ایک اعزاز ہے جہل و بے راہ روی

62

3 مارچ کو عالمی یوم سماعت تھا۔ اس ضمن میں پوری دنیا کو متوجہ کرتے ہوئے عالمی ادارۂ صحت WHO نے کہا ہے کہ دنیا میں عنقریب ایک ارب انسان ثقل ِسماعت کا شکار ہونے کے خطرے میں مبتلا ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ماہرین کے نزدیک صوتی آلودگی ہے۔ یعنی شور کا بہت بڑھ جانا۔ اس میں اونچی ناخوشگوار آوازوں کا حصہ بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ ماہرین نے مشینی آوازوں پر توجہ مرکوز کی ہے، تاہم اگر انہوںنے پاکستان پر غور فرمایا ہوتا تو اونچی ناخوشگوار آوازوں کا منبع لاؤڈ اسپیکروں پر سماعت شکن تقریری گھن گرج کا طوفانِ پرہیجان، باعثِ خلجان وخفقان رہا۔ کان پڑی آواز اس چہار جانب سے برپا ہنگامے میں سنائی نہ دیتی تھی۔ عوام حیران وپریشان میلسی، گورنر ہاؤس کراچی سے اٹھتی صوتی آلودگی اور جوابی گولہ باری کی زد میں رہے۔ امراض سماعت کے ماہرین کے مطابق صوتی آلودگی ڈپریشن، ذہنی تناؤ جیسی بیماریوں سمیت نفسیاتی مسائل کا سبب بنتی ہے۔ جو سیاسی منظر نامہ ملک میں سیاسی جماعتوں، جوڑتوڑ گروپوں نے بنا رکھا ہے، وہ فی نفسہٖ کسی بھی ذی ہوش، باشعور پاکستانی کو نفسیاتی مریض بنا دینے کو کافی ہے۔ صرف ایک موازنہ کرلیجیے۔ جب ہم برصغیر میں گورے کے غلام، آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے تو قائدین، مقررین کس معیار کے تھے۔ ابوالکلام آزاد، بانیان میں محمد علی جناح اور علامہ اقبال، محمد علی جوہر، شوکت علی، ظفر علی خان، علامہ عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا شبیراحمد عثمانی، سید ابوالاعلیٰ مودودی، شورش کاشمیری اور مزید فہرست۔ یعنی مسلم قیادت میں علماء، اکبر الہ آبادی جیسے شعراء اور نظریاتی سپاہی موجود تھے۔ ان کی زبان وبیان کی شائستگی، شستگی، گہرائی، فکر ونظر کی پختگی، دبدبہ اور استدلال کی قوت زبردست تھی۔ عوام الناس ان سے گفتگو کا سلیقہ سیکھتے تھے۔ آج (بالخصوص) انصافی سوشل میڈیا بریگیڈ کی رہنمائی میں صوتی آلودگی جس سطح کو چھو رہی ہے، وہ پریشان کن ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کا کھوکھلا پن، قومی زبان کی بے وقعتی، کتاب سے لاتعلقی، رزق حلال کی کمیابی، ثقافتی آلودگی اس کی وجوہات میں سے ہیں۔ کھلے بندوں بلاجھجک ہارس ٹریڈنگ کو سیاست میں قبول کرلیا جانا، ATM ، نوٹوں کی گڈیاں، پلاٹ، مربعے، منی لانڈرنگ، جعلی اکاؤنٹس باورچیوں، ریڑھی بانوں، سیکورٹی گارڈوں کے ناموں پر، ہر کس وناکس کے علم میں ہیں۔ لوٹا گردی، تھالی کے بینگنوں کے تذکرے۔ یہ ہماری ہی سیاسی تاریخ ہے جس میں ہر عدم اعتماد تحریک میں ارکان اسمبلی کو باندھ سمیٹ کر بھیڑ بکریوں کی طرح رکھے جانے کی ریت پڑی۔ چھانگا مانگا میں، مری میں اس فکر میںکہ بیوپاریوں کے ہتھے چڑھ کر ووٹ کم نہ ہوجائیں۔ یہ جمہوریت کا حسن کہلاتا ہے۔ قبل از آزادی کی قیادت کے مقابل آج صرف قائدین کی فہرست رکھ دینا ہی کافی ہے۔ یہ آج کا ترقی یافتہ پاکستان ہے۔
سیاست بازی میں یہ سب ایک دوسرے کے پول کھولتے، رازہائے دروں خانہ سرعام لے آتے ہیں۔ اس حمام میں سبھی یکساں ہیں۔ پہلا پتھر وہ مارے جو خود پاک ہو کے مصداق۔ سیرت وکردار، امانت ودیانت کا باب کسوٹی بنے تو ساری بھیڑ چھٹ جائے۔ بڑے بھی تماش بینی کر رہے ہیں۔ سیاسی منظر یہ ہے کہ گویا ملک، اس کی سلامتی استحکام اور مفادات کی فکر نہیں، ایک کیک ہے جس پر چھینا جھپٹی کی دیوانگی ہے۔ یہ ٹکڑا تمہارا، وہ میرا! تم وزیر یہ گورنر وہ مشیر! ایسے میں بھارت نے ان کو سرپھٹول میں مصروف پاکر سپر سانک، جو نیو کلیئر میزائل لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے پھینک کر تجربہ کر دیکھا۔ کنکر مار کر لہریں گننے، ردعمل جانچنے کا کام کیا ہے۔ دیکھے بھالے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ کر گزرا۔ گھری، گھبرائی حکومت نے کماحقہ نوٹس لینے میں بھی چار دن لگا دیے۔
بھارتی عزائم اور ناپاک ارادوں سے غفلت کے کیا ہم متحمل ہوسکتے ہیں؟ ملک کے معاشی مفادات سے آئی ایم ایف کھیل رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف اس اعتراف کے باوجود کہ پاکستان نے 27 میں سے 26 نکات پر عمل کر دکھایا ہے، گرے لسٹ ہی میں رکھ چھوڑا ہے۔ 27 واں نکتہ شاید پوٹن ملاقات اور وہاں متنازعہ ترین حالات میں جا پھنسنے اور غلط وقت پر بڑی بڑی باتیں کرکے وزیراعظم کا روس کی طرف جھکاؤ، قرار پایا۔ یوں یورپ کو برانگیختہ کرکے یہ ایک نکتہ آپ کے کیے کرائے پر پانی پھیر گیا۔ ہم قرضوں بھری معاشی اوقات بھول جاتے ہیں!
روس کے یوکرین پر حملے کو بیس سے زائد دن ہوگئے۔ یوکرین یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ صنعتی مرکز، دنیا کا سب سے بڑا نیو کلیئر پلانٹ یہیں ہے، دیگر ایسے پلانٹ مزید ہیں۔ روس نے جس طرح شام اجاڑا تھا (جس پر دنیا منہ پھیرے رہی) وہی سب اب یہاں ہے۔ شہری آبادیوں پر حملے۔ 13 مارچ کو ماری پول میں 100 فضائی حملوں میں 2187 یوکرینی شہری مارے گئے۔ دو درجن طبی مراکز پر بھی روس نے بے دھڑک حملہ کیا۔ زچہ بچہ ہسپتال تک کو نشانہ بنایا۔ خطرناک اقدام پولینڈ کی سرحد سے قریب اس بیس پر حملہ جو امریکا نیٹو کا یوکرینیوں کو فوجی تربیت دینے کا مرکز تھا۔ روس، رومانیہ، ہنگری سے قریب تر یوکرین علاقوں کو بھی نشانہ بنا چکا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سیکورٹی مشیر نے متنبہ کیا ہے کہ روس نے اگر یوکرین سے باہر کسی نیٹو ممبر کو حادثتاً بھی نشانہ بنایا تو مغرب لازماً اس کا جواب دے گا۔ روس کے مذکورہ حالیہ حملے مغربی فوجی اتحاد کو جنگ میں گھسیٹ لانے کے امکانات قوی کر رہے ہیں۔ عالمی جنگ خدانخواستہ کسی چھوٹی بڑی حماقت سے بھڑک سکتی ہے۔ حالات کسی دیوانے، بڑبولے کے ناگہانی اقدام سے اس نہج پر چل پڑتے ہیں۔ لاکھوں یوکرینی پناہ کی تلاش میں ہمسایہ ممالک کی طرف لپک رہے ہیں۔ ایسے میں اسرائیل نے ہزاروں یوکرینی یہودی تل ابیب منتقل کردیے ہیں۔ ہر یوکرینی یہودی کو تحفظ دینے کے عزم کا اعلان کیا ہے۔ (جو مزید فلسطینی دربدر کرنے کا سبب بنے گا۔) نظریاتی مملکت کا قانون دیکھیے کہ ہر یہودی کو اسرائیل میں قدم رکھتے ہی اسرائیلی شہریت مل جاتی ہے۔ سیکولر یہودی بھی اس کی مکمل پاسداری کرتے ہیں۔ تقابل میں پاکستان ایک نظریاتی مملکت، اسلام کا قلعہ کہہ کر اخلاص کے ساتھ بانیان پاکستان نے بنائی۔ ہماری سیکولر لابی، حکمران، سیاست دان، دانشور نظریۂ پاکستان کو اول دن سے مٹا ڈالنے کے درپے رہے۔ اصولاً پاکستان کا دامن ہر مسلمان کے لیے ایسا ہی کشادہ ہونا تھا۔ روہنگیا کے مظلوم مسلمان ہوتے یا شامی، افغانی۔ مگر ہم نے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قیمتی مسلمانوں کو ڈالروں کے عوض بیچ ڈالا۔ 2001ء میں افغانستان اور بعدازاں عراق پر حملے میں مغرب نے مدد کے لیے آنے والے مسلمان نوجونواں کو دہشت گرد قرار دے کر یا مار ڈالا یا گوانتامو، باگرام، ابوغریب میں جھونکا۔ آج اسی مغرب سے انہی عالمی قوانین کے سائے تلے یوکرین جاکر لڑنے والے غیرملکی رضاکاروں کی بھرتی کھل گئی ہے۔ اب یورپی اور دنیا بھر کے گورے، نسلی جنگ لڑنے یوکرین کی مدد کو دھڑادھڑ جا رہے ہیں ملکہ الزبتھ کے محافظ سمیت۔ 52 ممالک سے 20 ہزار رضاکاروں نے دستخط کیے ہیں۔ روس کا کہنا ہے کہ 16 ہزار رضاکار(اسدی) شام سے لڑنے کو روس کی مدد کے لیے آنے کو تیار ہیں۔ بشار الاسد کو شام میں 2015ء سے مدد دے کر مسلمانوں کے لیے کھنڈر بنا دینے والا روس، ان کا محسن ہے! تاہم یوکرین کی غیرمعمولی مزاحمت نے جنگ کو روس اور پورے مغرب کے لیے غیرمعمولی طور پر طویل اور مشکل بنا دیا ہے۔ پورے گلوب میں خوراک اور ایندھن کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ خود امریکا میں مہنگائی 40 برس کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے۔ برطانیہ، روس، مشرقی یورپ ہر جگہ عوام روزافزوں مہنگائی پر مظاہرے کر رہے ہیں۔
چین میں 17 ملین افراد نئے لاک ڈاؤن کا شکار ہوگئے ہیں بڑے صنعتی شہروں میں۔ کورونا کا بدترین نیا حملہ شنگھائی سمیت کئی شہروں میں ہوا ہے۔ سو اسے اپنی پڑ گئی ہے اس عالمی بحران میں۔ ادھر ہمارا اعلیٰ تعلیمی پوش ادارہ ثقافتی ہلوں میںالجھ گیا۔کنیٔرڈ کالج برائے خواتین لاہور میں11مارچ کو بینڈ اور پرفارمرعاصم اظہرکے کنسرٹ کااہتمام تھا۔ مگر 2500 کی وسعت والے ہال میں 3500 کی تعداد میں ٹوٹ پڑنے والی شائقین کی بنا پر بدنظمی اور بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ لڑکیاں بے ہوش اور کچھ زخمی ہوگئیں۔ مرد بھی اندر گھس آئے اور ادھورا شو منسوخ کرنا پڑا۔ قوم کی بیٹیاں گلوکاروں سے فیض یابی کے اس نادر موقع سے محروم کیے جانے پر سیخ پا ہوکر ٹویٹر پر چڑھ کر انتظامیہ کو برا بھلا کہتی رہیں۔ پولیس بھی بلوانی پڑی۔ یہ ہے 21 ویں صدی کا ترقی یافتہ پاکستان اور اس کے اعلیٰ تعلیمی مراکز کی سرگرمیاں! ایک اعزاز ہے جہل و بے راہ روی!

تبصرے بند ہیں.