مغربی فلسفہ اور عقل سلیم

89

’’سر پچھلے پانچ سو سال میں مغربی مفکرین اور فلسفیوں نے مذہب، سائنس اور کائنات کی تفہیم پر جو کام کیا ہے اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دنیا کے ذہین ترین دماغ تھے، یہ اپنے وقت کے انٹلکچوئل تھے اور یہ ساری دانش اجتماعی طور پر غلط نہیں ہو سکتی۔ کیا فرانسس بیکن، گلیلیو گلیلی، رابرٹ فلمر، رینے ڈیکارٹ، تھامس ہوبس، ہنری مور، رابرٹ بوائل، کانٹ، اسپنوزا، جان لاک، نیوٹن، برکلے، جوزف بٹلر، ہیوم، روسو، آدم اسمتھ، تھامس جیفرسن، ہیگل، جیمزمل، جان سٹیوارٹ مل، کارل مارکس، اینجلز، اسپنسر، ولیم جیمز، نطشے، درخیم، ویبر، روسو، وولٹیئر، ہائیڈگر، سارتر اور آئن سٹائن جیسے جینئس اور ذہین دماغوں کا فلسفہ، افکار اور نظریات غلط ہو سکتے ہیں؟ یہ لوگ پچھلے پانچ سو سال کی تمام انسانی سرگرمیوں، کائنات کی فکری و نظریاتی تشکیل اور تمام سیاسی، سماجی اور معاشی نظاموں کے موجد ہیں اور اس وقت دنیا جیسی کہ یہ ہے انہی افراد کے افکار و نظریات کے دم سے ہے اس لیے میرے لیے یہ تسلیم کرنا ممکن نہیں کہ دنیا کی یہ ساری ذہانت اور دانش غلط سمت پر کھڑی تھی اور سچ صرف ہمارے پاس ہے۔‘‘ یہ بیس بائیس سالہ نوجوان تھا اور پچھلے دو سال سے سوالات کے جنگل میں حیران و سرگرداں تھا۔ اس کے پاس مذہب، سائنس اور فلسفے کے متعلق لامتناہی سوالات تھے اور وہ کسی جواب سے مطمئن دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اسے میرے انسانی عقل و شعور اور مذہب و سائنس کے متعلق لکھے کالم پر اعتراضات تھے اور اس نے یہ اعتراضات لکھ کر مجھے میل کر دیے تھے۔ میں نے اپنے فہم کے مطابق جوابات لکھ دیے اور یوں ہمارے بیچ بحث اور مکالمہ شروع ہو گیا۔ ہم ای میل سے فیس بک پر آئے اور وہاں سے واٹس ایپ پر منتقل ہو گئے، میں واٹس ایپ پر ہمیشہ ایزی فیل کرتا ہوں، جو بات ای میل، فیس بیک یا دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لکھ کر گھنٹوں میں
ہوتی ہے وہی بات آپ واٹس ایپ وائس میسج پر چند منٹ میں کر لیتے ہیں، اس لیے جہاں گفتگو ضروری اور طویل ہو میں اسے واٹس ایپ پر منتقل کر دیتا ہوں۔ نوجوان سوالات کا انبار لیے میرے سامنے بیٹھا تھا، اس کے سوالات سے اس کی سنجیدگی اور اضطراب کا اندازہ ہو رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ ان تمام مفکرین اور فلسفیوں میں سے کسی نے حقیقت تک رسائی کا حتمی دعویٰ کیا ہو اور یہ کہا ہو کہ میں نے الٹی میٹ ٹروتھ کو پا لیا ہے‘‘ نہیں سر۔ ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ عقل، فلسفہ اور تھنکنگ پروسس کیا
ہوتا ہے۔‘‘ اس کا جواب ایک بار پھر نفی میں تھا۔ میں نے عرض کیا: ’’پہلے ہم عقل کو سمجھتے ہیں، عقل کا اپنا وجود اہم نہیں ہوتا بلکہ اس کا انحصار تشکیلی عناصر پر ہوتا ہے، فلسفہ انسان کو بیچ منجدھار کھڑا کر کے تماشا دیکھتا ہے اور تھنکنگ پروسس درست نا ہو تو انسان کی گمراہی کا نکتہ آغاز ہوتا ہے‘‘ حیرت و استعجاب کی طویل لہریں اس کے سارے چہرے پر پھیل گئیں، میں نے سلسلہ کلام کو جوڑنے کی کوشش کی: ’’آپ نے جن مفکرین اور فلسفیوں کو پچھلے پانچ سو سال کی اجتماعی دانش قرار دیا ہے ان کے تمام افکار و نظریات کا دار و مدار عقل پر تھا اور عقل بیچاری خود لولی لنگڑی ہے یہ منزل تک کیسے پہنچا سکتی ہے، عقل کی اوقات تو یہ ہے کہ انسانی تاریخ کی تمام بہترین عقلوں کو جمع کر کے کسی ایک دماغ میں ڈال دیا جائے تب بھی یہ حقیقت کو پانے یا حتمی سچائی کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ عقل کوئی الوہی چیز نہیں بلکہ یہ ہمارے حالات، واقعات اور ماحول سے ہی تشکیل پاتی ہے، ہمارا ماحول، درسگاہ، مذہب، مطالعہ اور زندگی کے تجربات اس کی تشکیل کرتے ہیں، انہی تشکیلی عناصر کی بنیاد پر یہ ہر انسان کے اندر مختلف ہوتی ہے۔ ہم جس طرح کی غذا کھاتے ہیں ہمارا جسم اسی انداز میں نشو و نما پاتا ہے بعینہ ہم اپنی عقل کو جس طرح کی غذا کھلاتے ہیں یہ بھی اسی انداز میں پروان چڑھتی ہے۔ ہم بچپن سے ہی عقل کو غذا فراہم کرنا شروع کر دیتے ہیں، ہم جس ماحول میں رہتے، جو دیکھتے سنتے اور پڑھتے ہیں یہ سب ہماری عقل کا حصہ بننا شروع ہو جاتا ہے اور اسی غذا کی مناسبت سے ہماری عقلیں جوان ہوتی ہیں۔ بعض اوقات ماحول، مطالعہ اور دیکھنے سننے کی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو عقل کو معطل کر دیتی یا اس کی تشکیل میں کجی پیدا کر دیتی ہیں، اس طرح جو عقلیں تشکیل پاتی ہیں ان میں سے بعض سرکش، آوارہ، لذت پسند، خواہشات کی غلام، تقلید پسند اور بعض آزاد ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ ایسی عقلیں اپنے ذاتی مفادات اور جسمانی ضروریات کی حد تک قابل اعتبار ہوں مگر انسانیت کے اجتماعی مفاد اور روحانی ضروریات کے لیے یہ نامکمل اور ادھوری ہوتی ہیں، اس لیے ماہرین نفسیات انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کی بہتر تشکیل کے لیے عقل سلیم کی شرط لگاتے ہیں۔‘‘ میں سانس لینے کے لیے رکا، اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لیا اور گویا ہوا: ’’ایک تو عقل بذات خود لولی لنگڑی ہے اور اگر اس کے تشکیلی عناصر بھی نامکمل اور ادھورے ہوں تو اس کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ آپ نے جن مغربی مفکرین اور فلسفیوں کو پچھلے پانچ سو سال کا جینئس قرار دیا ہے اور ان کے افکار و نظریات سے ضرورت سے زیادہ تاثر لیے بیٹھے ہیں ان کی عقلیں ایک خاص تناظر میں پروان چڑھی ہیں، یہ سرکش، آزاد، آوارہ، لذت پسند، غلام اور خواہشات کی غلام عقلیں تھیں اور ایسی عقلیں انسانیت کے لیے عموماً اور بحیثیت مسلم ہمارے لیے خصوصاً قابل اعتبار نہیں۔ اگر عقل کو ہی معیار بنانا ہوتا اور عقل ہی تمام انسانی مسائل کا حل ہوتی تو سقراط، افلاطون اور ارسطو اپنے دور کے پیغمبر ہوتے، اس لیے ہر عقل ہمارے لیے قابل قبول نہیں اور نہ ہی ہر عقل کو معیار بنایا جا سکتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالی نے کہا ہے کہ قیامت کے دن نہ مال کام آئے گا نہ اولاد مگر وہ جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے، صاحب لسان العرب نے لکھا ہے کہ عربی زبان میں قلب کا لفظ عقل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سلیم کے معنی ہیں آلودگی سے پاک، اِس اعتبار سے اِس آیت میں قلبِ سلیم کا مطلب ہو گا خالص اور بے آمیز عقل، یعنی ایسی عقل جو سرکش، آوارہ، آزاد اور خواہشات کی غلام نہ ہو۔ آخرت میں کامیابی کے ساتھ دنیا میں بھی انہی لوگوں کو سچائی اور حق کی معرفت حاصل ہو گی جو عقل سلیم کے حامل ہوں گے اور عقل سلیم غیر فطری افکار، غیر فطری ماحول اور غیر فطری افکار کی غذا سے اجتناب سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ فکری جدو جہد سے حاصل ہوتی ہے اور جس کو حاصل ہو جائے وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ افکار و معلومات کے جنگل سے سچائی کو دریافت کر سکے اور اپنے خالق کا اعتراف اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ یہ وہ عقل ہے جو انسانیت کے لیے معیار اور سچائی کی طرف لے جانے والی ہے، ورنہ آپ نے جن مغربی مفکرین اور ان کے افکار و نظریات کو عقل و دانش کا معیار ٹھہرایا ہے وہ ذہنی آوارگی، سرکشی اور خواہشات کی غلامی تو ہو سکتی ہے عقل سلیم ہرگز نہیں۔ میں اس کی صرف ایک مثال دیتا ہوں، مغربی فلسفے میں نطشے کا مقام بہت اونچا ہے مگر اس کی حالت یہ تھی کہ اس کا سارا فلسفہ طاقت کے گرد گھومتا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جسمانی طور پر بہت کمزور تھا اور یہ کمزوری اس کی نفسیات پر اس قدر اثر انداز ہوئی کہ وہ ساری زندگی طاقت کے گیت اور کمزوری کی مذمت کرتا رہا، گویا اتنا بڑا فلسفی ساری زندگی محض نفسیاتی تسکین کے حصول میں مگن رہا۔ اسی طرح کسی فلسفی کو مذہب سے خار ہوئی تو وہ ساری زندگی مذہب کی نفی اور انسانی آزادی کو ثابت کرنے میں مگن رہا، آپ تھوڑا غور کریں تو ہر مفکر اور فلسفی کے پیچھے آپ کو کوئی ’’عارضہ‘‘ ضرور دکھائی دے گا اور یہ ان مغربی مفکرین اور فلسفے کی معراج تھی۔‘‘ میں خاموش ہوا تو نوجوان کے چہرے پر اطمینان کے سائے بڑھ رہے تھے۔

تبصرے بند ہیں.