عوامی لوگوں اورا فسروں کو اداروں کی باگ ڈور دیں

19

مشکل وقت میں عمران خان کے خاص بیوروکریٹ اعظم خان بھی اڑان بھر گئے۔سیاستدانوں ،ججوں اور جرنیلوں سے بھی بڑھ کر اگر اس ملک کو کسی نے لوٹا ہے تو وہ بیوروکریسی ہے۔ملک میں سیاسی حکومت ہو ،ایمرجنسی کا نفاذ ہو یا مارشل لا ہو  اصل حکومت ان ہی کی ہوتی ہے۔ان کی نہ کوئی سپیشلٹی ہوتی ہے نہ کوئی پروفیشنل تعلیم پھر بھی ہر سیاہ و سفید کے مالک بن کے بیٹھے ہوتے ہیں۔بیک وقت محکمہ تعلیم، محکمہ زراعت اور شعبہ صحت سمیت اہم امور پر خود کو سب سے زیادہ قابل اور فاضل سمجھتے ہیں۔
تعلیمی بورڈ میں  تیسرے یا چوتھے درجے کے طلباء کو جب ملک کی باگ ڈور ملتی ہے ان کی گردنوں میں تین تین فٹ کے سریے گھس جاتے ہیں۔
شہباز شریف کی حکومت میں عوامی نمائندوں کو پس پشت ڈال کر تمام ملک کی کمان ان کے ہاتھوں میں سونپ دی گئی۔ حتیٰ کہ محکمہ صحت کا کل مختیار کار نجم شاہ جیسا کرپٹ بن کر بیٹھ گیا۔ سلمان رفیق اور عمران نذیر جیسے زیرک سیاست دانوں کو  ہمیشہ سائیڈ لائن رکھا گیا۔
مارشل لاء سے زیادہ سختی اور ظلم اس دور میں ڈاکٹروں اور مریضوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔شہباز شریف جیسے لوگ جب نجم شاہ جیسے متکبر و مغرور اور بدمعاش بیوروکریٹس  کو فیصلہ سازی میں رکھ لیتے ہیں  تو یہ عوامی نمائندوں کی تضحیک  اور ان کے لیے شرم کا باعث بنتا ہے۔
انہیں جونکوں نے عمران خان کے گرد گھیرا بنائے رکھا اور اس کو عوامی نمائندوں اور عوام سے دور کردیا۔ پنجاب میں وزیر اعلیٰ ہاؤس میں طاہر خورشید کی موجودگی اور وفاق میں عمران خان کا چمچہ اعظم خان۔ ان دونوں لٹیروں نے  جس طرح عمران خان کو تنہا کیا شاید ہی اس کی کوئی مثال ملتی ہو۔ بیوروکریسی نے پنجاب اور وفاق میں  اپنے شیڈو گروپس بنا رکھے ہیں اور وزراء کے مقابلے میں اپنے افسران بھرتی کرتے ہیں۔ اور یوں پورے ملک میں انکی ایک الگ ریاست قائم ہے۔
جی او آر میں قائم انکی رہائشیں دیکھیں۔ آپ کو ایک الگ ملک نظر آئے گا۔ جی او آر میں 20  20 فٹ کی بلند دیواریں سے اس پوش علاقے کو غریبوں کے ملک سے الگ رکھا جاتا ہے اور اس کے داخلی اور خارجی راستوں پر بڑے بڑے گیٹوں کے باہر مسلح پولیس افسران انکو اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ان کی دنیا اور غریبوں کی دنیا میں ایک بہت بڑا فرق قائم ہے۔
ان کی ٹریننگ کا نظام آج بھی وہی ہے  جو گورے نے 1800 میں قائم کیا تھا جس میں انکو سماجی تفریق، معاشی استحصال اور غریبوں کے مسائل سے بے بہرہ رہنے کا ہنر سکھایا جاتا ہے۔انکو گھڑ سواری سکھائی جاتی ہے، پولو کھیلنا سکھایا جاتا ہے، بڑے بڑے کلبز میں لے جا کر تیراکی سکھائی جاتی ہے۔ تاکہ انکو نئی آسائشوں سی روشناس کر کے انکی آنکھوں میں پیسے کی چمک دمک ڈالی جائے۔ آپ کو گاؤں کے  گلی کوچوں میں  سیاستدان شادیوں پر حاضری دیتے نظر آئیں گے، فوتگیوں پر  بیٹھے دکھائی دیں گے۔ عوام سے جھوٹے سچے وعدے کرتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ حقیقی نہ سہی ظاہری اور جھوٹا احساس دلاتے پھریں گے۔کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ ان بابوں  نے اپنے کپڑوں پر مٹی بھی لگنے دی ہو۔ قیمتی لباس اور سوٹ بوٹ پہن کر یہ اس ملک کا حصہ بھی معلوم نہیں ہوتے۔ کبھی کسی سائل کے پاس زمین پر بیٹھ کر اس کی کی التجا سنی ہو۔ انکی نرم و نازک طبیعتیں دیکھیں لگتا ہے کسی اور سیارے کی پیداوار ہیں۔
پھر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے  بیرون ملک ٹریننگ پر بھیجے جاتے ہیں۔آج کل ان سے کوئی بھی ادارہ چلانے کا معاشی طریق کار پوچھیں تو ایک ہی بات کو گھما پھرا کے بتاتے دکھائی دیں گے۔آؤٹ سورسنگ، نجکاری ، پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ۔مسئلہ یہ ہے کہ نئے معاشی نظاموں میں ہر چیز کو آؤٹ سورس کرکے چلایا جا رہا ہے تو ٹیکنوکریٹس اور سپیشلائزڈ لوگوں کو چھوڑ کر ان شاہی افسران کو اربوں روپے کے بجٹ پر کیوں بٹھا دیا جاتا ہے۔بیوروکریسی کو کیوں آؤٹ سورس نہیں کیا جاتا۔مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد چند افراد کو بڑے بڑے دفاتر کا مالک اور وارث کیوں بنا دیا جاتا ہے۔ کیوں اٹھارہویں انیسویں اور بیسویں گریڈ پر ڈائریکٹ تعیناتیاں نہیں کی جاتیں۔۔کوئی بھی شعبہ دیکھ لیں۔محکمہ صحت ہو یا محکمہ تعلیم ہر جگہ ہر گریڈ پر ڈائریکٹ تعیناتی کی جاتی ہیں۔
انہوں نے اپنے نظام میں بیرونی لوگوں کا داخلہ  ہی بند کردیا ہے۔ ایک ہی شخص 6 ماہ محکمہ زراعت کا قابل افسر، 6 ماہ محکمہ صحت کا مفکر اور اگلے چھ ماہ محکمہ تعلیم کا ارسطو بن کے پھرتا ہے۔ملک بھر میں سیاسی جماعتوں سے عوام کا اعتماد ختم کرنے میں دیگر عناصر کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ یہی افسران شاہی ہے۔عمران خان کو چار سال تک عوام اور سیاسی نمائندوں سے دور رکھنے والے اعظم خان انتہائی پھرتی سے اپنی اگلی تعیناتی ورلڈ بنک میں کروا دے۔ سیاستدانوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ کیریئر اورینٹڈ ان لوگوں کا سیاستدانوں سے بس اتنا ہی تعلق ہوتا ہے۔سیاستدانوں کا اصل اثاثہ عوام ہوتا ہے۔جیسے بھی سیاستدان ہو  ہر گھڑی عوام میں نظر آئیں گے۔
عمران خان ہوں یا شہباز شریف ان سے اپیل ہے کہ عوامی لوگوں اور افسران کے ہاتھوں میں اداروں کی باگ ڈور دیں۔ ایسا انتظامی ڈھانچہ دیں جو عوامی ہو۔  پیپلز پارٹی کے بارے میں ایک عام رائے ہے کہ انہوں نے ان افسران کو قدرے اوقات میں رکھا ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ افسران سندھ کو جنت سمجھتے ہیں۔ اور پہلی فرصت میں بھاگ کر سندھ میں پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ سابقہ سیکرٹری صحت نجم شاہ پنجاب میں 2، 2 اداروں سے تنخواہیں بٹورنے کے بعد آجکل سندھ میں محفوظ مقام پر بیٹھ کر محکمہ خزانہ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔اگر سیاست دان اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو نظام کو ڈی سنٹرلائز کریں۔ اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کریں۔ وزرا کو مضبوط کریں۔ اداروں میں عوام اور اسٹیک ہولڈرز کے کردار میں اضافہ کریں۔ ان شاہی افسران کو ہر طرح کی فیصلہ سازی سے دور کرکے انکے اصل کام یعنی فائل ورک تک محدود کیا جائے۔
ہر شعبے کے لئے بیوروکریسی کو مخصوص کیا جائے۔ نیب و دیگر خودمختار اداروں کی طرح شعبوں کی سربراہان کی ڈاٹریکٹ تعیناتیاں کی جائیں اور اس عمل میں ہر سطح پر عوام اور ان کے نمائندوں کی رائے کو شامل کیا جائے۔

تبصرے بند ہیں.