شرم کِسی کو مگر نہیں آتی!

87

منہ کی بواسیر میں مبتلا کچھ حکمرانوں، سیاستدانوں، خصوصاً ریاست مدینہ کی بار بار بات کرنے والے وزیراعظم خان صاحب کی خدمت میں دوواقعات عرض کرناچاہتا ہوں،… یہ ’’پرانے پاکستان‘‘ کے واقعات ہیں، جِس میں شرم وحیا ہوتی تھی، دوسروں کی رائے کا احترام کیا جاتا تھا، کِسی کے اختلاف کو ذاتی دُشمنی نہیں سمجھ لیا جاتا تھا، کسی کی گالی کا جواب بھی شائستگی سے دینے کی کوشش کی جاتی تھی، بزرگوں کا ادب ہوتا تھا، لحاظ ہوتا تھا، لوگوں کی قوت برداشت کا یہ عالم تھا اپنے مخالفین کی باتوں پر وہ یہ نہیں کہتے تھے’’وہ میری بندوق کی نوک پر ہے‘‘…اِس ’’نئے پاکستان‘‘ نے تو پاکستان کی اخلاقیات کا بیڑا ہی غرق کرکے رکھ دیا ہے، یہاں کوئی اپنی غلطی تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں، اگلے روز میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا حامد میر کے ساتھ انٹرویو دیکھ رہا تھا، بجائے اِس کے وہ اپنی ’’کانپیں ٹانگے‘‘ والی غلطی کا اعتراف کرکے بڑے ظرف کا مظاہرہ کرتے، اُُلٹا اُنہوں نے فرما دیا یہ’’ٹانگیں کانپنے‘‘ سے آگے کا ایک درجہ ہے، …اب ذرا وہ واقعات ’’ سُن لیں …1993ء میں پنجاب کے وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں تھے، وہ برائے نام وزیراعلیٰ تھے، وہ ہرمعاملے میں شہباز شریف کے حکم کے محتاج تھے، اپنی مرضی سے شاید غسل بھی وہ نہیں کرسکتے تھے، اُس وقت وزیراعظم نواز شریف تھے، وائیں صاحب میاں چنوں (ملتان) میں اپنے ایک سیاسی مخالف اسلم بودلہ کے بہت خلاف تھے، وہ ایک زمانے میں بودلہ صاحب کے منشی رہ چکے تھے، ایک بار کسی شادی میں بودلہ صاحب سے میری ملاقات ہوئی، وہ میرے ساتھ تشریف فرماتھے، میری اُن کے ساتھ کوئی خاص جان پہچان نہیں تھی، میں نے اُن سے پوچھا ’’ سر وزیراعلیٰ وائیں صاحب آپ کے اتنے خلاف کیوں ہیں؟ وہ آپ کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، بلکہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں، آپ کے خلاف سخت زبان استعمال کرتے ہیں، کیوں کرتے ہیں ؟؟؟، میرا خیال تھا بودلہ صاحب میری بات سُن کر آپے سے باہر ہوجائیں گے، یا کم ازکم اتنا ضرور کہیں گے ’’وائیں بڑا کم ظرف بڑا گھٹیاانسان ہے، یہ ایک زمانے میں میرا منشی تھا ‘‘… بودلہ صاحب نے میری بات غور سے سُنی اور مسکرادیئے … میں نے پھر عرض کیا ’’سریہ وائیں صاحب آپ کا باقاعدہ تمسخر اُڑاتے ہیں، وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ پھر مسکرائے اور بڑے نرم لہجے میں فرمایا ’’برخوردار کبھی وائیں صاحب ہمارے مہربان ہوا کرتے تھے، آج کل نامہربان ہیں‘‘… میں اُن کی اِس اعلیٰ ظرفی پر اِس لیے زیادہ حیران نہیں ہوا وہ ’’نیا پاکستان‘‘ نہیں تھا جس میں معمولی سے اختلاف یا کچھ سیاسی اختلافات پر اپنے سیاسی مخالفین کوبندوق کی نوک پر رکھنے کی بات کردی جاتی تھی ،… عجب پاگل حکمرانوں سے ہمارا پالا پڑا ہے، بات کرتے ہوئے وہ ذرا نہیں سوچتے اِس کے کیا نقصانات ہوسکتے ہیں؟ فرض کرلیں اپنے جن سیاسی مخالفین کو وہ اپنی بندوق کی نوک پر رکھنے کی بات کرتے ہیں اللہ نہ کرے وہ واقعی کسی کی بندوق کی زد میں آجاتے ہیں، اِس کا الزام کس کے سر آئے گا؟، کیا انہیں ذوالفقار علی بھٹو کا انجام یاد نہیں؟… یہ کیوں ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں؟کیا اُنہیں اندازہ نہیں اُن کی اِس دھمکی کوکوئی قوت کیش بھی کرواسکتی ہے؟… میں اکثر سوچتا ہوں ہم کتنے احمق، کتنے پاگل ، کتنے گدھے تھے نئے  پاکستان کے نعرے کی کشش کا شکار ہوگئے، اور اُس کے لیے جدوجہد کرنے لگے، …اصل میں جدوجہد ہمیں ’’پرانے پاکستان‘‘ یا بہت پرانے پاکستان کی واپسی کے لیے کرنی چاہیے تھی جو اخلاقی لحاظ سے اِس ’’نئے پاکستان سے ہزاردرجے بہتر تھا، … بدزبانیوں اور بدکلامیوں میں نون لیگ کے کچھ رہنما ہمیشہ سے اول درجے پر فائز رہے، مگر اب جو بدزبانیاں، بدکلامیاں اور بدتمیزیاں ہمارے محترم خان صاحب کررہے ہیں وہ صرف اپنے لیے نہیں، اپنے چاہنے والوں کے لیے بھی شرمندگی کا اچھا خاصا سامان پیدا کررہے ہیں، اور ہمیں یہ فیصلہ کرنے یا یہ اندازہ لگانے میں شدید مشکل کا سامنا ہے بدکلامیوں بدزبانیوں اور بدتمیزیوں میں نون لیگ کے کچھ رہنما آگے ہیں یا پی ٹی آئی کے ؟؟؟اِنہوں نے تو ’’تبدیلی‘‘ لانی تھی، یہ مزید تباہی کیوں لے آئے؟، ہم کسی معاملے میں اِن کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے، عجیب آزمائشوں سے ہمیں اُنہوں نے دوچار کردیا ہے، اب ’’جواب آں غزل ‘‘ کے طورپر جو کچھ بلاول زرداری، مولانا فضل الرحمان، اور شہبازشریف نے وزیراعظم کے بارے میں کہا، ہم وہ لکھ بھی نہیں سکتے کہ ہمارے محترم وزیراعظم صاحب اِن تینوں کا تو کچھ نہیں اُکھاڑیا بگاڑ سکتے، ہم ایسے کمزور قلم کاروں کو کسی نہ کسی حوالے سے انتقامی کارروائی کا نشانہ ضرور بناسکتے ہیں، جو آج کل اُن کی ’’خصوصیت‘‘ ہے،…بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمان یہاں تک کہہ گئے ’’اِن کے والد اکرام اللہ خان نیازی کو کرپشن پر نکالا گیا تھا ‘‘ …خان صاحب کا ’’احساس مبارکہ ‘‘ مکمل طورپر اگر مر نہیں گیا اُنہیں ضرور سوچنا چاہیے بلاول زرداری اور فضل الرحمان کو یہ موقع کس نے فراہم کیا، بلاول زرداری نے وزیراعظم کو ہمیشہ ’’خان صاحب‘‘ کہہ کر مخاطب کیا، وہ ’’آپ‘‘ سے ’’تم‘‘ پر کیسے آگئے ؟،اِس کے لیے اُنہیں کس نے مجبور کیا ؟۔اِس کی نوبت کیوں آئی؟،کم ازکم بلاول زرداری کی تربیت اِس طرح کی نہیں اپنے سیاسی مخالفین کے لیے لچر گفتگو وہ کرے۔ خصوصاً اپنے سیاسی مخالف (وزیراعظم) کے والد کو کرپٹ قرار دے جو بے چارہ اِس دنیا میں ہی اب نہیں ہے …جب خان صاحب بھری محفل میں یہ کہیں گے، اور بار ہا دہرائیں گے ’’زرداری میری بندوق کی نوک پر ہے‘‘تو اُس کے ردعمل میں اُن کا بیٹا اپنی تربیت کے مطابق کوئی نرم بات کرتا ظاہر ہے اِس اُس کی کمزوری سمجھا جاتا، … خان صاحب اپنے اِن دِنوں غیر ضروری جلسوں میں اپنے مخالف سیاستدانوں کے خلاف جو زہر اُگلتے ہیں اُس کے بعد اُن کے مخالف سیاستدانوں کی طرف سے اُس کے جو جواب آتے ہیں، خان صاحب تو پتہ نہیں اُس پر کوئی شرم محسوس کرتے ہیں یا نہیں، ہم جیسے جو اُن کے چاہنے والے ہیں ہماراڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے، … مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری نے جوکچھ  خان صاحب کے والد محترم اکرام اللہ نیازی مرحوم کے بارے میں فرمایا مجھے یقین ہے خان صاحب کی ’’غیرت‘‘ ضرور جوش کھائے گی اور وہ اِن دونوں کو محض بُرا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ اُن کے خلاف باقاعدہ قانونی کارروائی بھی کریں گے کہ کیسے اتنا بڑا الزام اُن کے والد پر بغیر کسی ثبوت کے لگادیا گیا ؟؟؟!!

تبصرے بند ہیں.