بیوروکریسی کی پسندیدہ سیاسی جماعت

44

حکومتوں کی ناکامی اور کامیابی میں ان کی گورننس کا بہت زیادہ کردار ہوتا ہے،حکمرانوں کی طرف سے منتخب بیوروکریسی ، کلیدی عہدوں کے لئے افسروں کا انتخاب اور اور پھر ان کلیدی افسروں کے مشورے سے صوبائی سطح پر افسروں کی تعیناتیاں حکومت کی گورننس کو گڈ گورننس یا بیڈ گورننس بناتی ہیں۔وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا اپنی انتظامی ٹیم پر اعتماداور ان کے ساتھ رویہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے،بیوروکریسی اور ریاستی مشینری متعلقہ حکومت کی انتظامی فورس کا درجہ رکھتی ہے۔رہنما او ر کارکن ہرسیاسی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں مگر کچھ سرکاری فرائض ایسے ہوتے ہیں جو رہنمائوں اور کارکنوں کے علم میں لائے بغیر انجام دئیے جائیں تو ہی بہتر ہوتا ہے،ہر ریاستی کام کو سیاسی رنگ دینے سے معاملات عمومی طور پر خراب ہوتے ہیں ،بھٹو دور ہمارے سامنے اس کی ایک مثال ہے جنہوں نے عوام ہماری طاقت ہیں کا نعرہ لگایا اور عوام کو غیر علانیہ طاقت دے دی بلکہ عوام نے از خود اختیار کے تحت حاصل کر لی اور نتیجے میں کوئی سرکاری کام انجام دینا ممکن نہ رہا کہ پیپلز پارٹی کے کارکن ہر کام میں مداخلت کرتے تھے،نتیجے میں سرکاری مشینری اور بیورو کریسی مجبوربن کر رہ گئی،عمران خان بلا شبہ ایک طلسماتی شخصیت کے مالک ہیں،کارکنوں پر ان کا سحر اب بھی طاری ہے،آج بھی وہ مجمع اکٹھا کرنے کے ہنر سے آگاہ ہیں، ان کے موجودہ جلسے اس کے گواہ ہیں ، مگر پارٹی اور حکومت کے معاملات کو ایک ہی انداز سے نہیں چلایا جا سکتا،جس طرح عوامی رابطہ مہم اور جلسے جلوس ،انتخابات کیلئے اہم ہوتے ہیں لیڈر اور عوام میں پل کا کردار ادا کرتے ہیں اسی طرح بیوروکریسی سرکاری مشینری جس نے حکومتی فیصلوں،پالیسیوں کو عملی شکل دینا ہوتی ہے وہ بھی حکومتی لیڈر اور حکومت کے درمیان رابطہ کاری کے علاوہ ڈیلیور کرنے کی منظم فورس ہے ،حکومتی معاملات میں جس رازداری کی ضرورت ہوتی ہے اس کی بھی امین بیوروکریسی ہوتی ہے مگر تحریک انصاف کی قیادت یہ نہ سمجھ سکی ،انکی حکومت سے پہلے ،ماضی میں سرکاری حکام کو ذاتی ملازم کی طرح رکھا گیا اور آج ان سے پارٹی کارکن جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔جسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔مختلف حکمرانوں سے نبھاہ کرنے والی،ان کے ساتھ کام کرنے والی بیوروکریسی اتنی تو تجربہ کار ہو جاتی ہے کہ وہ صورتحال کے تناظر میں اپنے لئے راہ نکالے مگر تحریک انصاف حکومت نے افسروں کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کر دیا اور اب حال یہ ہے کہ
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لیکر
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لیکر
تاریخ شاہد ہے کہ نا اہل ترین حکومت کی ساتھ اچھی بیوروکریسی کی طاقت ہو تو وہ کامیاب ہو جاتی ہے ،تحریک انصاف حکومت تو غنیمت ہے اس میں متعدد تعلیم یافتہ اور تجربہ کار افراد موجود ہیں جو اگر بیوروکریسی کے تجربے سے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے تو آج عدم اعتماد تحریک کی نوبت آتی نہ حکومت کو اس طرح ہر محاذ پر ہزیمت ہوتی مگر اب معاملات بہت آگے نکل گئے ہیں۔ حکومت سابق اور حاضر سروس افسروں کی ٹیم کو بروئے کار لاکر موجودہ صورتحال سے عہدہ برا ہو سکتی تھی اور بڑی آسانی سے اپوزیشن کو ناکام بنا یا جا سکتا تھا،مگر معاملات کی خرابی کے باوجود حکومتی پارٹی کو اس کا احساس ہے نہ اس صورتحال سے توقیر کیساتھ بچ نکلنے کی خواہش ہے۔
بیوروکریسی کی پسند ناپسند ،ان کے لئے اچھی حکومت ، کا سرسری جائزہ لیا جائے تو موجودہ سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں میں سب سے زیادہ ہر دلعزیز چودھری پرویز الٰہی دکھائی دیتے ہیں،اگرچہ چند ماہ قبل انہوں نے بھی سپیکر پنجاب اسمبلی کے طور پر ایسی قانون سازی کی جس کے ذریعے سرکاری افسروں کو ارکان اسمبلی کا ماتحت بنانے کی کوشش کی گئی مگر بعد ازاں یہ معاملہ حل کر لیا گیا۔ ق لیگ اگر چہ مشرف کے دور میں برسر اقتدار رہی مگرآج سالوں گزرنے پر بھی اس دور کی یادیں عوام اور سرکاری افسروں کے دل و دماغ میں پائی جاتی ہیں،بیورو کریسی کیلئے سب سے زیادہ قابل قبول بطور وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی رہے ہیں،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں بیوروکریسی کو نہ صرف احترام اعزاز انعام سے نوازا بلکہ ان کے ساتھ رویہ بھی ذاتی ملازم جیسا نہیں رکھا ، ان کو ریاستی نمائندہ کے طور پر ہی ٹریٹ کیا،جس کا نتیجہ ہے کہ آج بھی چودھری پرویز الٰہی بیوروکریسی میں پسندیدہ ہیں، ان کے دور میں بیوروکریسی کو جو مقام و مرتبہ ملا اس کے جواب میں بیوروکریسی نے ڈیلیور بھی کیا اور پنجاب میں مثالی گورننس اور ترقی رہی، انکے دور کی کامیابی میں بیوروکریسی کے اس وقت کے تین بڑوں ،جی ایم سکندر،سلمان صدیق اور سلیمان غنی کا بڑا ہاتھ تھا جو ان کے ساتھ ،پرنسپل سیکرٹری،چیف سیکرٹری اورچیئرمین پی اینڈ ڈی تھے۔
شہباز شریف دور اگر چہ بیوروکریسی کیلئے ایک آزمائش سے کم نہ تھا،وہ تمام محکموں کے سیکرٹری صاحبان کو صبح سے لے کر رات تک انگیج رکھتے،سارا دن ان کو اپنے دفتر کے باہر بٹھائے رکھتے اور رات کو گھر بلا لیتے،گھنٹوں انتظار کرانے کے بعد صبح پھر آفس میںطلبی کے پروانے کیساتھ رخصت ملتی، اکثر افسروں کی بے عزتی بھی کی جاتی مگر جن افسروں پر شریف برادران اعتماد کرتے ان کو عزت و توقیر سے نوازا جاتا،اعزاز کیساتھ انعام بھی دیا جاتا،جس کی وجہ سے ن لیگ کا بھی بیوروکریسی میں ایک گروپ موجود ہے،جسے ن لیگ کی بیوروکریسی کہا جاتا تھا اس گروپ میں بعض بہت ہی قابل اور تجربہ کار افسر بھی شامل تھے۔فواد حسن فواد،احد چیمہ بہت ذہین اور محنتی افسران ہیں اور دونوں نے شریف حکومت میں مثالی کام کیا ،مگر افسوس کی بات ہے کہ انہیں شریف حکومت میں اچھا کام کرنے کی سزا دی گئی اور وہ ابھی تک نیب کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں،پنجاب میں میاں شہباز شریف کے دور میں بے شمار چیف سیکرٹری رہے،جن میں جاوید محمود بیڈ گورننس اور ناصر محمود کھوسہ گڈ گورننس کا سمبل تھے۔
پیپلز پارٹی پنجاب میں بہت ہی محدود اقتدار میں رہی جبکہ مرکز میں پچھلے بیس سالوں میں ایک دفعہ اقتدار میں رہی ،اس لئے بہت ہی کم بیوروکریسی کی حمائت یافتہ ہے ان میں سے اکثر نظریاتی طور پر پیپلز پارٹی سے منسلک ہیں،تحریک انصاف نے قریب قریب چار سال کا عرصہ مرکز اور پنجاب کے اقتدار میں گزارا مگر اس نے کسی افسر کو خوش کیا نہ کسی کو احترام دیا انعام تو بہت دور کی بات تھی اس لئے آج تک بیوروکریسی میں اس کا کوئی گروپ ہی وجود نہ پا سکا،موجودہ حکمران ایک افسر کو بہت یقین دہانی اور چھان پھٹک کے بعد ذمہ داری سونپتے اور پھر اس کا وہ حال کرتے کہ وہ افسر تو بد دل ہوتا ہی تھا ساتھ دوسرے افسر بھی خوفزدہ ہو جاتے،یوں تحریک انصاف آج بھی بیوروکریسی کا اعتماد حاصل کرنے سے محروم ہے، تحریک انصاف اس انتظامی فورس سے محروم ہے،یہی وجہ کہ اس کے پاس ’’نہ جائے ماندن ہے نا پائے رفتن‘‘ کے حالات ہیں۔

تبصرے بند ہیں.