وہ دن گئے …

71

ملکی منظرنامے پر ’عدم اعتماد‘ کے سیاہ بادل چھائے رہے۔ 8 مارچ سے شروع ہونے والا سیاسی عدم اعتماد کا جھکڑ پوری قوم کے اعصاب شل اور حواس مختل کردینے کے بعد بالآخر باضابطہ 28 مارچ کو بصورت قرارداد پیش ہوگیا۔پھرقومی اسمبلی میں1 3 مارچ سیبحث کا آغاز… پوری قوم معلق رہی! ویسے غور فرمائیں تو ہر طرف عدم اعتماد ہی قومی چلن بن چکا ہے۔ ہر رشتے میں عدم اعتماد کی سرسریاں، سرسراتی نظر آئیںگی۔ ٹھوس، مضبوط کردار، اقدار وروایات کی پاسداری، مان اور بھرم رکھنا، سچی کھری بات، اس سب کو دوغلے پن، مفاد پرستی، (لوٹا گردی، ہارس ٹریڈنگ سیاسی سطح پر) نگل گئی۔ شوہر بیوی، والدین اولاد، دوست احباب، استاد شاگرد،حکومت عوام،اسٹیبلشمنٹ سول حکومت سبھی عدم اعتماد کے گرداب میں ہیں، الا ماشاء اللہ!
جرائم کی جڑ بنیاد میں بھی عدم اعتماد کے سانپوں کا ڈسنا ہے۔ پے درپے شادی شدہ جوڑوں مابین قتل کی وارداتیں، خودکشیاں اسی کا شاخسانہ ہے۔ اس کی حقیقی وجہ تو اللہ سے تعلق اور رشتے کی عدم پہچان ہے جو خشت اول ہے۔ اس رشتے میں بندے کی تشکیک ہر رشتے کو مجروح کر دیتی ہے۔ اور یہی ہمارا المیہ ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی طرف لوٹیے تو 172 ممبران پکڑ پکڑاکر اسمبلی میں پیش کردیے جانے پر یہ امتحان معلق رہا۔ حکومت میں پی ٹی آئی کے اپنے 155 ارکان کے علاوہ باقی تکیہ اتحادی جماعتوں کے پتوں پر تھا، جو کبھی اِدھر ہوا دینے لگتے کبھی اُدھر! یہ 17 ارکان عدم اعتماد کے تھال میں مستقل دونوں طرف لڑھکتے رہے ، بہتر پیکیج (مفاداتی، مراعاتی، اصولی نہیں!) کی تلاش میں۔ پی ٹی آئی کے درجن سے زیادہ نے بھی اپنی پارٹی کو آنکھیں دکھائیں (تو وزیراعظم کی زبان لڑکھڑانے لگی۔) تاہم جب نااہلی کی تلوار ان کے سر پر لٹکی تو منحرفین غضِ بصر کرکے بیٹھ رہے۔
اندازہ کیجیے کہ اپوزیشن کو پھیرے لگوا لگواکر، عدم اعتماد تحریک پیش ہونے سے عین پہلے چودھری پرویز الٰہی زقند بھر کے بنی گالہ جا پہنچے وزارت اعلیٰ پنجاب کما نے! اس پورے عرصے میں قومی کردار کا ایکسرے سامنے آ گیا۔روحانی سطح پر پھیپھڑے ناکارہ،گردے فیل۔دل کی دھڑکن پیٹ میں منتقل۔یہ بحران زیادہ خطرناک ہے!
یہ نمبر گیم پوری قوم کے لیٔے اعصاب آزما رہی ۔ ذہنی تناؤ سے ایک ہارمون ’کورٹیسول‘ کا اخراج ہوتا ہے جو واضح سوچنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ پوری قوم کا دماغ اس تناؤ نے دھندلا دیا ہے۔ (اسی لیے شاید لڑھکنے کا عمل بڑھ گیا ہے۔) کورٹیسول کی سطح ہنسنے مسکرانے سے کم ہوجاتی ہے، مگر کیا کیجیے کہ: پہلے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی، اب کسی بات پر نہیں آتی۔ اب تو صرف لاحول پڑھ کر مکھیوں کی طرح (تقریر، خطابات پر) بھنبھناتے شیاطین بھگاکر اور ازسرنو کلمہ پڑھ کر ہوش ٹھکانے لانے کا وقت ہے۔ ماہ ِقرآن آنے کو تھا اور قرآنی آیات کو جلسوں میں گھسیٹ کر قوم کے فکر ونظر پر خودکش حملے جاری رہے۔ عمرانی دور
میں صادق وامین، ریاست مدینہ، ایاک نعبد وایاک نستعین کے مسلسل استعمال کے پس پردہ یہ ایجنڈا دکھائی دیتا رہا کہ عقیدے، یقین، ایمان، تاریخ سبھی سے نسلوں کو بیگانہ کردیا جائے۔ ذہن اصطلاحات پر الجھا دیے جائیں۔ صادق، امین کی بات ہوتو وزیراعظم کی رطب ویابس تقاریر، پورا حال ماضی نگاہوں میں سما جائے۔ ریاست مدینہ کا تذکرہ آئے تو اس کے وجود پذیر ہونے میں موسیقی بھرے مخلوط دھرنے، پارلیمنٹ، ٹی وی اسٹیشن پر حملہ آوری کا ’جہاد‘ یاد آئے۔ سوشل میڈیا، جلسوں کے زبان وبیان کے ہمراہ برباد معیشت، غربت، بے روزگاری کے دوردورہ کا تصور قائم ہو۔ جہاں سودی معیشت رزق کو آلودہ کر رہی ہو۔ جو کسر باقی تھی وہ اب تحریک عدم اعتماد میں اللہ رسول کے تذکروں اور ڈی جے کی ڈم ڈم، موسیقی کے بیچ نعرہ زن بے پردہ عورتیں، مردوں کے ساتھ، اس جلسے کوا مر بالمعروف نام دے دیا گیا۔ پورے شہر میں گاڑیوں میں سوار موسیقی بجاتے جھنڈے لہراتے پی ٹی آئی کارکن! اداکاروں، ماڈلز شوبز افراد کی کم لباس ٹویٹس کے ساتھ ’امر بالمعروف‘ نتھی، عمران خان کو بڑھاوے دیتی رہیں۔
اس آیت (آل عمران۔ 110) کے تحت دنیا میں اللہ کا پیغام عام کرنے، (حق کا گواہ بن کر) نیکی پھیلانے، بدی کے سدباب کے لیے پوری انسانیت کے لیے بہترین گروہ کے عنوان سے ہمیں اٹھائے جانے کا تذکرہ ہے۔ رمضان اسی کی تربیت اور قرب الٰہی ومغفرت لیے چلا آ رہا ہے اور ہم قرآنی اصطلاحات سے جہالت کا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ رب تعالیٰ اپنی شان کریمی سے ہمیں بخش دے۔ ان قومی لایعلمون۔ یہ آکسفورڈ، آئی بی اے کا فخر لیے دین سے بے بہرہ ہے۔
آئی بی اے کا حوالہ یوں آیا کہ کراچی یونیورسٹی کیمپس پر قائم بزنس کی تعلیم کا ہائی فائی ادارہ، جو اعلیٰ تعلیمی معیار اور پیشہ ورانہ مہارت کی شہرت کا حامل رہا، سے تکلیف دہ خبریں سامنے آئی ہیں۔ جسے لوگ مادر علمی کہتے ہیں، آج انہی یونیورسٹیوں میں جو کلچر پروان چڑھ رہا ہے وہ ’مادر علمی‘ کہلائے جانے والی کا دامان تقدس داغدار کر رہا ہے۔ مسلسل تین شرمناک رقص وسرود کی پارٹیوں کے بعد یہ چوتھی ریو (Rave ) پارٹی ہے جس کی وڈیو منظرعام پر آئی تو شدید ردعمل سامنے آیا۔ ’ریو‘ پارٹی (ممنوعہ) منشیات کے زیر اثر بلند آہنگ تیز کان پھاڑ موسیقی کے ساتھ لڑکے لڑکیوں کی رقص وسرود بھری پارٹی ہوتی ہے۔ کوکین جیسی منشیات کا استعمال اور نشے میں دھت، کم لباسی میں مبتلا یہ پارٹی ہوئی۔ اسی کلچر کا نام تبدیلی اور نیا پاکستان بھی ہے، ریاست مدینہ کے ساتھ ساتھ!
ایک صحافی کے مطابق یہ ’تھائی لینڈ کے نائٹ کلب یا ہالینڈ کے ہم جنس پرستوں کا اکٹھ نہیں تھا بلکہ یہ کراچی کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے IBA کے کیمپس پر ہوا۔‘ سب سے بڑی غلاظت یہ ہے کہ یہ علی الاعلان ہم جنس پرستوں کی پارٹی، ان کے بین الاقوامی جھنڈے لہراتی ہوئی انتظامیہ کی عین ناک کے نیچے ڈٹ کر ہوئی۔ یونیورسٹی کی سیکورٹی عدم مداخلت پر پابند (پہرہ دیتی؟) رہی۔ امریکا یورپ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں بھی ایسے رقص وسرود کا تصور نہیں پایا جاتا۔ یونیورسٹیاں نہیں ان مقاصد کے لیے ان کے ہاں نائٹ کلب ہوتے ہیں۔ وہ بھی مادر علمی کو پامال نہیں کرتے! ہم آج پاکستانی یونیورسٹیوں کا جائزہ لیں تو علم کے پردے میں اختلاط کے کھلے بلاروک ٹوک مواقع، لباس کی کھلی چھٹی، بلکہ شوخ وشنگ، بلا حدود وقیود لباس کی حوصلہ افزائی نے تعلیمی اداروں کو حقیقتاً قتل گاہیں (سیرت وکردار کی) بنا رکھا ہے۔
IBA کے اس واقعے پر یہاں کے سند یافتگان اور اساتذہ میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ انتظامیہ کو مذمتی، احتجاجی اور تفتیش کے مطالبوں پر مبنی ای میلز بھیجی گئی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’نہ صرف یہ ہماری معاشرتی ثقافتی اور دینی اقدار کے خلاف ہے بلکہ ملکی قوانین کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انتظامیہ کی خاموشی اور ایسے پے درپے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ادارے کے نئے ڈائریکٹر ڈاکٹر اکبر زیدی کی تایٔد سے یہ اقدار رائج کی جا رہی ہیں۔ فحاشی کو فروغ دینے والی ایک اقلیت کو اکثریت پر حاوی ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘ پہلے بھی انتظامیہ کو ادارے کے اساتذہ متوجہ کر چکے تھے باربار کہ ’کیمپس میں بدلباسی، کم لباسی اور سرِعام عشق عاشقی کا اظہار باعث عار اور باعث تشویش ہے، اس سے ادارے کی ساکھ، شناخت مجروح ہو رہی ہے۔ اس پر خاموشی کا خمیازہ IBA کو بھگتنا پڑے گا۔‘ مگر انتظامیہ منہ موڑے رہی۔ اب جب احتجاج بڑھا تو روایتی ڈھکوسلہ یونیورسٹی کی ترجمان عائشہ جاوید کا سامنے آگیا: ’معاملے کا نوٹس لے کر کمیٹی کے سپرد کردیا گیا ہے، وقوعے کا جائزہ لینے اور عملدرآمد کے لیے۔‘
تاہم یہ دیدہ دلیری کی انتہا ہونے کے باعث ’امر بالمعروف‘ والی وفاقی حکومت، ملک پر حکمرانی کی خواہشمند سندھ حکومت کا فرض ہے کہ انضباطی کارروائی ہو۔ ملوث طلباء وطالبات کامکمل اخراج کیا جائے، ادارے کو پاک کرنے کے لیے۔ ملکی حالات کی نزاکت، امت کو درپیش مسائل ہوں اور اعلیٰ طبقے کے یہ سپوت گندگی، ناپاکی اور عذاب رسیدہ قوم کا چلن ڈٹ کر یہاں رائج کرنے کی جرأت رکھیں؟ اعلیٰ تعلیم کے ذمہ داران، دانشوروں، والدین، سیاست دانوں سبھی کی ذمہ داری ہے کہ نوجوان نسل کے اس طبقے اور ان کے پشت پناہوں کی خبر لیں۔ وزیر تعلیم نصابوں سے رہا سہا کردار ساز نظریہ اور اسلامی ملی اقدار والے عنوانات، مضامین نکالنے کا نتیجہ ملاحظہ فرما لیں۔ مخلوط تعلیم کے لیے حدود وقیود کا تعین اور طالب علموں کے لیے مہذب لباس اور اصول وضوابط کی پاسداری اولین ترجیح بناکر لاگو کیے جائیں۔ اس گناہ عظیم کو نظرانداز کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تازہ ترین تصویر قائداعظم یونیورسٹی کی ہے۔ اعلیٰ تعلیمی ادارے میں منچلے ’طالبِ علم‘ ہولی کے رنگوں میں ایک دوسرے کو رنگنے کا ہندو مذہبی فریضہ انجام دے رہے ہیں!
وہ دن گئے کہ روشنی قلب و نظر میں تھی
اب بات کیا ہے چاند ستاروں میں کچھ نہیں

تبصرے بند ہیں.