یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا

22

فرمانِ نبویﷺ ہے کہ ابنِ آدم کے پاس اگر مال و دولت کی دو وادیاں بھی ہو جائیں تو وہ تیسری وادی کی تلاش میں مگن ہو جائے گا۔ مٹی کے سوا کوئی قیمتی سے قیمتی چیز بھی اولادِ آدم کا پیٹ نہیں بھر سکتی اور جو شخص اللہ کے حضور توبہ کرے اللہ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ اس حدیثِ مبارکہ کا اطلاق ہمارے ملک میں عموماً اور رمضان میں خصوصاً ہوتا ہے، جب ہر چیز کے نرخ معمول سے کئی گنا زیادہ ہو جاتے ہیں۔ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے شیطان کو تو قید کر دیا گیا ہے بس اگر آزاد ہیں تو رمضان المبارک کی آمد سے قبل ذخیرہ اندوزی کر کے اشیا مہنگی کرنے والے شیطان صفت ذخیرہ اندوز، یا سر پر ٹوپی رکھ کر ملاوٹ شدہ مال بیچ کر نا جائز منافع خوری کرتے تاجر۔ فرمانِ نبویﷺ ہے کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں۔ ہمارے نام نہاد مسلمان ملاوٹ شدہ دودھ، بیمار گوشت، سبزیاں اور روزمرہ کی اشیائے خور و نوش کو ملاوٹ کے ساتھ مہنگے داموں فروخت کرتے ہوئے بھی سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں تسبیح رکھتے ہیں، واہ کیا کمبیشن ہے اس قوم کے لٹیروں کا۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے مسلمانوں کے غذائی اجناس کی ذخیرہ اندوزی کی اللہ تعالیٰ اس پر غربت، افلاس اور جذام کی بیماری کو مسلط کر دیں گے۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاںبڑے بڑے منافع خور، سرمایہ دار رمضان المبارک کا انتظار صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اپنے منافع کو کئی گنا بڑھا کر اپنے ناقص مال کو عوام کی خدمت میں پیش کر کے عید کے لیے بہترین سیزن لگایا جا سکے۔ ایسے مسلمان کے دوغلے اور دوہرے معیار کا شکوہ بابا بلھے شاہ نے بھی کیا ہے۔
تسی حج وی کیتی جاندے او
لہو وی پیتی جاندے او
کھو کے مال یتیماں دا
تسی پج مسیتی جاندے او
تسی پھٹ دلاں دے سینے نئی
تے ٹوپیاں سیتی جاندے او
نفس تے چھری پھیر دے نئی
دنبے کیتی جاندے او
فرض بُھلائی بیٹھے او
نفلاں نیتی جاندے او
اوہ دسو تے سہی بلھے شاہ نوں
کی کجھ کیتی جاندے او
اس ماہِ مبارک میں اللہ رب العزت کی جانب سے آخرت کے لیے اکٹھا کیا جانے والا سامان انتہائی سستا کر دیا جاتا ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ یہاں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی دنیاوی ضرورت کا ہر سامان مہنگا کر دیا جاتا ہے، خاص طور پر ہمارے تاجر حضرات مصنوعی مہنگائی کے ذریعے اشیائے خورنی اس قدر مہنگی کر دیتے ہیں کہ نچلے طبقے کے لیے روزہ رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ہی اُن کے خاص تہواروں کے دنوں میں خصوصی سیل لگائی جاتی ہے تا کہ ہر آدمی اپنی بساط کے مطابق چیزیں سستے داموں میں خرید سکے۔ مسلم ممالک بشمول ترکی، یو۔ اے۔ ای اور ملائیشیا میں رمضان المبارک میں چیزوں کے دام بڑھانا قانوناً جرم ہے۔ تجارت پیشہِ پیغمبری ہے۔ قرآن کریم میں قوم شعیب کا جو قصہ بیان ہوا ہے اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تاجروں کی لوٹ کھسوٹ کا ذکر ہوا ہے۔ شعیب علیہ السلام کی بستی کا نام مدین تھا اور وہ ایسے مقام پر تھی جہاں چاروں طرف سے تجارتی قافلے اترتے اور اہم لین دین کرتے تھے۔ دولت کی ہوس نے مدین والوں کو اتنا اندھا کر دیا کہ انہوں نے اشیا خریدنے اور بیچنے کے پیمانے الگ الگ بنا لیے۔ ناجائز ذرائع سے کمائی ہوئی دولت نے انہیں مغرور بنا دیا تھا۔ حضرت شعیب علیہ السلام کے بارہا سمجھانے کا بھی اس بدبخت قوم پر مطلق اثر نا ہوا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر قوم شعیب کو دو قسم کے عذاب نے آ گھیرا، ایک زلزلہ کا عذاب اور دوسرا آگ کی بارش کا عذاب یعنی جب وہ اپنے گھروں میں آرام کر رہے تو یک بیک ایک ہولناک زلزلہ آیا اور ابھی یہ ہولناکی ختم نہ ہوئی تھی کہ اوپر سے آگ برسنے لگی، نتیجہ یہ نکلا کہ صبح کو دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کل کے سرکش اور مغرور آج گھٹنوں کے بل اوندھے جھلسے ہوئے پڑے تھے۔ صرف قوم شعیب کے لوگ ہی نہیں بلکہ ہر زمانے میں بگڑے ہوئے نافرمان اور سرکش لوگوں کا حال ایسا ہی دردناک ہوا ہے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ناجائز منافع خوری کی کمائی سے عمرہ، زکوٰۃ، صدقہ، فطرانہ یا افطاری جائز ہو گی؟؟؟ فرمانِ نبویﷺ ہے کہ جس نے گناہ کے ذریعہ مال کمایا، اور اس مال سے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کیا، یا صدقہ خیرات کیا، یا اس مال سے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، تو یہ مال تمام کا تمام جمع کر کے جہنم میں اس کے ساتھ پھینک دیا جائے گا۔ غریب عوام کی زمین و مال ہتھیا کر، ناجائز منافع خوری کر کے، ملاوٹ شدہ اشیا مہنگے داموں فروخت کر کے اس دولت میں سے کچھ حصہ نکال کر لمبی لمبی سڑکوں کے ساتھ ساتھ افطار کی لا ئنیں بنوانے والے عوام کو تو سمجھا دیتے ہیں کہ وہ بہت ہمدرد اور خدا ترس ہیں لیکن ذاتِ خدا ہر بندے کی نیت اور اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور بلا شبہ روزِ محشر وہ ذات حساب لینے والی ہے کہ کیا افطار دینے سے پہلے زکوٰۃ ادا کی تھی یا نہیں۔ اگر یہ سب لوگ دنیاوی دکھلاوے سے نکل کر زکوٰۃ ادا کرنا شروع کر دیں تو ہماری قوم کا غریب ایسے سڑکوں پر نہیں بلکہ اپنے اپنے گھروں میں عزت و حیا کے ساتھ اپنی فیملی کے ہمراہ افطار کرے۔ رمضان المبارک تو ضرورت مند کے ساتھ احسان، ہمدردی، سخاوت، خوشیاں بانٹنے اور نیکیاں سمیٹنے کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں رسول اللہﷺ سب سے زیادہ صدقات دیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے۔ رسول اللہﷺ خیر میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپﷺ کی سخاوت کا سب سے زیادہ اظہار رمضان کے مہینے میں ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان میں کی جانے والی ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی اور عبادت کا ثواب ستر گنا زیادہ بڑھا دیا۔ شیاطین کو قید میں ڈال دیا، دوزخ کے دروازے بند کر دیے اور جنت کے در کھول دیے۔ اللہ تعالیٰ ذخیرہ اندوزی کی لعنت سے ہر مسلمان کی حفاظت فرمائے اور رسول اللہﷺ کے بتلائے ہوئے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے تجارت کرنے اور ماہ رمضان میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین

تبصرے بند ہیں.