انتظامیہ اور بیوروکریسی سے صرف یہ کہہ رہی ہے کہ ان کے احکامات پر آنکھ بند کر کے عمل نہ کریں اگر انہوں نے اس سے زیادہ کی کال دے دی تو پھر حالات کنٹرول سے باہر ہو سکتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے حوالے سے جو کچھ سامنے آرہا ہے اس سے لگتا ہے کہ شائد ہی آج قائد ایوان کا تقرر ہو سکے۔ حکومت اپنے اقدامات سے دنیا تک یہ پیغام پہنچانا چاہ رہی ہے کہ یہ ایک بنانا ری پبلک ہے۔ کہنے کو اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ یہاں نہ اسلام کے اصولوں کی پاسداری ہو رہی ہے اور نہ ہی جمہوریت یہاں مضبوط ہے۔ یہاں صرف ایک ہی قانون چلتا ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔

تبصرے بند ہیں.