رمضان المبارک اور فریضہ زکوٰۃ

109

رمضان کی آمد ہے اور ہر مسلم ذہن میں فریضہ زکوٰۃ کے حوالے سے سوال جنم لیتے ہیں کہ اس کی تاریخ کیا ہے، اس کی ادائیگی کب کرنی چاہئے اور کتنی کرنی ہے اور اس کے مصارف کیا ہیں۔ اس حوالے سے طالب علم نے جناب جاوید احمد غامدی کی کتاب میزان میں زکوٰۃ کے باب اور مختلف مواقع پر اس حوالے سے کی گئی غامدی صاحب اور ڈاکٹر شہزاد سلیم کی گفتگو سے استفادہ کیا اور چیدہ چیدہ نکات اخذ کرکے قارئین کے سامنے پیش کرنے کی سعی کی ہے۔
زکوٰۃ وہ اہم ترین عبادت ہے جس کے بارے میں قرآنِ پاک میں متعدد بار مسلمانوں کو یہ حُکم دیا گیا ہے کہ وہ اِسے عاجزی اور انکساری کے ساتھ ادا کریں۔ قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ ’’بربادی ہے ان مشرکوں کے لیے،یہ جوزکوٰۃ نہیں دیتے  اور یہی ہیںجو آخرت کے منکر ہیںــ‘‘  (۴۱:۶۔۷)۔ زکوٰۃ کا حکم بھی اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ نماز کا۔ جب مسلمانوں کو زکوٰۃ کا حکم دیا گیا دینِ ابراہیمی کے تمام ماننے والے قرآن میں بتائے گئے اس ’’حق معلوم‘‘ متعین حق سے واقف تھے جسے اللہ کے آخری رسولؐ نے خدا کے حکم سے ضروری اصلاحات کے بعد مسلمانوں میں جاری فرمایا۔قرآنِ مبین ہی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اپنے گھر والوں کو جس طرح نماز کی تاکید کرتے تھے اُسی طرح زکوٰۃ ادا کرنے کی بھی تلقین فرماتے تھے (۱۹:۵۵)۔بنی اسرائیل کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن سے نماز اور زکوٰۃ دونوں کی پابندی کا عہد لیا ۔ (۲:۸۳)۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایا ہے کہ اللہ نے مجھے زندگی بھر کے لیے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے(۱۹:۳۱)۔زکوٰۃ کا حکم نہ صرف قرآن حکیم میں موجود ہے بلکہ بائبل میں بھی اسی طرح سے موجود ہے۔ زکوٰۃ سے مرا دپاکیزگی اور طہارت حاصل کرنے کے لئے دیا ہوامال ہے۔زکوٰۃ کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ یہ نفس میںمال کی محبت سے پیدا ہونیوالی آلائشوں کو دور کرنے، مال میں برکت پیدا کرنے کا سبب ہے۔ زکوٰۃ انفاق فی سبیل للہ کا وہ کم سے کم مطالبہ ہے جو ہر مسلمان کو ہر حال میںپورا کرنا ہے۔
رمضان جو کہ نیکیوں کا مہینہ ہے اس لئے ہمارے یہاں اس مہینے کی برکات سے فیض یاب ہونے کے لیے زکوٰۃ کی ادائیگی کو ماہ رمضان سے منسلک کردیا گیا ہے۔ حالانکہ اللہ اور اس کے پیغمبروں نے زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کوئی متعین مہینہ مقرر نہیں کیا ہے۔ یہ تصور بھی درست نہیں کہ زکوٰۃ صرف اسی مال پر دی جائے گی جس پر ایک سال کا عرصہ بیت گیا ہو، بلکہ اصل میں یہ کہا گیا ہے کہ سال میں ایک بار زکوٰۃ دی جائے گی ۔ ہاں یہ خیال ضروری ہے کہ ہر سال کی تاریخ جو کہ قمری اور عیسوی مہینے کی کوئی بھی ہوسکتی ہے، ایک ہی ہونی چاہئے، ایسا نہیں کہ کبھی نومبر میں دے دی یا پھر شعبان میں دے دی۔
زکوٰۃ کے جو مصارف ہمیں قرآن حکیم کی سورہ توبہ کی آیت نمبر 60 میں بتائے گئے ہیں اس کے مطابق زکوٰۃ فقراء مساکین کے لیے، ریاست کے ملازمین کے لیے، اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں تمام سیاسی اخراجات کے لیے، ہر قسم کی غلامی سے نجات کے لئے، کسی نقصان، تاوان یا قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے لوگوں کی مدد کے لئے، دین کی خدمت اور بہبود کے کاموںکے لئے، مسافروں کی مدد اور اُن کے لئے پلوں، سرائوں وغیرہ کے لیے ہے۔  ہمارے معاشرے میں عام طور پر زکوٰۃ لینے والے کو معیوب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔جب کہ حقیقت بالکل مختلف ہے۔ عہد رسالت مآب ﷺ اور خلفائے راشدین کے ادوار میںریاست کا نظم و نسق زکوٰۃ ہی سے چلایا جاتا تھا۔ اس لیے زکوٰۃ دیتے وقت دینے والے کو یہ بتانا ضروری نہیں کہ اسے جو رقم یا اشیاء دی جارہی ہیں وہ زکوٰۃ کی مد میں ہیں۔ زکوٰۃ کی رقم کو تمام خلقِ خدا کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جاسکتا ہے۔ ایک تصور یہ ہے کہ مقروض پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی ۔ اگر قرض کاروباری مقاصد کے لیے لیا گیا ہے تو اس قرض کے باوجود زکوٰۃ واجب ہوگی۔ اگر قرض ذاتی ضرورت کے لیے لیا گیا ہے تو اگر مقروض دینے کی پوزیشن میں ہے تو زکوٰۃ واجب ہوگی اور اگر قرض کی ادائیگی کی حیثیت نہیں تو وہ خود زکوٰۃ کا مستحق ہے۔زکوٰۃ کی رقم کا تخمینہ لگانے کے بعد اس میں وہ رقم بھی شامل ہوسکتی ہے جو گزشتہ عرصے میں شریعت میں بتائے گئے زکوٰۃ کے مصارف کی مد میں ادا کی گئی ہو یا پھر آئندہ کسی موقع پر ان مصارف کی مد میں خرچ کرنی مقصود ہو۔ زکوٰۃ کا جو قانون ہمارے سامنے آج موجود ہے وہ اُمتِ کے اجماع اور تواتر عملی سے ہم تک پہنچا ہے۔ اس ضمن میں اگر مختلف فقہاکی تعبیرات سے قطع نظر کرکے اصلاً شریعت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پیداوار، تجارت، اور کاروبار کے ذرائع، ذاتی استعمال کی چیزوں اور حدِ نصاب سے کم سرمائے کے سوا کوئی چیز بھی زکوٰۃ سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہ ہر مال، ہر قسم کے مواشی، اورہرنوعیت کی پیداوار پر عائد ہوگی اور ہر سال ریاست کے ہر مسلمان شہری سے  مال میں اڑھائی فیصد سالانہ، پیداوار اگر وہ اصلاََ محنت یا سرمائے سے وجود میں آئی ہے تو 10 فیصد، اور اگر محنت اور سرمائے دونوں کے تعامل سے وجود میںآئی ہے تو 5 فیصد اور اگر دونوں کے بغیر عطیہ خداوندی کے طور پر حاصل ہوجائے تو 20 فیصد، کی شرح سے وصول کی جائے گی۔ ہمارے یہاں عام خیال یہ سمجھا  جاتا ہے کہ صرف زراعت ہی وہ شعبہ ہے جس پر زکوٰۃ کے ضمن میں پیداوار کا کلیہ استعمال ہوتا ہے جسے عشر کہا جاتا ہے۔جس کے تحت بارانی زمین کی پیداوار پر دس فیصد کی شرح اور غیر بارانی زمین کی پیداوار پر پانچ فیصد کی شرح سے زکوٰۃ کا اطلاق ہوتا ہے۔یہاں ڈاکٹر شہزاد سلیم سوال اُٹھاتے ہیں کہ وقت کے بدلتے تقاضوں اورآنے والی جدت کے ساتھ پیداوار کے نئے ذرائع کو بھی پیداوار کے زمرے میں آنا چاہیے، جیسے کسی فیکٹری کی پیداوار۔ صنعتی پیداوار پر بھی مال کی شرح کے بجائے زرعی پیدوار پر لاگو ہونے والی شرح کا اطلاق کیا جانا چاہئے۔کیونکہ ہر فیکٹری میں محنت اور سرمائے کے اشتراک سے پیداوار وجودمیں آتی ہیںاس لیے اس پر پانچ فیصد شرح کا اطلاق کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح کرائے کے مکان، جائیدادیں اور دوسری اشیا اگر کرائے پر اُٹھی ہوں مزروعات(وہ زمین جس پر زراعت کی جاتی ہو) کی اور اگر نہ اُٹھی ہوں تومال کی زکوٰۃ عائد کرنی چاہئے۔ اقول قولی ھذا استغفراللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات۔

تبصرے بند ہیں.