سورج کے ساتھ ہی سیاسی پارہ بھی ہائی

7

اس وقت پاکستان میں سیاسی گرما گرمی عروج پر ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ ہم عمران خان کی حکومت گرانے کی مکمل تیاری میں ہیں اور تحریک عدم اعتماد کے لیے لوگ بھی مکمل ہیں تو کوئی بھی طاقت اب ہمیں روک نہیں سکتی اور لانگ مارچ کی ہم تیاریاں بھی مکمل کر چکے ہیں۔ اب اسلام آباد میں پڑاؤ کے لیے حکومت تیار ہو جائے۔ حکومت سے اگر بات کریں حکومت کہتی ہے کہ اپوزیشن صرف باتیں کرتی ہے اس کے علاوہ اپوزیشن کچھ نہیں کر سکتی اب آگے کیا ہونے والا ہے سب کی نظریں اسلام آباد پر ہیں۔
پی پی پی کی اگر بات کریں تو بلاول واضح کر چکے ہیں کہ وزیراعظم جو بھی ہو گا وہ ن لیگ سے ہو گا۔ بہت حیران کن بیان تھا یہ بلاول کا، اس کا مطلب اپوزیشن اس بار پھر ن لیگ کو آگے کرنے جا رہی ہے پی پی پی ہمیشہ کی طرح پیچھے کھڑی تماشا دیکھے گی۔ جب سینیٹ انتخابات ہوئے تھے اس وقت بھی پیپلز پارٹی نے کیا کیا تھا، اپنا مطلب پورا کرنے کے بعد پی ڈی ایم سے کچھ عرصے کے لیے راہیں جدا کر لی تھیں جبکہ یہ تجویز دی ہی پیپلز پارٹی نے تھی۔ اس وقت یہ بہانہ بھی کیا گیا تھا کہ ہم سڑکوں پر عوام کے لیے نکلے ہیں اپنے مفادات کے لیے نہیں۔ جب بھی کوئی اینکر یا رپورٹر پیپلزپارٹی سے پی ڈی ایم سے جدا ہونے سے متعلق سوال کرتا تو پیپلزپارٹی کوئی خاص جواب نہیں دیتی تھی۔ اب پچھلے کچھ ہفتوں سے ہم نے دیکھا کہ دوبارہ سے ملاقاتیں عروج پر ہیں، پی ڈی ایم نے پھر سے پیپلز پارٹی کو گلے سے لگایا ہوا ہے۔
لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتمادکی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں جب کہ حکومت کہتی ہے اپوزیشن آخری دم پر ہے۔ دوسری طرف حکومت کے بہت سے اراکین حکومت کے ساتھ دغا بازی کے لیے کوشاں تھے کہ حکومت نے انکو شو کاز نوٹس جاری کر دئیے جبکہ حکومتی جماعت کے بہت سے نامور ایم این ایز وزیراعظم عمران خان کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ آپ وزیراعظم کسی اور کو بنا دیں جب کہ عمران خان صاحب نے ہمیشہ کی طرح راگ الاپا ہوا ہے میں نہ مانوں۔۔۔ اور کہتے ہیں یہ چور ہیں ڈاکو ہیں میں جو کر رہا ہوں ٹھیک کر رہا ہوں۔ عوام کی بات کریں تو عوام کہتے ہیں سب سے بُرا دور حکومت پی ٹی آئی کا ہے اور وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ہم تو اگلے پانچ سال لینے کی بھی تیاری مکمل کر چکے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ بیان سن کر عوام کہتے ہیں کہ ہم اس حق میں بالکل نہیں ہیں اس حکومت کو اگلے پانچ سال بھی دیں۔ اس حکومت نے ہمیں رسوائی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اگر ہم بھی دیکھیں تو پورے ملک میں چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں عروج پر ہیں اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب ملک میں بے روزگاری غربت بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت ملک کے حالات حکومت اور عوام دونوں کے لحاظ سے کمزور ہو چکے ہیں۔ مہنگائی حکومت بھی مانتی ہے کہ بڑھ گئی ہے مگر افسوس قابو پانے پر ناکام رہی ہے۔
ادھر یہ خبریں آ رہی ہیں کہ ترین گروپ سے کافی ایم این ایز کی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ اگر عمران خان کی صورتحال دیکھیں تو بہت ہی نازک ہے، مگر حکومت کہتی ہے ہمیں کسی چیز کا خوف نہیں، ہم تحریک عدم اعتماد میں بھی میدان ماریں گے۔ سینیٹ انتخابات میں بھی حکومت بہت پُر امید تھی اور کامیاب بھی ہوئی اور اب بھی حکومت کہہ رہی ہے کہ میدان ہمارا ہی ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ میدان کس کا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.