سیاسی بحران کا حل قبل از وقت الیکشن!

29

اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک اور وزیراعظم عمران خان کے جلسوں نے ایک بار پھرعمران خان کو مقبولیت کی اونچائی پر پہنچا دیا ہے اوروزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد کچھ حدٹلتی نظر آ رہی ہے۔ ایسے ماحول میں شیخ رشید کی قبل از وقت الیکشن کیلئے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش ایک بڑی بات ہے۔ اپوزیشن مستقبل کے لائحہ عمل پر متفق نظر نہیں آرہی ہے، تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد لائحہ عمل پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں اختلاف نظر آتا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے ساتھ ملاقاتوں کا بھی کوئی تاحال حتمی نتیجہ نہیں نکلا جبکہ حکومت انہیں راضی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی نئے وزیراعظم کا عہدہ شہباز شریف کو دینے پر راضی ہو گئی ہے، جبکہ مسلم لیگ ن قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے، جبکہ زرداری اور بلاول فوری انتخابات کرانے کے موڈ میں نظر نہیں آتے اور پارلیمانی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں۔
اپوزیشن کی عددی برتری ظاہر کرنے کے بعد تین چار آپشنز کی بات ہوتی رہی ہے جس میں ایک یہ کہ وہ ملک میں ایمرجنسی لگا دیں گے جسکے بعد ہر چیز رْک جائے گی لیکن ایسا کرنے کی صورت میں ایمرجنسی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا اور ممکنہ طور پر پہلی ہی سماعت پر یہ فیصلہ واپس ہو جائے گا۔ دوسری طرف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اسمبلیاں توڑنے کا آپشن ختم ہونے کے بعد آخری آپشن انکے پاس یہ ہے کہ وہ خود استعفیٰ دے دیں اور نئے انتخابات کا اعلان کروا دیں۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے قبل سیاسی ماحول گرم ہو رہا ہے جو کہ اگلے عام انتخابات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم الیکشن سے قبل پنجاب میں جلسے کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کے گڑھ سندھ میں عوامی رابطہ مہم شروع کردی ہے، دوسری جانب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن بھی لانگ مارچ کے زریعے متحرک ہے۔ اگرحکومت پریشان ہے تو دوسری جانب اپوزیشن بھی انجام کے حوالے سے گومگو ںکا شکار ہے۔ کچھ واضح نہیں ہے کہ آئندہ کیا ہوگا؟اگرچہ نمبر گیم پوری ہے لیکن اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی کوشش ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں عبوری سیٹ اپ میں چودھری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ دینے پر تیار ہو جائے لیکن تاحال وہ ایسا کرنے سے گریزاں ہے۔ مسلم لیگ ن کواگر کوئی ایسی گارنٹی مل جائے کہ انتخابات کا انعقاد فوری طور پر ہو جائے تو پھر مسلم لیگ ن کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون وزیر اعظم ہوتا ہے یا کون وزیر اعلیٰ بنتا ہے۔دراصل پیپلز پارٹی اس بات سے بھی پریشان ہے کہ تحریک انصاف کے حکومتی ارکان کی بڑھتی تعداد مسلم لیگ ن کی طرف راغب ہے اور آئندہ کیلئے ٹکٹ کی خواہشمند ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر مسلم لیگ ن نے ٹکٹوں کی آفر کردی تو اسکو کسی حکومتی اتحادی یا اپوزیشن کی ضرورت نہ پڑے گی۔
اس سے انکار نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک حقیقت ہے اور کئی سیاستدان خود اپنے ساتھی پارلیمنٹرینز کے بجائے ریاستی حمایت پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں۔ اہم ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس آج کیا چوائس موجود ہے؟ کیا وہ مسلم لیگ ن یا پیپلز پارٹی کی طرف جائیں گے؟یا وہ خود پی ٹی آئی میں ہی عمران خان کا متبادل ڈھونڈ رہے ہوں۔ اسٹیبلشمنٹ بارے اپوزیشن اور حکومت سمیت کوئی بھی واضح اورحتمی اندازہ لگانے سے قاصر ہے، کیونکہ اگر اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی ہیں تو اتحادی تاحال حکومت سے کیوں جڑے ہوئے ہیں؟ اسکی وجوہات گہرائی اور پراسرار ہیں ۔ مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، باپ پارٹی، جی ڈی اے اورجنوبی پنجاب کے ارکان تاحال کسی اشارے کے منتظر ہیں اور پریشان ہیں کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی تو کیا ہوگا۔ یقینا اس سے حکومت مضبوط اور اپوزیشن مشکل میں آ جائے گی، ویسے بھی عدم اعتماد کی کامیابی میں ابھی مستقبل کا نقشہ واضح اور خوش کن نہ ہے بلکہ بہت سی رکاوٹیں اور پیچیدگیاں شامل ہیں،اگرچہ مسلم لیگ ن کو امید ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم بننے کی صورت میں معاملات سلجھا لیں گے۔ لہٰذا سیاسی قائدین کو سیاسی میچور ہونے کا ثبوت دینا چاہیے، ان حالات میں شیخ رشید کا قبل از وقت الیکشن کیلئے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش ایک بڑی بات ہے۔ اگر انکی اس پیشکش میں وزیراعظم کی آشیرباد شامل ہے تو یہ پیشکش بہت سے مسائل، پیچیدگیوں بے اصولیوں اورسیاسی بحران سے قوم کو بچالے گی۔

تبصرے بند ہیں.