23مارچ منائیے ضرور! مقصد بھی ذہن میں رکھیں!

47

تحریک پاکستان کے رہنما مولانا محمد علی جوہر جیسے سچے لوگ دنیا میں کم ہی پیدا ہوتے ہیں، 1930ء میں وہ بیماری کی حالت میں لندن گئے جہاں انہوں نے ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کرنا تھی، وہاں وہ برطانیہ کے وزیراعظم جیمز رمزے میکڈونلڈ کو مخاطب ہوئے اور کہا ’’بیماری کے باوجود میرے یہاں آنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ میں اپنے ملک کے لیے آزادی کا پروانہ لے کر واپس جاؤں گا۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایک غلام ملک میں جانے کے بجائے ایک آزاد ملک میں مرنا پسند کروں گا‘‘۔ مولانا محمد علی جوہر نے اپنی گرجدار آواز میں خوبصورت انگریزی بولتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی دھمکی نہیں بلکہ ایک تنبیہ ہے۔ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں ان کی آئینی حکومت قائم نہ کی تو ہندوستان میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے۔ ابھی لندن میں ان کی شاندار تقریر کی گونج باقی تھی کہ چند روز علیل رہنے کے بعد چار جنوری 1931 کو وہ دیارِ غیر (لندن) میں انتقال کر گئے۔ ان کی خواہش کے مطابق انہیں ’’غلام ملک‘‘ میں واپس نہ لایا گیا۔ ان کے جسد خاکی کو فلسطین لے جایا گیا جہاں مفتی امین الحسینی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس مرد ِ درویش کو بیت المقدس میں دفن کیا گیا۔
ان کی اس کاوش، تڑپ، جذبے اور بے باک بہادری نے ’’نئے ملک‘‘ کی بنیاد ضرور رکھی۔ مگر معذرت کے ساتھ شکر ہے کہ وہ اس ’’غلام ملک‘‘ میں دفن نہیں ہوئے، ورنہ آج بھی ملک کی موجودہ صورتحال میں ان کی روح بے تاب ہوتی۔ کیوں کہ پہلے والی اور آج والی غلامی میں فرق یہ ہے کہ اس وقت ہم غیروں کے غلام تھے اور آج ہم اپنوں کے غلام ہیں۔ اور یقیناً جو ہستیاں یہاں دفن ہیں ان کی روحیں بھی آج وطن عزیز کے حالات دیکھ کر تڑپ رہی ہوں گی… تڑپیں بھی کیوں ناں، نہ ہم ڈھنگ سے سیاست کرتے ہیں، نہ عوام کی خدمت۔ نہ ہمیں سیاست کے اصولوں سے آگہی ہے نہ ہمیں اقتدار کے مرتبے کا علم ہے۔ نہ ہم میں وہ جذبہ خدمت ہے جس کے لیے پاکستان بنا اور نہ ہی ہم میں وہ برداشت اور صبر ہے جو ہمیں ایک آزاد شہری بننے کی طرف راغب کرتا ہے۔ مطلب نہ تو ہم انفرادی طور پر ٹھیک ہیں اور نہ بطور قوم۔ انفرادی طور پر بھی ہم میں چوری، ہیراپھیری، بے ایمانی، وعدہ خلافی سب کچھ کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے، جبکہ اجتماعی طور پر بھی ہم دنیا کی کرپٹ ترین قوموں میں شمار ہوتے ہیں۔ اور پھر جب حالات ایسے ہوں تو پھر اکیلا وزیر اعظم عمران خان کیا کرے؟ اُسے ایک ایسا ملک وراثت میں ملا جہاں ہسپتالوں، سکولوں، سرکاری دفتروں اور چہار سو حالات بدتر تھے، ہر طرف چور بازاری اور رشوت کا بازار گرم تھا… گلی محلوں اور چوراہوں میں پلتے بڑھتے عوام کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی… جہاں مریض ہسپتالوں کے فرش پر دم توڑ رہے تھے، جبکہ حکمران اپنے بچوں، نوکروں، کتوں کے علاج کے لیے سرکاری خرچ پر بیرون ملک جاتے تھے، جہاں بڑے بڑے مجرموں کو درجنوں گاڑیوں کا پروٹوکول دیا جاتا، جہاں تمام ادارے ایسے لوگوں کے سامنے بے بس نظر آتے جو اجرتی قاتل، جعلی پولیس مقابلوں کے ماہر اور مفرور ملزمان جیسی شناخت رکھتے تھے۔ بقول شاعر
اُداسی مشتہر ہونے لگی ہے
بھرے گھر میں تماشا ہو گیا ہوں
الغرض میں اس بات سے بھی متفق ہوں کہ جمہوری ملک اپنے قومی دن بڑی شان سے منایا کرتے ہیں، بالکل ٹھیک! مگر اس ملک میں اضطراب اور بے یقینی کی بادل کب چھٹیں گے؟ ملک آگے کب بڑھے گا؟ بحرانوں، طوفانوں، انقلابوں، گردابوں اور عذابوں میں عام آدمی کی امید کا سورج کب ’’طلوع‘‘ ہو گا؟ بہاروں کی تمنا میں ہم کب تک خزاں کے سرابوں میں بھٹکتے رہیں گے؟ چاند ستاروں کی آرزو لیکر چلنے والوں کا مقدر آخر کب تک ’’اجالاکُش‘‘ تاریکیاں اور ’’سورج خور‘‘ اندھیرے بنیں گے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو آج ہر اس محب وطن پاکستانی کے دلوں کا چین اور راتوںکا سکون لوٹ رہے ہیں۔
بہرکیف وقت کا تقاضا ہے اور 23مارچ کا دن بھی ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ ہماری بدقسمتی رہی کہ ہمیں آزادی تو مل گئی مگر ہم اسے برقرار رکھنا اور بڑھانا تو دور کی بات، ہم اپنا وطن پیچھے کی طرف لے گئے، ہمارے رہنماؤں نے ہمیں ایک تحفہ دیا اور جس میں ہر میدان کے ماہر، ہنرمند، ڈاکٹر، انجنیئر اور سائنس دان موجود ہیں، یہ سب ٹاٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کر کے بنے اور دنیا بھر کے ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر ہم نے ان سے فائدہ اٹھانے کے بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی۔ ان کو باہر بھگا دیا۔ ہم قائداعظم کے وژن سے ہٹ گئے، ترقی کے جتنے مواقع پاکستان میں ہیں دنیا میں شائد ہی کہیں ہوں۔ صرف ایک ٹریکٹر بنانے کی بدولت ہم نے بڑی ترقی کی اور ہزارہا لوگ اس سے وابستہ ہوئے لیکن آج تک ہماری حکومتوں نے جاپان، جرمنی اور دیگر ملکوں سے کمیشن کی خاطر 800 سی سی اور 1300سی سی گاڑیاں مقامی طور پر بنانے کے لائسنس نہیں دیئے۔ ہمیں جس چیز کی ضرورت نہیں وہ ہم باہر سے منگوا رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ وہاں سے آئی ہوئی چیزوں سے کمیشن حاصل ہوتا ہے جبکہ مقامی انڈسٹری اتنا کمیشن نہیں دے سکتی۔
حقیقت میں جب تک ہم ایک مضبوط سسٹم کی بنیاد نہیں رکھیں گے تب تک ہمیں یہ دن دھوم دھام کے ساتھ منانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ یہاں جمہوریت کے نام پر بھی خاندانی اجارہ داری ہے۔ سیاست باپ، بیٹا، بیٹی اور بہو میں رہی، کوئی سیاسی ورکر آگے نہ آ سکا، اسی لیے یہاں کرپشن کی انتہا ہے، یہاں سیاست نہیں بادشاہت ہے۔ یہ ملک عوام کیلئے بنا تھا مگر اشرافیہ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ ہمارے پاس دنیا بھر میں سب سے زیادہ وسائل موجود ہیں۔ دیگر وسائل کو چھوڑ دیں، صرف نوجوان ہی 70فیصد ہیں جن کو استعمال کیا جائے تو انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو کرپشن نہ کرتا ہو، صرف وہی لیڈر نصاب تعلیم ایک جیسا کر کے عوام کو ترقی دے سکتا ہے اور حقیقت میں یہی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ اس ماحول کو خان صاحب جادو کی چھڑی کے ذریعے ٹھیک کر دیں تو میرے خیال میں یہ زیادتی ہو گی۔ اس لیے کل جب 23مارچ یعنی یوم پاکستان کے حوالے سے پاکستان بھر میں اس دن کو منایا جا رہا ہو گا تو اس دن کے حقیقی مقصد کو بھی ذہن میں ضرور رکھیں کہ یہ وطن کیوں حاصل کیا گیا تھا؟

تبصرے بند ہیں.