معصوم شہری ا ور مکار پولیس

18

(آخری قسط)
جب ہم تھانہ فیکٹری ایریا پہنچے وہاں اے ایس آئی ہیلے بہانے کرنے لگا ،ٹال مٹول کرنے لگا ،مدعی آدھے گھنٹے بعد تھانہ پہنچا اور بات چیت ہوئی کہ پولیس جس شہری کو لائی ہے وہ پتنگ باز نہیں ہے ،مدعی کہنے لگا کہ آپ جاوٗ جو اصل ملزم ہے اس کا سراغ لگانے کی کوشش ضرور کرنا ،شہری نے بچی کے والد کو یقین دلایا کہ میری چھت کے ارد گرد جو بھی ہوا ،میں جانچ پڑتال کر کے پولیس ہی نہیں آپکو کو بھی بتادوں گا۔جب یہ فیصلہ اے ایس آئی عباس علی کے سامنے رکھا تو اس نے بات سننے سے ہی انکار کر دیا۔میں اے ایس آئی کا رویہ دیکھ کر پریشانی میں مبتلا ہو گیا کہ میں خود بے گناہ شہری کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر تھانہ میں گیا اور اب یہ بات سننے اور کرنے کو تیار ہی نہیں۔
اس دوران وہاں وائرلیس سیٹ تھامے اے ایس آئی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بولنے لگا کہ کہ سی سی پی او لاہور جاگ رہے ہیں ،وائرلس پر کالیں چلوا رہے ہیں کہ شہر میں پتنگ بازی ایکٹ کی خلاف ورزی پر فوری ایکشن لیں ،اس دوران ترجمان لاہور پولیس کی جانب سے ٹیکر ز بھی جاری ہوگئے کہ سی سی پی او فیاض احمد دیو نے ڈی آئی جی آپریشنز عابد کوہدایت کی ہے کہ کوتاہی کے مرتکب افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔ پھر کیا ہوا نامعلوم سمت سے آنے والی ڈور سے زخمی بیٹی کے والد کو مجبور کیا جانے لگا کہ یہی آپکا ملزم ہے ،مدعی کہنے لگا کہ یہ ہمارا ملزم نہیں ہے ،پھراے ایس آئی اور مدعی میں بحث و تکرار ہونے لگی کہ وہ کسی بے گناہ شہر ی پر مقدمہ درج نہیں کروائے گا پولیس اصل ملزم کو پکڑ کر ہی انصاف فراہم کرے۔اس بات پر اے ایس آئی کو ایس ایچ او ،ڈ ی ایس پی اور ایس پی کے آپریٹر کی کال آئی ،فوری مقدمہ درج کرو ،جان بچاوْ۔سی سی پی او کے نوٹس پراے ایس آئی عباس علی ،ایڈیشنل ایس ایچ او اسد عباس ،ڈی ایس پی سرکل ڈیفنس غلام دستگیر اور ایس پی کینٹ آپریشنز عیسی خاں سکھیرا نے میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بے گناہ شہری پر اقدام قتل کا مقدمہ درج کرت ہوئے نامزد ملزم بنا دیا۔
میں حیران ہو گیا اور سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کس قدر گھٹیا پن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے،کہ سی سی پی او کے نوٹس پر اپنی معطلی سے بچتے ہوئے بے گناہ شہری پر مدعی کو زبردستی خالی درخواست پر دستخط کروائے اورنا صرف جھوٹا مقدمہ درج کیا بلکہ تصویر کھینچ کر سی سی پی او ،ڈی آئی جی آپریشنز ،ایس ایس پی آپریشنز کو واپسی کال دی گئی کہ اصل ملزم پکڑ لیا گیا۔
جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب تقریبا ایک بجے سے چھ بجے تک یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ لوگ جو تھانہ جانے سے پہلے مجھ سے رابطہ کر لیتے ہیں کہ کوئی ہے تھانے میں جاننے والا تو میں کہتا تھا کہ کام میرٹ پر ہو گا تو خود ہی ہو جائے گا اور اگر نہیں ہوگا تو نہیں ہو گا ،یہ کہہ کر میں کئی بار متعلقہ افسران سے درخواست بھی کر دیتا کہ میرٹ کی بات نہیں کروں گا بلکہ یہ کہوں گا کہ حق دار کو اس کا حق دے دینایعنی انصاف کرنا۔لیکن اس بار تھانہ میں گیا، اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ پولیس نہ صرف جھوٹا مقدمہ درج کرنے کے لئے مدعی سے اصرار کرتی رہی ،بلکہ دھمکیاں دیتے ہوئے فیکٹری ایریا تھانہ میں مقدمہ چھ گھنٹے بعد درج بھی کر دیا گیا۔مگر عدالت پیش ہونے پر مدعی نے بیان دیا کہ یہ میرا ملزم نہیں ہے اور رہائی یقینی ہو گئی ،عدالت نے جب ایف آئی آر دیکھی تو ریمارکس دیئے کہ یہ مقدمہ کس بے وقوف نے درج کیا ہے‘ یہ میرٹ پر تو اقدام قتل بنتا ہی نہیںصرف اپنی ہی نہیں اے ایس آئی عباس علی نے مقدمہ درج کر کے ایس ایچ او ،ڈی ایس پی سرکل ڈیفنس غلام دستگیر اور ایس پی آپریشنز کینٹ عیسی خان سکھیرا کو معطلی سے بچا لیا ،مگر بے گناہ شہری کا کریمینل ریکارڈ بنا دیا۔یہ ہے مکار پولیس !
بات ہو رہی تھی جھوٹا مقدمہ درج کرنے کی ،تو ہاں اے ایس آئی نے تھانے میںمیری ہی نہیں اپنے پیٹی بھائیوں کے سامنے ہی مدعی کو دھمکا کر بے گناہ شہری پر مقدمہ درج کرنے کے لئے مجبور کیا گیا وہاں موجود پولیس جوانوں کی طرف میں دیکھتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے وہ بھی کہنے لگے کہ ایسا میں نے بھی پہلی بار دیکھا ہے ،یقینا یہ پہلی بار میں نے دیکھا ،پولیس ملازمین معصوم شہریوں پر جھوٹے مقدمات بنانے کے عادی مجرم بن چکے ہیں ،لہذا ایسے پولیس ملازم اور افسر پر محکمانہ ہی نہیں قانون کارروائی کو بھی یقینی بناتے ہوئے مثالی پولیس بنانے کے لیے اس واقعہ پر نظر ثانی ہی نہیں شدید تبدیلی کی ضرورت لازم ہے۔لاہور پولیس کے شاطرانہ انداز و بیان نے ثابت کر دیا کہ جب تک محکمہ میں ایسے پولیس ملازم جو اپنا ضمیر بیچنے میں عار محسوس نہیں کرتے ،اچھے برے کی تمیز نہ رکھتے ہوں ،انصاف کوپیسوں کے ترازو میں تول کر دیتے ہوں ،جھوٹا مقدمہ درج کرنے میںڈرتے نہ ہوں، یہ سب محکمہ کی ان قربانیوں کو ضائع کرنے کے مجرم ہیں جو اسی محکمہ کے اہلکاروں‘ افسروں نے اسکی سربلندی کیلئے دی ہیں۔ پولیس کی جعلسازی ، ناروا سلوک اوربدنظمی سمیت پولیس کے رویہ سے بیزار ہونے والوں میں مزید اضافہ ہو گیاہے۔

تبصرے بند ہیں.