وہ جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا

82

صرف پاکستان کی سیاست ہی نہیں دنیا کی سیاست بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ جن کی گردن میں سریا تھا وہ آہستہ آہستہ نکل رہا ہے۔ ایک وقت تھا سوویت یونین جدھر چاہتا تھا چڑھائی کر دیتا تھا۔ سرد جنگ کے اس دور میں دنیا دو حصوں میں تقسیم تھی۔ ایک طرف سرخ انقلاب تھا اور دوسری طرف امریکی سامراج۔ دونوں ہی استحصالی نظام تھے۔ سرخ انقلاب تو وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ روس تک ہی محدود ہو گیا اور امریکی سامراج سرکاری سانڈ بن کر چوہدراہٹ کرنے لگا۔ان آنکھوں نے سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ امریکی سامراج بھی ایک دن اسی انجام کا شکار ہو گا یہ میرا یقین ہے۔ اب وہ دن دیکھنا مجھے نصیب ہوتا ہے یا نہیں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ زندگی کی ڈور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان کی سیاست میں بھی یہی حال ہے اور بقول شیخ رشید جو باہر نکلنے کے روادار نہیں تھے وہ در بدر ہو کر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ جو لوگ اگلے بیس سال تک عمران خان کو ہی وزیراعظم بنائے رکھنا چاہتے تھے اب منت ترلے پر آ گئے ہیں۔ اقتدار چیز ہی ایسی ہے کہ جب بندہ تخت پر ہو تو اسے کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی۔ کسی مارکیٹ کے چوکیدار کو اگر تھوڑی سی ہلا شیری دے دی جائے تو وہ کسی کو پاس سے گذرنے نہ دے۔
روس نے یوکرائن پر حملے کیا تو یہ باتیں ہونے لگیں کہ اب تیسری عالمی جنگ شروع ہونے جا رہی ہے۔ بہت سے لوگ ایک عرصہ سے تیسری جنگ شروع کرنے کی خواہش کر رہے ہیں۔ ان لوگوں نے شائد جنگ کی ہولناکیوں کو نہیں دیکھا ورنہ وہ یہ خواہش نہ کریں لیکن اس شر سے کوئی نہ کوئی خیر ضرور برآمد ہو گا۔ یوکرائین کو ہلا شیری دے کر روس کے مقابلے میں کھڑا کر دیا گیا ہے اور اسے تھپکی دی جا رہی ہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں مگر لڑائی تم نے لڑنا ہے ہم صرف تمہاری مدد کریں گے۔ ہنگامی بنیادوں پر یورپی یونین میں شامل ہونے کی درخواست مسترد ہو چکی ہے۔ یوکرائین نے توازن کو کھو دیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب وہ ایک لمبے عرصہ تک حالت جنگ میں رہے گا۔ یوکرائینی عوام کے ساتھ ساتھ یورپ کے عوام کو بھی یہ خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہو گا۔ روس کے خلاف امریکی اور برطانوی لڑنے کے لیے نہیں آئیں گے نہ ہی جرمنی اور فرانس اپنے لوگوں کو جنگ کا ایندھن بنائے گا۔ ہاں کرایے کے فوجی بھرتی کرنے کے لیے کام ہو رہا ہے اور یورپ کے ساتھ ساتھ روس بھی یہ بھرتیاں کر رہا ہے۔ ویسے بہتری اسی میں ہے کہ روس اور یوکرین دونوں امن والی حالت میں واپس آ جائیں اور یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے کا جو بخار چڑھا تھا وہ اتر جائے۔ دونوں ملک کسی ایسی صورتحال سے دوچار نہ ہوں کہ میں کمبل کو چھوڑ رہا ہوں کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا۔ امریکہ کی معاشی صورتحال پہلے ہی خراب ہے اس جنگ سے مزید
دباؤ میں آ جائے گی۔ روسی کرنسی روبل ڈالر کے مقابلے میں بہت نیچے آ گئی ہے۔ روس کے اکاؤنٹس منجمند ہو گئے ہیں۔ افغانستان کے اکاؤنٹس پہلے ہی امریکہ نے منجمد کر دیے تھے۔ اس خطے کا تیسرا ملک ایران ہے اس کی کرنسی بھی بہت نیچے چلی گئی ہے۔ پاکستان کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ امریکی معیشت کو ڈالر نے سہارا دے رکھا ہے۔ جو بھی سودا ہو گا وہ ڈالر میں ہو گا اور امریکہ دوسروں کی کرنسی پر عیش کرے گا۔ ایک عرصہ سے ایک اور متبادل کرنسی کی بات ہو رہی ہے تاکہ ڈالر کا توڑ کیا جا سکے۔ یورپ نے یورو شروع کیا تو بہت مخالفت ہوئی مگر اب وہ ایک مضبوط کرنسی کے طور پر موجود ہے۔ جن ممالک پر پابندیاں لگتی ہیں پھر وہ اپنے ہم خیال ممالک سے اپنی اپنی کرنسی میں سودے کرتے ہیں اور اب اس طرح کا ایک فیصلہ سعودی عرب اور چین نے کیا۔ سعودی عرب اپنا تیل چین کو اس کی کرنسی یوآن میں فروخت کرے گا اور باہمی تجارت کے لیے ایک دوسرے کی کرنسی کو قبول کیا جائے گا۔ جو بائیڈن کی غلط خارجہ پالیسی کی وجہ سے سعودی عرب اور خلیج کے دوسرے ممالک شدید ناراض ہیں اور یہ ناراضی اس حد تک ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ امارات کے حکمرانوں نے جو بائیڈن کی فون کال سننے سے انکا کر دیا۔ یوکرین کی جنگ شروع ہوئی تو بائیڈن کو سعودی عرب اور یو اے ای کی یاد آ گئی مگر عربوں نے کہا کہ اب نہیں۔
چین اپنی تیل کی پچیس فیصد ضروریات سعودی عرب سے پوری کرتا ہے۔ اسی طرح چین کی سعودی عرب کو برآمدات کا حجم بھی خاصا بڑا ہے۔ اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو اس کے بعد سعودی عرب اس طرح کے معاہدے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی کرے گا۔ گذشتہ چھ برسوں سے چین اور سعودی عرب باہمی تجارت اپنی اپنی کرنسی میں کرنے کے لیے مذاکرات کر رہے تھے تاہم اس برس ان مذاکرات میں اس لیے تیزی آئی ہے کہ امریکہ کا رویہ سعودی عرب کے ساتھ جارحانہ ہے اور امریکہ نے ان کی سلامتی کے لیے جو یقین دہانیاں کرائی تھیں ان کو پورا نہیں کیا۔ سعودی عرب یمن اور ایران کے حوالے سے امریکی کردار پر نالاں ہے۔ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ میں جب امریکہ نے روس کے اکاؤنٹس کو منجمد کر دیا تو سب کو یہ احساس ہوا کہ کسی بھی قضیے کی صورت میں امریکہ جب چاہے گا اکاؤنٹس منجمد کر دے گا۔ ایک صحافی کے قتل کے معاملے میں پہلے ہی سعودی عرب کے خلاف جو بائیڈن سخت رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ باقی ممالک بھی دیکھ رہے ہیں کہ ان کے خلاف بھی کوئی نہ کوئی معاملہ نکل سکتا ہے۔ امریکہ معیشت کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔اسی طرح امریکہ بھارت سے بھی ناراض ہے اور ناراضگی کی ایک وجہ بھارت اور روس میں ہونے والے فوجی سازو سامان کے معاہدے ہیں۔ بھارت نے بھی روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والی جنگ میں روس کے خلاف اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ اب روس نے بھارت کو انتہائی کم نرخوں پر تیل کے معاہدے کرنے کی پیش کش کی ہے اور اس پر بھی امریکی تلملا رہے ہیں۔
ڈالر کا سحر ٹوٹ رہا ہے اور چین کی پوری کوشش ہے کہ وہ اپنی کرنسی کو تبادلے کی کرنسی کے طور پر پیش کرے۔ روس، چین، ایران، افغانستان، پاکستان، بھارت بنگلہ دیش کے ممالک مل کر مشترکہ کرنسی کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خطہ سنٹرل ایشیا کے توانائی کے ذخائر سے بھی مستفید ہو سکتا ہے۔ طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد اس خطے میں نئی پائپ لائنوں کو تعمیر کر کے انرجی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
لگ رہا ہے کہ جو بائیڈن امریکہ کا گورباچوف ثابت ہو گا۔ امریکی آقاؤں کے اشارے پر دم ہلانے والا برطانیہ کا وزیراعظم فوری طور پر سعودی عرب پہنچا ہے تاکہ حالات کو سنبھالا دے سکے۔ سعودی عرب اور خلیج کے ممالک بھی امریکی چھتری سے نکلیں تو ڈالر کے ٹکہ ٹوکرا ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
وہ جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا
اب وہ روتا ہے چپ نہیں ہوتا

تبصرے بند ہیں.