تیر کمان سے نکل چکا

381

پی ٹی آئی حکومت کی دھاک پچھلے ہفتے اسی وقت زمین بوس ہوگئی جب مولانا فضل الرحمان کی ڈیڈ لائن سے پہلے ہی جے یو آئی کے دو ارکان اسمبلی اور انصار الاسلام   کے رضا کاروں کو رہا کرنا پڑا۔ یہ کوئی اچانک رونما ہونے والا واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک ٹیسٹ کیس تھا۔حکومت کا خیال تھا کہ وہ اس دھاوے کے ذریعے اپوزیشن کو ریاستی طاقت سے خوفزدہ کرکے تحریک عدم اعتماد کے راستے سے ہٹا دے گی اور پولیس وغیرہ کے ذریعے گرفتاریاں کرکے ثابت کردے گی کہ معاملات مکمل طور پر اس کی گرفت میں ہیں۔ ادھر اپوزیشن جماعتوں کو اطلاعات ملی تھیں کہ حکومت نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے ان کے ارکان اسمبلی کو اغوا کرنے کی سازش تیار کرر کھی ہے۔ فوج اور آئی ایس آئی کی جانب سے غیر جانبداری کے واضح اظہار  کے بعد اس مقصد کے لئے قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کو استعمال کیا جائے گا۔ جوابی حکمت عملی تیار کرتے ہوئے جے یو آئی نے اعلان کیا کہ ان کی رضا کار تنظیم انصار الاسلام  کے کارکن اپوزیشن ارکان کی حفاظت کریں گے۔ پچھلے ہفتے جب چند رضاکار ارکان اسمبلی سے ملنے پارلیمنٹ لاجز میں آئے تو حکومت کے ہاتھ ‘‘ سنہرا ‘‘ موقع آگیا کہ وہ طاقت استعمال کرکے اپوزیشن کو خوفزدہ کر کے تتربتر کردے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ اس تمام آپریشن کی نگرانی براہ راست وزیر اعظم نے کی۔ پولیس کی بہت بڑی نفری نے دھاوا بولا ، دروازے توڑے۔ ارکان اسمبلی کو زخمی کیا گیا۔ میڈیا کو اس تمام کارروائی سے دور کرنے کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوگئی۔ اطلاع ملتے ہی مختلف اپوزیشن جماعتوں کے ارکان موقع پر پہنچ گئے۔ حالات اس وقت مکمل طور پر پلٹا کھا گئے جب جوابی کارروائی  کے لئے مولانا فضل الرحمان خود پارلیمنٹ لاجز میں آگئے۔ اسی اثنا میں اسلام آباد راولپنڈی سے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی جمع ہوگئی۔ پولیس کی گاڑیوں کے ٹائروں سے ہوا نکال دی گئی۔ کارکنوں کا اشتعال دیکھ کر بڑے بڑے پولیس افسر پچھلے دروازے سے پیدل ہی نکل گئے۔ مولانا فضل الرحمان نے اسی وقت ملک بند کرنے کی کال دی تو کراچی سے خیبر تک راستے بند ہونے لگے۔ اس سے پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید نے بہت سخت پریس کانفرنس کرکے اپوزیشن کو کچلنے کی وارننگ دی۔ اپوزیشن نے جواب میں اگلے ہی روز وزیر اعظم ہائوس کے گھیرائو کا بھی اعلان کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ پورے ملک کو لاک ڈائون سے بچانے کے لئے مقتدر حلقے حرکت میں آئے اور حکومت اور اپوزیشن دونوں سے رابطے کیے۔ جس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے رات گئے اعلان کیا کہ ابھی راستے بند کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگلے دن نو بجے تک کا الٹی میٹم ہے۔ تمام گرفتار ارکان اور کارکنوں کو رہا نہ کیا گیا تو ملک کو جام کردیں گے۔ حکومت نے صورتحال کی نزاکت کو بھانپ کر راتوں رات ‘‘زبردستی’’ شخصی ضمانت پر تمام افراد کو رہا کردیا۔ اس مشن میں ناکامی کے بعد حکومت کی اب بھی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح سے اپوزیشن کو دباو میں لایا جائے۔وزیر اعظم عمران خان ان دنوں عوامی جلسوں سے اور پھر تحریک عدم اعتماد والے دن یا اس سے پہلے اسلام آباد کے ڈی چوک میں اپنے تئیں تاریخ کے  سب سے بڑے جلسے کے ذریعے جو کوشش کررہے ہیں اسے اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ تجزیہ کاروں کے پاس وزیر اعظم عمران خان کی بہادری ماپنے کا کوئی آلہ نہیں۔اتنا ضرور ہے کہ وکلا تحریک کے دوران وہ پولیس کا چھاپہ پڑتے ہی اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر فرار ہوگئے تھے۔ ایک دوسرا اہم واقعہ ریاستی مشینری کی مکمل سپورٹ سے 2014 میں نکالے جانے والے لانگ مارچ کا ہے۔ گوجرانوالہ میں ان کے قافلے پر معمولی پتھرائو ہوا تو پھر وہ سارا راستہ کنٹینر پر باہر نہیں آئے۔ سیدھا اسلام آباد جاکر دم لیا۔ ان کی گرفتاری بھی محض ایک مرتبہ ہی ہوئی۔ اس دوران دو یا تین دن کی جیل سے ہی ان کی حالت غیر ہوگئی تھی۔ یہ تو کھلا راز ہے کہ جرنیلوں کے ذریعے پروان چڑھنے والی سیاست میں عمران خان کا اپنا کردار نیکی کے اس مجسمے کا تھا جس کے سامنے باقی سب حریف کرپشن ، نااہلی اور غداری کے بت تھے۔ جنرل حمید گل مرحوم ویسے تو اپنی زندگی میں اس پراجیکٹ سے تائب ہوگئے تھے لیکن اگر آج وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ان کا یہ مشن بھی آپریشن جلال آباد کی طرح تباہ کن ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔ حکیم سعید شہید اور عبدالستار ایدھی مرحوم نے بہت پہلے ہی پورے معاملے کو بھانپ کر نہ
صرف راہیں جدا کرلیں بلکہ اس کھیل کا پردہ بھی چاک کردیا تھا۔ بہر حال جنرل حمید گل ، جنرل مشرف ، جنرل پاشا ، جنرل ظہیر السلام سے ہوتی ہوئی یہ غیر سیاسی مہم 2018 میں عمران خان کو اقتدار میں لے آئی۔ ان کے ناقدین اور مخالفین اسے بین الاقوامی سازش قرار دیتے ہیں۔ بہر حال جب وہ حکومت میں آکر ریاستی اداروں کی مکمل سپورٹ کے ساتھ بھی نہ چل سکے بلکہ الٹا اپنے لانے والوں پر بوجھ بن گئے تو اسٹیبلشمنٹ نے بہتر جانا کہ مزید حمایت ادارے کی ساکھ کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ اسی ادارے نے ایک حد سے زیادہ بدنام ہونے پر اپنے سابق چیف جنرل مشرف کو ہمیشہ کے لئے باہر کا راستہ دکھا دیا تھا تو اب وہ عمران خان کی خاطر ایسا بوجھ گوارا کیوں کرتے۔ عمران خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم ہیں جن کے بارے میں راولپنڈی میں ہونے والے اجلاسوں میں بعض مواقع پر کچھ افسروں نے غیر معمولی حمایت کے تاثر کو زائل کرنے کی بات کی۔ اب شاید وہ وقت اس لیے آگیا ہے کہ ایک تو خطے کے مخصوص حالات کے سبب پاکستان میں عالمی طاقتوں کی وہ پہلے والی دلچسپی نہیں رہی اور دوسرے یہ کہ ملک کو موجودہ حالت میں جوں کا توں رکھنا اسکی سالمیت کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ملک میں نیا سیاسی بندوبست کرانے میں مصروف ایک شخصیت سے ایک چھوٹی سیاسی جماعت کے سربراہ نے پوچھا کہ آگے کیا سیٹ اپ ہوگا تو بلا تامل جواب ملا شہباز شریف ، پھر پوچھا گیا وہ کیوں ؟ تو رائے دی گئی کہ جو حالات بن چکے ان میں شہباز شریف کے سوا کوئی اور چل نہیں سکتا۔ ایک طرف تو وزرا یہ دھمکیاں دے رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے کسی بھی رکن کو منحرف ہوکر وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ووٹ ڈالنے نہیں دینگے ا ور کارکن ان کا گھیرائو کریں گے۔ دوسری طرف وہی دونوں ’’چیمپئن‘‘ شیخ رشید اور فواد چودھری التجا کررہے ہیں کہ اپوزیشن مذاکرات کی میز پر آجائے۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو شاید ایسا ہونا ممکن تھا مگر اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ اس لئے اپوزیشن نے مذاکرات کی پیشکش فوراً ہی مسترد کردی۔کہا جاتا ہے کہ شیخ رشید نے ق لیگ کے خلاف بلیک میل کرنے کا بیان وزیر اعظم کے ایما پر دیا تھا۔ مونس نے الٰہی نے شیخ رشید پر اپنے بزرگوں سے پیسے لینے کی جوابی پھبتی کسی تو وہ فوراً لیٹ گئے۔ اب ایسے وزرا دست و بازو ہوں تو عمران خان تحریک چلانے کے لئے ان پر کتنا اعتماد کرسکتے ہیں ؟ خصوصاً ان حالات میں کہ جب مولانا فضل الرحمان نے واشگاف اعلان کردیا ہے کہ اگر کسی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ ہوسکی تب بھی حکومت کو چلنے نہیں دیں گے۔گلی کوچوں میں جد وجہد کی جائے گی۔ انہوں نے ملک بھر سے پی ڈی ایم اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے کارکنوں کو 23 مارچ کو اسلام آباد کی جانب نکلنے کا کہہ بھی دیا۔ او آئی سی اجلاس کے باعث 24 مارچ کی شام تک انتظار کیا جائے گا پھر سب وفاقی دارالحکومت میں داخل ہو جائیں گے۔ مولانا کی دھمکی میں کتنا وزن ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر حالیہ واقعات سے ثابت ہے کہ مولانا جب بھی سڑکوں پر نکلے حکومتی حلقوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ حکومتی پالیسیوں اور بیڈ گورننس کے باعث ملک بھر کے عوام نالاں ہیں۔ بلاول بھٹو کامیاب ملک گیر لانگ مارچ اور جلسے کر کے ثابت کرچکے۔ اب اطلاعات ہیں کہ نواز شریف نے بھی مریم کو جلسوں کے لئے تیار رہنے کی ہدایت کردی ہے۔ اللہ نہ کرے کہ تحریک عدم اعتماد والے دن اس سے پہلے یا بعد میں تصادم کی فضا بنے۔ لیکن اگر ایسا کچھ ہوا تو حکومت ہی مشکل میں آئے گی ،وزیر اعظم عمران خان کا سب کچھ دائو پر لگا ہے۔ مگر ان کے ساتھ موجود وزرا جانتے ہیں کہ انہیں آئندہ بھی اسی ملک میں رہ کر سیاست کرنی ہے۔ اس لئے باہر سے درآمد کردہ چند فضول قسم کے مشیروں کے سوا ہر ایک کی یہی کوشش ہوگی کہ اس روز جتنا ممکن ہو دائیں بائیں ہواجائے خصوصاً کسی بھی طرح کی کشیدگی میں حصہ دار نہ بنے۔ حکومت میں شامل افراد پر پہلے ہی سے کئی طرح کے مقدمات بننے کے امکانات روشن ہیں اوپر سے جھگڑے کے کیسوں میں پڑ کر کوئی بھی جان اور مال دائو پر لگانے کی ہمت نہیں کرے گا۔ارکان اسمبلی کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی حکومتی دھمکیوں کے منصوبے کے جواب میں پی ڈی ایم بھی میدان میں آگئی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے واضح کردیا کہ اپوزیشن جماعتوں کے کارکن کتنے دن تک اسلام آباد میں رہیں گے ، اس کا فیصلہ بعد میں ہو گا۔انہوں نے واضح کیا کہ تحریک عدم اعتماد والے دن پارلیمنٹ ہائوس کے دروازے سے شاہراہ دستور تک ہمارے لاکھوں کارکن موجود ہوں گے ، تمام ارکان اسمبلی کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ان حالات میں مولانا فضل الرحمان کا یہ کہنا اور بھی معنی خیز ہے کہ ہم آگے بہت کچھ کرنے جارہے ہیں۔ تخت یا تختہ کے لئے مارچ فیصلہ کن مہینہ ہے۔کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہ آیا تو پھر بھی حکومت چل نہیں پائے گی۔ جاننے والے جان چکے ہیں کہ تیر کمان سے نکل چکا۔ اگر کسی کا منصوبہ حکومت کو  ایک خاص حد تک دبائو میں لاکر کوئی مقصد حاصل کرنا تھا اور مراد پوری ہوگئی ہے تب بھی اس سیٹ اپ کو موجودہ شکل میں چلانا ممکن نہیں رہا۔ باہمی اختلافات اور تقسیم در تقسیم کی پالیسیوں نے بڑے بڑوں کو لاغر کر ڈالا ہے۔ اپوزیشن کے دور سے لے کرحکومت میں آنے تک وزیر اعظم عمران خان کو جرنیلی چھتریاں دستیاب رہیں۔ کسی اور حکومت یا ادارے نے پاس بھی پھٹکنے کی کوشش کی تو دھونس جما کر دھتکار دیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان ان دنوں پھر ایکشن میں ہیں مگر اب عملاً ان کے پاس سے جلسے جلوس کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ جلسے اور جلوس جتنا بھی رش لے لیں۔اصل امتحان اپوزیشن جماعتوں سے سڑکوں پر ٹکرائو کے بعد شروع ہوگا۔ اس سے بھی بڑی آزمائش حکومت جانے کے بعد ہوگی۔ یہ ممکن نہیں کہ فوری طور پر گرفتاریاں نہ ہوں۔ دوسروں کو جیل جاتے دیکھ کر لطف اٹھانے اور خود جیل کاٹنے میں جو اذیت ہے اس کا عملی تجربہ ہونے میں اب زیادہ وقت باقی نہیں رہ گیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اقتدار سے رخصتی کے بعد پی ٹی آئی بھی ق لیگ جیسے انجام سے دوچار ہوتی ہے یا پھر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرح کڑا وقت کاٹ کر اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہے گی۔ ق لیگ سے یاد آیا کہ چودھری پرویز الٰہی نے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اتنا بھرپور انٹرویو  دیا کہ ان کی نالائقی سے لے کر ہر قسم کی شخصی خامیاں تک بیان کردیں۔ اگلے ہی روز ایک بیان جاری کرکے کہہ دیا کہ ‘‘ عمران خان ایماندار اور نیک نیت ہیں ‘‘اس سے ق لیگ کی تو خوب سبکی ہوئی مگر یہ واضح ہوگیا کہ سیاست میں مداخلت آج بھی جاری ہے۔

تبصرے بند ہیں.