فیصلے کی گھڑی

10

اگر حالات نارمل رہے تو آج تحریکِ عدم اعتماد کا فیصلہ ہو جائے گا اور لگ بھگ 2 ماہ سے جاری ذہنی خلجان بھی دور ہو جائے گا۔ متحدہ اپوزیشن تو ماہِ جنوری سے ہی وزیرِاعظم کے خلاف عدم اعتماد کے لیے مشاورت کر رہی تھی اور 12 جنوری کو حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے عدم اعتماد لانے کا اعلان بھی کر دیا تھا لیکن حتمی تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ اِس دوران وزیرِاعظم کے حواریوں اور کچھ وزراء نے طنز کے تیر بھی برسائے اور یہاں تک کہہ دیا کہ اپوزیشن میں تحریکِ عدم اعتماد لانے کی سکت ہی نہیں۔ 7 مارچ کو وزیرِ اطلاعات ونشریات فواد چودھری نے ٹویٹ کیا ’’ایک تھی عدم اعتماد، پھر صبح ہوگئی اور آنکھ کھُل گئی‘‘۔ پھر صبح بھی ہوئی اور روزِروشن میں 8 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پیش بھی کر دی گئی۔ یہ وہی دن تھا جب بلاول بھٹو زرداری کے 27 فروری کو کراچی سے نکالے گئے لانگ مارچ کا اسلام آباد میں اختتام ہوا۔ تب وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لے آئی۔ اب وہ اپوزیشن کو نہیں چھوڑیں گے۔ اُنہوں نے یہاں تک کہہ دیا ’’زرداری میری بندوق کی شست پر ہے‘‘۔ متحدہ اپوزیشن جوڑتوڑ میں مصروف رہی اور حکومت تاخیری حربوں میں۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے لیے اپوزیشن کی ریکوزیشن 8 مارچ کو پیش ہوئی اور آئین کی رو سے 14 دنوں یعنی 22 مارچ تک کسی بھی دن پارلیمنٹ کا اجلاس بلانا ضروری تھالیکن یہ اجلاس 25 مارچ کو بلایا گیا۔ اِس غیرآئینی اقدام پر سپیکر قومی اسمبلی کو جلد یا بدیر جواب دینا ہی پڑے گا۔ 2 دن کے وقفے کے بعد 28 مارچ کو تحریکِ عدم اعتماد پیش ہوئی اور آج (3 اپریل) اِس پر ووٹنگ ہونے جا رہی ہے۔
8 مارچ سے یکم اپریل تک صورتِ حال لمحہ بہ لمحہ بدلتی رہی۔ وزیرِاعظم نے اِس دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں جلسے کیے اور یوں محسوس ہونے لگا کہ جیسے یہ انتخابی جلسے ہوں۔ اِس دوران اُن کے لہجے میں تلخیاں گھُلتی رہیں اور مُنہ سے غیرپارلیمانی الفاظ کی بھرمار ہوتی رہی۔ اُنہوں نے بار بار مولانا فضل الرحمٰن کو ڈیزل اور میاں شہباز شریف کو بوٹ پالشیاکہا۔ اپوزیشن کے تینوں سربراہوں کو وہ ’’تین چوہے‘‘ کہتے رہے۔ حیرت ہے کہ اُن کی ہر تقریر کا آغاز قُرآنی آیات سے ہوتا اور وہ اپنے آپ کو ایک دینی مبلغ کے طور پر پیش کرتے رہے لیکن اپوزیشن کے رَہنماؤں کے نام بگاڑتے ہوئے اپنے گناہوں میں بھی اضافہ کرتے رہے کیونکہ دین میں نام بگاڑنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اُدھر اپوزیشن سیاسی جوڑتوڑ میں مصروف رہی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب سندھ ہاؤس میں اُس نے پاورشو کا مظاہرہ کرتے ہوئے 199 ارکانِ قومی اسمبلی کی رونمائی کر دی۔ حالانکہ اُسے عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے صرف 172 ارکان کی حمایت درکار ہے۔
اُدھر اپوزیشن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی رہی اور اِدھر حکومت سازشی چالوں کے سہارے آگے بڑھتی رہی۔ وزیرِاعظم کے حواری متواتر کہتے رہے کہ کپتان آخری بال پر چھکا لگا کر بال باؤنڈری سے باہر بھیج دے گا اور اپوزیشن کو بُری ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فوادچودھری جیسے حکومتی وزراء نے یہاں تک دھمکی دی کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ والے دن ڈی چوک پر پارلیمنٹ کے سامنے 10 لاکھ کا مجمع ہوگااور ارکانِ پارلیمنٹ کو اسی مجمعے میں سے گزر کو پارلیمنٹ کے اندر جانا اور واپس آنا ہوگا۔ اِس کھُلی دھمکی پر سپریم کورٹ حرکت میں آئی اور ریڈ زون کو نہ صرف غیرمتعلقہ افراد کے داخلے سے منع کر دیا بلکہ ارکانِ پارلیمنٹ کی حفاظت کی ذمہ داری کو یقینی بنانے کا حکم بھی صادر کیا۔ پھر اِنہی 10 لاکھ افراد کا 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ میں جلسے کا اعلان ہوا جس سے وزیرِاعظم نے خطاب کے دوران وہ ’’تُرپ کا پتّہ‘‘ نکالنا تھاجو بازی پلٹ دیتا۔ 27 مارچ کو 10 لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے کی دعویدار حکومت پورے پاکستان سے 50 ہزار بندے بھی اکٹھے نہ کر سکی حالانکہ خود وزیرِاعظم نے ٹی وی پر لوگوں کو اُس پریڈ گراؤنڈ میں پہنچنے کی تلقین کی تھی جہاں اُنہوں نے بازی پلٹ دینے والا تُرپ کا پتہ نکالنا تھا۔ یہ مجمع اکٹھا کرنے کے لیے تمام حکومتی ذرائع استعمال کیے گئے حتیٰ کہ کراچی سے پنڈی تک مفت ٹرین بھی چلائی گئی۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق پونے 2 گھنٹے کے خطاب کے بعد تُرپ کا وہ پتّہ نکالا گیا اور بتایا گیا کہ اُن کے ہاتھ میں ایک غیرملکی طاقت کا وہ خط ہے جس میں اُن کے وزیرِاعظم برقرار رہنے پر پاکستان کو خطرناک نتائج بھگتنے پر تیار رہنا چاہیے۔ اپوزیشن نے فوری رَدِعمل دیتے ہوئے کہا کہ اِس خط کو پارلیمنٹ کے ’’اِن کیمرہ‘‘ اجلاس میں لایا جائے اور اگر واقعی ایسا ہے تو پوری اپوزیشن وزیرِاعظم کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ بعدازاں یہ ثابت ہوا کہ یہ خط دراصل پاکستانی سفیر کا ایک مراسلہ ہے جو غیرملکی عہدیدار کے ساتھ اُس کی گفتگو پر مشتمل ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعدجو اعلامیہ جاری ہوا اُس میں نہ تو اپوزیشن کے ملوث ہونے کا کوئی ذکر ہے نہ فنڈنگ کا۔ اِسے محض ایک مراسلہ ہی تصور کیا گیا اور ایسے مراسلہ جات بیرونی ممالک میں متعین دیگر پاکستانی سفیر بھی روٹین میں حکومت کو بھیجتے رہتے ہیں۔ بعد ازاں وزیرِاعظم نے 31 مارچ کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کا نام بھی لے دیا اور زبان پھسلنے کا بہانہ بھی تراش لیا۔ امریکی محکمہ خارجہ اور وائٹ ہاؤس کی طرف سے اِس معاملے میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید آچکی۔
تُرپ کے اِس پتّے کی ناکامی کے بعد اب کہا جا رہا ہے کہ 3 اپریل کو ڈی چوک اسلام آباد پر ایک لاکھ کا مجمع اکٹھا ہو گا۔ وزیرِدفاع پرویزخٹک کی ایک آڈیو لیک ہوئی ہے جس میں وہ کارکنوں کو ہدایت کر رہے ہیں کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ صبح ہو یا شام کو، سب اسلام آباد پہنچ جائیں۔ اُنہوں نے پشتو زبان میں یہ بھی کہا کہ عمران خاں با ضابطہ اعلان نہیں کریں گے لیکن یہ اُن کا فیصلہ ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ محمود خاں کی بھی ایک آڈیو لیک ہوئی ہے جس میں وہ اپنے صوبے کے وزراء کو نہ صرف امریکہ کے خلاف ریلیاں نکالنے کا کہہ رہے ہیں بلکہ منحرف ارکانِ اسمبلی کے خلاف تشدد پر بھی اُکسا رہے ہیں۔ اُس آڈیو میں وزیرِاعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ اِن مردود ایم این ایز کی تصویریں نکالیں اور اُن پر بھی غدار اور امریکی ایجنڈ کا لیبل لگائیں، یہ وزیرِاعظم کا حکم ہے۔ حیرت ہے کہ محض اپنی کُرسی بچانے کے لیے وزیرِاعظم انارکی پھیلانے کی تگ ودَو میں مصروف ہیں۔ لیکن اِس میں حیرت کی بھی کوئی بات نہیں کیونکہ وزیرِاعظم 2014ء کے اسلام آباد دھرنے میں بھی انارکی پھیلانے کی بھرپور کوشش کر چکے ہیں۔
یوں تو وزیرِاعظم اپنوں کو دھوکہ دینے میں یَدِطولیٰ رکھتے ہیں(اِس کی بیشمار مثالیں موجود ہیں لیکن کالم میں اُن کی گنجائش نہیں) البتہ ’’وسیم اکرم پلس‘‘ کا استعفیٰ سبھی کو حیران کر گیا کیونکہ یہ وہی شخص ہے جس کی تعریف میں وزیرِاعظم زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے اُسے کسی صورت میں وزارتِ اعلیٰ سے ہٹانے کو تیار نہیں تھے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ عثمان بزدار کو وزارتِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانا اور چودھری پرویز الٰہی کو نامزد کرنا محض ایک سیاسی سمجھوتہ ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سیاسی سمجھوتہ کرسی بچانے کے لیے کیا گیا۔ گویا وزیرِاعظم کُرسی کی خاطر کسی بھی حد تک گِر سکتے ہیں۔ ایسے وزیرِاعظم کو بھلا ملک وقوم کی پرواہ کیسے ہو سکتی ہے۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ عثمان بزدار کا استعفیٰ بھی غیرآئینی نکلا کیونکہ آئین کی رو سے استعفیٰ گورنر کو پیش کیا جاتا ہے لیکن عثمان بزدار نے یہ استعفیٰ وزیرِاعظم کو دیا اور اُس کا مخاطب بھی وزیرِاعظم ہی ہے۔ اب یہ وقت ہی بتائے گا کہ اِس غیرآئینی استعفے کو گورنر پنجاب چودھری سرور نے کس آئین وقانون کے تحت قبول کیا۔ بہرحال عثمان بزدار مستعفی ہوچکے، پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی ہوچکا جس میں حکومت کی طرف سے چودھری پرویز الٰہی اور اپوزیشن کی طرف سے حمزہ شہباز کی نامزدگی سامنے آچکی۔ آج پنجاب اسمبلی میں بھی قائدِایوان کا انتخاب ہوگا۔ ہمارا خیال تو یہی کہ قومی و پنجاب اسمبلی، دونوں جگہوں پر اپوزیشن ہی کامران ٹھہرے گی۔ ہماری رَبِ لَم یَزل سے دعا ہے کہ وہی نتیجہ سامنے آئے جس میں ملک وقوم کی بہتری ہو۔

تبصرے بند ہیں.