تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف ازخود نوٹس کی سماعت کل 12 بجے تک ملتوی

74

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت کل 12 بجے تک ملتوی کر دی ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے گزشتہ روز قومی اسمبلی اجلاس میں پیدا ہونے والی صورت حال پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ آج کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم درخواست گزاروں کو پہلے سننا چاہتے ہیں، اگر کوئی سٹیٹمنٹ دینا چاہتا ہے تو دیدے۔ 
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ 2022 کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، اٹارنی جنرل نے عدالت کویقین دہانی کرائی تھی کہ کسی رکن اسمبلی کو آنے سے نہیں روکا جائے گا، سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کو نوٹس نہیں کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ گزشتہ روز مختصر حکم نامہ جاری کیا تھا، ہم گزشتہ روز اسمبلی کی کارروائی پر سماعت کر رہے ہیں جس پر بابر اعوان نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کو موجودہ از خود نوٹس کے ساتھ سنا جائے، میری استدعا ریکارڈ کر لیں، عمران خان نے اجازت دی ہے کہ عرض کروں کہ ہم الیکشن کرانے کو تیار ہیں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے سیاسی باتیں نہ کریں۔
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ کون سے آئینی سوالات پر فل کورٹ کی ضرورت ہے، اگر آپ کو بینچ میں کسی پر اعتراض ہے تو بتا دیں ہم اٹھ جاتے ہیں؟ فل کورٹ کی وجہ سے تمام دیگر مقدمات متاثر ہوتے ہیں، گزشتہ سال بھی فل کورٹ کی وجہ سے 10 ہزار مقدمات کا اضافہ ہوا، معاملہ پر آج ہی مناسب حکم جاری کریں گے، جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔ 
جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریری فیصلے میں لکھا کہ ساتھی ججز نے چیف جسٹس سے رابطہ کر کے ملک میں پیدا شدہ آئینی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ فاروق نائیک نے دلائل دئیے کہ سپیکرکو تحریک عدم اعتمادجمع ہونے کے 14روز میں اجلاس بلانا تھا لیکن تحریک جمع ہونے کے بعد 20 تاریخ تک سپیکر نے اجلاس نہ بلانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت سپیکر دیتا ہے کہ ایوان؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے مقدمے کے حقائق بتائے کہ سپیکر ہاؤس میں قرارداد پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے، ہاؤس میں قرارداد پیش ہونے کے بعد ہاؤس اجازت دیتا ہے، عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی، اجلاس شروع ہوا تو فواد چوہدری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط کے حوالے سے سوال کیا، فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی سپیکر نے رولنگ جاری کر دی۔ 
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا 3 اپریل کو اجلاس تحریک پر بحث کا موقع دینے کی بجائے مقرر کیا گیا ہے؟ سپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کیلئے کون سا دن دیا، تحریک عدم اعتماد پر ڈائریکٹ ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے۔ 
فاروق ایچ نائیک کے دلائل پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ آپ کا کیس تو سپیکر کے اقدام سے متعلق ہے، آپ بتائیں کہ سپیکر نے صحیح کیا یا غلط؟ جسٹس منیب نے ریمارکس دئیے کہ 100 ارکان اسمبلی ہیں، 25 کہتے ہیں تحریک پیش کی جائے، 50 حق میں نہیں تو کیا تحریک مسترد نہیں ہوجائے گی؟ 
جسٹس اعجاز نے ریمارکس دئیے کہ جب لیو گرانٹ نہ ہو تب تک عدم اعتماد کی تحریک نہیں ہوتی جس پر چیف جسٹس نے سوال کیاکہ لیو کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ سپیکرکی طرف سے لیوگرانٹ کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اسمبلی کی کارروائی میں ہے کہ سپیکر قرارداد مسترد کر سکتا ہے۔ 
فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ پڑھ کر سنا دی جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپیکر نے رولنگ کس رول کے تحت دی؟ عدم اعتماد کی تحریک مسترد کرنے کی رولنگ کس رول کے تحت دی؟ کیا ڈپٹی سپیکر رول 28 کے تحت سپیکر کا اختیار استعمال کرتے ہوئے رولنگ دے سکتا ہے؟ 
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اسمبلی کے رولز 28 کے تحت سپیکر ہی رولنگ دے سکتا ہے۔ اس پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کون سے رول کے تحت دی گئی؟ بادی النظر میں ڈپٹی سپیکر نے سپیکر کا وہ اختیار استعمال کیا جو ڈپٹی سپیکر کا اختیار نہیں تھا، کیا ڈپٹی سپیکر رول 28 کے تحت رولنگ دے سکتا ہے یا صرف سپیکر کا اختیار ہے؟ سپیکر کے اختیارات مختلف ہیں تو پھر سپریم کورٹ کے دائرہ کار کا سوال اٹھے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ رول 28 کے تحت رولنگ سپیکر خود دے سکتا ہے کوئی اور نہیں، آئین کے تحت ڈپٹی سپیکر صرف اجلاس کی صدارت کر سکتا ہے۔ 
چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے حکم نامہ جاری کیا کہ ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل 5 استعمال کرتے ہوئے بادی النظر میں تحقیقات کے نتائج حاصل کئے اور نہ متاثرہ فریق کو سنا، عدالت جائزہ لے گی کہ کیا ڈپٹی سپیکر کے اقدام کو آئینی تحفظ حاصل ہے؟
سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ کوئی ریاستی ادارہ اور اہلکار کسی غیر آئینی اقدام سے گریز کرے، صدر اور وزیر اعظم کا جاری کردہ کوئی بھی حکم سپریم کورٹ کے حکم سے مشروط ہو گا۔ عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور دفاع کو امن و امان قائم کرنے کیلئے اقدامات کی رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔
سپریم کورٹ نے پنجاب اسمبلی میں پیدا ہونے والی صورتحال پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹس جاری کیا اور حکم دیا کہ پنجاب میں نئے وزیراعلیٰ کے تقرر کا عمل آئینی اور پرامن طریقے سے کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.