ڈوبتی ناؤ

32

کوئی یہ تسلیم کرے یا نہ کرے مگر حقیقت کو کیسے جھٹلایا جا سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کی ناؤ میں اتنا بڑا سوراخ ہو چکا ہے کہ اب اس کا ڈوبنا لکھا جا چکا ہے کیونکہ حکومت ان چار سال میں عوام کو کچھ ڈلیور کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ چور چور کی گردان کے سوا عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ چار سال گالم گلوچ اور اپنی ٹیم کی ناقص کارکردگی اور نا اہلی کو چھپانے کے لیے سابقہ حکومتوں پر ذمہ داری ڈالنے کے الزامات میں گزار دیئے۔ جس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے نہ صرف اتحادی بلکہ حکومت کے اپنے وزراء اور اراکین اسمبلی میں برملا یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ ہم جن نعروں کی بنیاد پر عمران خان کے ساتھ شامل ہوئے تھے، ہمیں ان سے مایوسی ہوئی ہے۔ ویسے بھی ڈوبتی ہوئی ناؤ میں کون سوار ہوتا ہے اور بالخصوص جب کنارے پہنچنے کی کوئی امید باقی نہ ہو۔ بادبان بھی جواب دے چکے ہوں لوگ تو ہچکولے کھاتی کشتی سے چھلانگ لگا جاتے ہیں یہاں تو معاملہ یکسر مختلف ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کھلی آنکھوں سب دیکھتے ہوئے کہ ان کی اخلاقی و قانونی پوزیشن بہت کمزور ہو چکی ہے اس کے باوجود میں میں نہ مانوں کے مصداق سرکس لگائے بیٹھی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے اقتدار کا سورج غروج ہونے کے قریب ہے۔ حکومتی حلقوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن جب چاہے حکومت کے خلاف لا سکتی ہے یہ ان کاآئینی حق ہے۔ بدقسمتی سے ان دنوں تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے وہ پہلے کبھی دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی۔ اب تو یوں لگ رہا ہے کہ جیسے اپوزیشن حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لا کر کوئی بہت سنگین نوعیت کا جرم کر بیٹھی ہے۔ غیر پارلیمانی، غیر اخلاقی اور غیر سیاسی جملوں کا بے دریغ استعمال ثواب کا کام سمجھ کر کیا جا رہا ہے۔ بلاشبہ سیاسی ماحول کی گرما گرمی دونوں اطراف حکومت اور اپوزیشن سے ہے۔ تاہم حکومت کی طرف سے ہونے چرب نما شعلہ بیانی حالات کی مزید کشیدہ اور پراگندہ کر رہی ہے۔ حکومت کا یہ اقدام ایک طرح سے اپوزیشن اور اپنے اتحادی اراکین اسمبلی کو ڈنکے کی چوٹ پر کھلم کھلا حراساں کرنے کے مترادف ہے کیونکہ حکومت کی صورت غیر پارلیمانی زبان اپنے اتحادیوں یا اپنے اراکین اسمبلی کے خلاف استعمال نہیں کر سکتی۔ آئین نے ان کو یہ حق تفویض کیا ہوا ہے کہ اپنا ووٹ جس کو چاہیں دیں۔ مختلف حیلوں بہانوں سے ان کو ووٹ کے حق رائے دہی سے محروم کرنے کے لیے حکومت جو بھی اقدامات کر رہی ہے اور کرے گی وہ آئین کی نفی ہے۔ حکومت تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے آئین اور عوام دونوں کے تقدس کو پس پشت ڈال کر ملک میں انارکی پھیلانے کی راہ پر چل نکلی ہے۔ حکومت نے اپنے اس عمل سے اپنی رہی سہی ساکھ بھی خراب کر لی ہے۔ مہنگائی اور بیروزگاری کے سبب جو کہ پہلے عوام کے نشانہ پر تھی رہی سہی کسر ڈی چوک اسلام آباد جلسے کے اعلانات نے نکال دی ہے جس پر ہر کوئی حکومت پر تھوتھو کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے اب حکومتی وزراء جو مرضی کہیں جتنی مرضی ڈینگیں ماریں کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی، اپوزیشن کو منہ کی کھانا پڑے گی اب کے مار کے مترادف ہے۔ کوئی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کی بات پر یقین نہ بھی کرے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا نہیں کیونکہ حکومتی اتحادیوں اور تحریک انصاف کے منحرف اراکین اسمبلی کا اپوزیشن کی طرح واضح جھکاؤ اور خود وزیراعظم عمران کے گھبراہٹ میں بے پرکی بیانات اس بات کی مدلل دلیل ہے کہ ان پر عیاں ہو چکا ہے کہ ان کے اقتدار کی بساط لپیٹی جا چکی ہے اور اب وہ چند دن کے مہمان ہیں۔ اس لیے اپنی شکست کو بھانپتے ہوئے ان کی اس قدر پھڑ پھڑاہٹ اس امر کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن وقت سے پہلے ہی کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہے اور حکومت اپنی ہار کو دیکھتے ہوئے ملکی حالات کر کے اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتی ہے جبھی تو کھلم کھلا یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے خلاف ووٹ دینے والوں کو دس لاکھ کے ہجوم سے گزر کر جانا اور آنا ہو گا۔ یقینا حکومتی وزراء کی یہ دھمکیاں آئین کی نفی اور ملک کو تصادم کی طرف لے جانے کی پیش قدمی ہے۔ آئین و قانون کی نظر حکومت کا یہ اقدام آئین کے آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ملک میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔خدا خیر کرے کچھ حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے لیے آئین کے متصادم جا کر اپنا کردار ادا کرنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ بادل نخواستہ اگر ایسا ہوا تو ملک میں انارکی پھیل جائے گی جس کا اندرونی و بیرونی قوتوں کو فائدہ ہو گا۔ کوئی تو ہو جو تحریک انصاف کی حکومت کو یہ باور کرا سکے کہ اب تصادم کی راہ ترک کر کے پارلیمنٹ کے تقدس کو مزید پامال نہ کرے اور تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں پر امن طور پر اقتدار منتقل کر کے سیاسی فہم و فراست کا مظاہرہ کر کے امن کا پرچم بلند کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

تبصرے بند ہیں.