نوشتہ دیوار

26

قومی سیاست میں لفظی گولہ باری اب عملی تشدد کی طرف جاتی نظر آ رہی ہے بات کھل کر کرنی چاہئے کہ حکمران اپنی ناکامی کا نوشتہ دیوار دیکھنے اور پڑھنے کے بعد حواس باختہ ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز سندھ ہائوس میں جو ہوا وہ کسی طور بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا ہے ۔ حکمران جماعت کے 2 پارلیمانی ممبران کی سنگت اور نگرانی میں جو توڑپھوڑ ہوئی وہ یقینا قابل مذمت ہے اور اس سے بھی بڑھ کر حکمرانوں کی طرف سے اس واقعہ کے حوالے سے جو تبصرے آئے وہ اس سے بھی زیادہ قابل مذمت ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت اپنی رٹ خود ہی مٹانے کے در پے ہے وزیراعظم کے معاون خصوصی شہباز گل صاحب جس طرح ان دو ایم این ایز کو تھانے سے چھڑوا کر لے گئے وہ اس بات کا غماز ہے کہ حکومت تشدد کے فروغ میں مصروف ہے۔ حکمران جماعت کی صفوں میں پھیلی بغاوت اور ہر روز آنے والی خبریں یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ عمران خان صاحب ایوان کا اعتماد کھو چکے ہیں اسی لئے وہ ممبران کو دھمکا رہے ہیں اور انہیں پارلیمان تک نہ پہنچ دینے کی پلاننگ کئے بیٹھے ہیں۔ حکومت نے اب ڈیفیکشن کلاز کی تشریح کے لئے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر لیا ہے حالانکہ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ ویسے سندھ ہائوس کے وقوعہ کا سپریم کورٹ نے خود بھی نوٹس لے لیا ہے۔ معاملات کے بگاڑ، تشدد کی سیاست اور حکومتی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن حکمران نوشتہ دیوار پڑھنے کی بجائے حماقتوں پر اتر آئے ہیں۔ تشدد کو فروغ دینے کی خوداختیار کردہ پالیسی حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حکومتیں ہمیشہ لا اینڈ آرڈر کو قائم رکھنے کی پالیسی اختیار کرتی ہیں تاکہ ان کی رٹ قائم ہو سکے اور تاثر پیدا ہو کہ حکومت اقتدار کے گھوڑے پر سوار ہی نہیں بلکہ اس کی لگامیں بھی تھامے ہوئے ہے لیکن ہمارے موجودہ حکمرانوں کی ناکامی کی بہت سی وجوہات ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ لائی جانے والی حکمران قیادت کی ناکامی اور نااہلی ہے جس کے باعث عامۃ الناس میں بے چینی اور بے یقینی پائی جاتی ہے قومی معیشت پر شدید بوجھ ہے۔ عوام کی معیشت میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔سیاسی قیادت کا ایک دنگل برپا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کی طرف سے وزیراعظم کے خلاف ’’تحریک
عدم اعتماد‘‘ کے پیش کئے جانے کے بعد معاملات میں بے چینی و اضطراب بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ معاملات پر بے یقینی کی دھند چھائی ہوئی ہے اس وقت تین طاقت کے مراکز نظر آ رہے ہیں۔ سب سے مؤثر اور طاقتور گروپ حکمران جماعت کے باغیوں پر مشتمل ہے جو سندھ ہائوس میں دیکھنے کو ملا ہے اس گروپ کے کچھ اراکین نے کھل کھلا کر اپنی حکمران جماعت کے طرز عمل و فکر پر تنقید کی ہے ویسے سننے میں آ رہا ہے کہ حکمران جماعت کے کچھ اراکین ن لیگ اور کچھ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ رابطوں یا ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں بھی ہیں۔ حکمران جماعت کے باغیوں پر مشتمل یہ گروہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے میں کلیدی اہمیت حاصل کر چکا ہے۔ دوسرا گروہ ق لیگ کی شکل میں حکومتی اتحادیوں پر مشتمل ہے جس میں ق لیگ کے ساتھ ساتھ، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بی اے پی کے اراکین پارلیمان شامل ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی دو جہتی پالیسی کے تحت معاملات کو لے کر چل رہے ہیں۔ ایک طرف وہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ ’’مشترکہ لائحہ عمل‘‘ اختیار کرنے کے لئے سلسلہ جنبانی کر رہے ہیں انہیں اپنی قیادت میں اکٹھا کرنے اور متحدہ مؤقف اپنانے کے لئے مستعد ہیں۔ دوسری طرف وہ اپوزیشن کے ساتھ بھی بھائو تائو کر رہے ہیں۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ سمیت وفاقی اور صوبائی وزارتوں کے حصول کے لئے مصروف عمل ہیں۔ ان کی سرگرمیاں کبھی بلند آہنگ نظر آتی ہیں اور کبھی ڈوبتی ہوئی لگتی ہیں۔ تیسرا بڑا طاقت کا مرکز آصف علی زرداری چلا رہے ہیں ان کی ساری سرگرمیاں ابھی تک تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لئے فعال نظر آ رہی ہیں۔ انہوں نے بڑی شاندار حکمت عملی کے تحت نہ صرف حکمران جماعت کے باغیوں کو اپنی چھتری تلے جمع کر دکھایا ہے بلکہ حکمران اتحادیوں کے ساتھ سلسلہ جنبانی قائم کر کے انہیں بھی حکومت کے خلاف اکٹھا کرنے کی کوششیں کر دکھائی ہیں۔ اگر شخصی اعتبار سے دیکھیں تو زرداری صاحب ہر دو صورتوں میں اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ معاملات جس انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں حکمران معاملات کو جس انداز میں لے کر چل رہے ہیں اس سے معاملات تشدد اور ہلاکت کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں حکومتی ناکامی کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔ اپوزیشن نے تحریک جمع کرا کے سیاسی سمندر میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے۔ ہر آنے والا دن معاملات کو بگاڑ کی طرف لے جاتا نظر آ رہا ہے۔ حکمرانوں کی بے بسی نظر آ رہی ہے بوکھلاہٹ نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن قد آور اور مضبوط دکھائی دینے لگی ہے جس کا بھاری کریڈٹ آصف علی زرداری کوجاتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ تو احوال واقعی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نظر آنے لگی ہے۔
دوسرا ذرا ایک فرضی منظر سامنے لاتے ہیں کہ آصف علی زرداری نوازشریف/ مسلم لیگ ن کے ساتھ کسی مسئلے پر اختلاف کے باعث، تحریک عدم اعتماد سے علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں تو اپوزیشن کی کیا صورت حال ہو گی؟ سردست یہ ایک فرضی منظر ہے کیونکہ آصف علی زرداری ایک بار پھر ثابت کر چکے ہیں کہ وہ ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کامیاب سیاستدان ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کرنا تھا ایک بار پھر ثابت کر چکے ہیں۔ بہرحال یہ فرضی منظر کشی ہے جبکہ صورت حال یہ ہے کہ حکمران جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حکمران قیادت دشنام طرازی پر اتر آئی ہے جو بوکھلاہٹ کا کھلا اظہار ہے۔ شیخ رشید صاحب کی طرف سے سندھ میں گورنر راج کی تجویز اس بوکھلاہٹ کا اظہار ہے ویسے تو اس طرح کے مشیروں نے حکومت کو اس مقام تک پہنچایا ہے کہ اتحادی بھی انہیں چھوڑے جا رہے ہیں اور پارٹی کے اپنے اراکین بھی عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم ذہنی طور پر ابھی تک کرکٹ کے میدانوں سے باہر نہیں نکلے ہیں وہ بائولنگ کی باتیں کر رہے ہیں۔ کوئی سنجیدہ حرکت یا طرز فکر ان کی طرف سے دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ سیاست میں بدکلامی اور تشدد کے فروغ کے بعد اب معاملات کو ڈی چوک میں حل کرنے کی باتیں سیاسی دیوالیہ پن کا واضح ثبوت ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کا کھیل اسمبلی میں کھیلا جانا ہے۔ عمران خان صاحب کی حکومت کا فیصلہ عوام نے نہیں بلکہ عوامی نمائندوں نے کرنا ہے۔ آئین کے مطابق ہونا ہے لیکن وہ اسمبلی کی بجائے ڈی چوک میں فیصلہ کرنے پر تلے نظر آتے ہیں ہر آنے والا دن نئی نئی خبریں لا رہا ہے، انکشافات ہو رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ تشدد کے امکانات بھی بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ لفظی تشدد تو پہلے ہی دنگل کی شکل اختیار کر چکا ہے اب ہم اصلی دنگل کی طرف جاتے نظر آ رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔

تبصرے بند ہیں.