2008 میں جب پنجاب میں ن لیگ کی اکثریت کے ہوتے ہوئے کل کے پرائے اور آج کے اپنے آصف علی زرداری نے شہباز شریف کے سرپر سلمان تاثیر کو بٹھا دیا تو اسی وقت ہی ’’ست اکونجا‘‘ شروع ہو گئی تھی جس کا نتیجہ 2009 میں پنجاب میں گورنر راج کی صورت میں نکلا پھر حالات خراب ہونے سے قبل ہی عدالت سے ریلیف مل گیا اور شہباز شریف ایک بار پھر صوبے کو چلانے میں مصروف ہو گئے لیکن سلمان تاثیرکے موت کے منہ میں جانے تک پنجاب میں اٹ کھڑکا جاری رہا آج صورتحال کچھ مختلف نہیں پورے ملک میں لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال سے ہر محب وطن پریشان ہے اپوزیشن نے جب سے تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ہے حکومت کا سانس پھولا ہوا ہے شیخ رشید نے یہ کہہ کر کہ سندھ میں گورنر راج لگا دیا جائے جلتی پر تیل کا کام کیا کیونکہ شیخ رشید ہر حکومت میں مزے بھی لیتے ہیں اوراسی حکومت کو پھرتہہ تیغ کرنے میں بھی حصہ ڈالتے ہیں جب تک وہ انجام کو نہ پہنچ جائے، شیخ رشید احمد نے یہ بھی منطق دی تھی کہ 25فروری 2009ء کو اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی سفارش پر آئین کے آرٹیکل 237 کے تحت صدر آصف علی زرداری نے شہباز شریف کی حکومت کے خلاف 2 مہینے کیلئے گورنر راج نافذ کیا،صوبہ سندھ میں آج تک تین گورنر راج لگ چکے ہیں، شیخ رشید یہ بھی کہا ہے کہ اپوزیشن تصادم کی طرف نہ جائے ورنہ جھاڑو پھر جائے گا،انہیں کوئی پوچھے کہ پارلیمنٹ لاجز اور سندھ ہائوس پر حملہ کیا اپوزیشن نے کیا ہے؟عدم اعتماد تحریک آنے کے بعد وزراء منہ سے آگ برسا رہے ہیں شہباز گل نے گزشتہ روز جو زبان رامیش کمار کیخلاف استعمال کی وہ کسی بھی مہذب ملک میں نہیں استعمال کی جاتی ؟ گزشتہ کئی دنوں سے یہ کہا جارہا تھا کہ اسلام آباد میں سندھ ہاؤس ہارس ٹریڈنگ کا مرکز بنا ہوا ہے ،اس کے بعد پیپلز پارٹی نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی یہ پلان کررہی ہے کہ سندھ ہاؤس پر حملہ کرے یا کوئی ایکشن ہویہاں پر ہمارے جو ارکان ہیں ان کو خطرہ ہے لیکن یہ واضح طو رپر بولا نہیں جارہا تھاکہ کیا پی ٹی آئی کے کچھ منحرف اراکین وہاں پر موجود ہیں، پہلا
سوال تو عدم اعتماد کاہے، پی ٹی آئی کے منحرف ایم این ایز سامنے آگئے ان کو نوٹس بھی جاری کر دئیے گئے ہیں، دوسری طرف اگر عمران خان کو اب اکثریت حاصل نہیں رہی تو انہیں گھر چلے جانا چاہئے؟ ،وزیراعظم عمران خان اگر عدم اعتماد سے جاتے ہیں تو پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہوں گے کیونکہ آج تک کسی بھی وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو ئی سوائے سپیکر فخر امام کے ، جب اپنی ہی پارٹی کے لوگ اپنے ہی وزیر اعظم کیخلاف عدم اعتماد کردیں تو پھروزیر اعظم کو اقتدارچھوڑدینا چاہیے، عمران خان کو پہلی فرصت میں یہ کرنا چاہئے کہ ساڑھے تین سال جو آ پ نے سیاست نہیں کی ہے شاید اب بھی نہ کریں کیونکہ جس طرح کی سیاست کررہے ہیں وہ ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے، حکومت کا یہ کہنا کہ دس لاکھ کا مجمع اکٹھا کردیں گے اور پھر دیکھتے ہیں کون مائی کا لعل وہاں سے گزر کر جاتا ہے کس کی اتنی ہمت ہوتی ہے تو کیا یہ محاذ آرائی کی طرف پہلا قدم نہیں،دھمکیاں دینا تڑیاں لگانا بیک فائر نہیں تو اورکیا ہے؟ پہلے بھی آؤٹ سورس کیا ہوا تھا اب بھی کسی کو ڈھونڈیں اور معاملات کو سدھار لیں ورنہ وزیر اعظم اقتدار سے بھی جائیں گے اور پارٹی سے بھی ؟آج اپنے ہی ارکان کو بکائو مال کہا جا رہا ہیسرکار کو پتہ ہونا چاہیے کہ دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے لوگ ہیں انہوں نے وفادار نہیں رہنا ہے، اس وقت پی ٹی آئی میں ایک سوچ ہے کہ اگر ہم کو اس طرح نکالا گیا تو شاید ہمارے لئے سب کچھ ختم ہی ہوجائے گا، ہمیں ایک لائف لائن ملے گی ہم سیاسی شہید بنیں گے جو بھی حکومت قائم ہوگی وہ اتنے مشکل حالات میں قائم ہوگی کہ اس کے لئے چلنا بہت مشکل ہوجائے گا،ن لیگ کے دو تین سینئررہنما تو ایسے حالات میں حکومت لینا بھی نہیں چاہتے کیونکہ اگر دو تین مہینے معیشت چلانے کو ملے اور بجٹ پیش کرنے کو ملے تو خدشہ ہے کہ حالات اتنے برے ہوجائیں گے کہ ہم پی ٹی آئی کے برابر آکر کھڑے ہوجائیں گے، لیکن ان کو کرنا پڑے گی کیونکہ عدم اعتماد میں اتنے آگے چلے گئے ہیں کہ جہاں سے واپسی مشکل ہے، شیخ رشید نے گورنر راج کی جو تجویز دی تھی اس سے حالات مزید افراتفری کی طرف جانے والے تھے جس پر یوٹرن لے لیا گیا لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد شائدگورنر راج لگانا اتنا آسان نہیں ہو گا، عمران خان کے پاس دو آپشن ہیں ایک عدم اعتماد کا انتظار کریں دوسرا اعتماد کا ووٹ لیں، ماضی اور حال کی سیاست کا یہ حال ہے کہ بینظیر ڈوب رہی ہو تو نواز شریف کے ساتھ مل جاتی ہے اور نواز شریف ڈوب رہے ہوں تو زرداری کے ساتھ مل جاتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو سیاست کے نام پر بدنما داغ ہیں، بڑے بول بولنے کے بجائے وزیراعظم کو تحریک عدم اعتماد کا انتظار کرنا چاہئے۔ یہ کون سا آئین یا قانون ہے کہ ووٹ ڈالے بغیر وزیراعظم فارغ اس کے بعد ان کے خلاف ایکشن یہ پہلے کرو؟ آج پی ٹی آئی کا ہر رکن حکومت کے خلاف کھل کربول رہا ہے، حکومت کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ اور پارٹی کے اندر کے لوگوں کے ساتھ جو رویہ تھا اس کی وجہ سے لوگ ناخوش تھے، بے ساکھیوں کے ساتھ جس طرح حکومت کو چلایا گیا، حکومت سمجھتی تھی کہ ان کے ساتھ کچھ ایسا نہیں ہوگا جو آج ہو رہا ہے اگر حکومت تصادم کی طرف جاتی ہے تو یہ بہت بدقسمتی ہوگی،ملک میں منڈی لگائی گئی ہے کیا وزیراعظم اخلاقیات پر کھڑے ہیں،اگر وزیراعظم اخلاقیات پر کھڑے ہوتے تو2018ء جو لوگ بلوچستان اور پنجاب سے فیض یاب ہوکر آئے کی یہ اخلاقیات ہے ، ایسی حکومت بنانے سے بہتر تھا کہ وزیراعظم حکومت نہ بناتے لیکن حکومت بنوائی گئی کیوں بنوائی گئی یہ سب کو پتہ ہے ،یہی سب جو آج ہو رہا ہے یہی سب 2018 میں بھی ہوا تھااور وزیراعظم کو یہ پتہ ہے،اس سے بہتر ہے کہ آپ ٹوٹی پھوٹی حکومت چلائیں آپ استعفیٰ دیں ان سارے لوگوں کو بے نقاب کریں ان اتحادیوں کے بارے میں بتائیں جو آپ کو آج بلیک میل کررہے ہیں ،جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم ضمیر کے مطابق ووٹ دے رہے ہیں وہ بے ضمیری کررہے ہیں لیکن پی ٹی آئی اپنے اندر دیکھے،اس ٹرینڈ کو ہمیں سپورٹ نہیں کرنا چاہئے یہ ٹرینڈ پاکستان کی سیاست کو تباہ کررہا ہے اس ٹرینڈ نے1985ء سے پاکستان کی سیاست کو تباہ کیا ہے ،عدم اعتمادکی ضرورت کیوں تھی جس کی وجہ سے پاکستان کی سیاست بدنام ہورہی ہے اس لئے کہ کوئی بڑا فیصلہ ہونا تھااس فیصلے میں آپ استعمال ہورہے ہیں آپ2023ء کے الیکشن میں کیوں نہیں جارہے اس لئے شیخ رشید جیسے مفاد پرستوں سے بچنا ہو گا ورنہ نہ رہے گا بانس نہ رہے گی بانسری؟؟؟
Next Post
تبصرے بند ہیں.