قومی سیاسی افق پر چھائی دھند چھٹنے کو ہے؟

16

قومی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے حکمران جماعت ہو یا اس کے اتحادی، اپوزیشن بھی سردھڑ کی بازی لگا رہے ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو، کامیاب ہو، سردست کسی فریق کو ابھی تک اپنی کامیابی اور دوسرے کی ناکامی یا دوسرے کی کامیابی اور اپنی ناکامی کا یقین نہیں ہے ہر شے دھند میں لپٹی ہوئی ہے جوڑ توڑ جاری ہے، دعوتیں دی جا رہی ہیں، کھانے کھائے جا رہے ہیں، وعدے وعید ہو رہے ہیں، مطالبات پیش کئے جا رہے ہیں، کون کیا کرے گا، کس کے ساتھ ہو گا؟ کس کا ساتھ چھوڑے گا؟ ابھی تک کچھ پتا نہیں ہے؟ کنفیوژن ہے، ناامیدی ہے، بے قراری ہے، اضطراب ہے، یہودی سازش کی بھی باتیں ہو رہی ہیں، امریکہ کو ناراض کرنے/ہونے کی باتیں ہیں۔ امریکی سی آئی اے اور ہندوستانی ’را‘ کے فعال ہونے کی خبریں بھی گرم ہیں، سردست کسی فریق کی پوزیشن واضح نہیں ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات لگائے جا رہے ہیں، اپوزیشن کے 24 مارچ اور حکمران جماعت کے 27 مارچ کو ڈی چوک میں جلسہ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ تصادم کی فضا بنتی نظر آ رہی ہے، تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کی تاریخ بھی سامنے آ گئی ہے۔ 28 مارچ۔ لیکن کسی بھی فریق کی پوزیشن واضح نہیں ہے۔ ترین اور علیم گروپ بھی حتمی فیصلہ نہیں کر سکا ہے کہ وہ کس کے ساتھ رہے گا یاجائے گا۔ حکومت نے اپنی کامیابیوں کا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے۔ ہیلتھ کارڈ کے متعلق جذباتی فضا قائم کی جا رہی ہے۔ پاکستان کو دنیا کا سستا ملک ظاہر کرنے کی کاوشیں کی جا رہی ہیں۔ تعمیراتی پراجیکٹس کی باتیں ہو رہی ہیں۔ بلندوبانگ دعوے کئے جا رہے ہیں حالانکہ زمینی حقائق حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں ۔ بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتیں ہوں یا آٹا، دال، چاول اور سبزی و دیگر اشیاء صرف کی قیمتیں، آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کھانے کا تیل اور گھی عام آدمی کی پہنچ سے دور جا چکی ہیں۔ آمدنی کے ذرائع محدود ہو گئے ہیں، قدر زر میں کمی کے باعث قوت خرید گھٹ چکی ہے لیکن حکمران سائوتھ ایشیائی ممالک میں بھی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ممالک میں، پاکستان کو خطے کا سستا ترین ملک ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کہتے ہیں پٹرول، بجلی، گیس اور اشیاء صرف اور ضروریہ کی قیمتیں یہاں اب بھی کم ہیں ٹیکس اکٹھا کرنے میں ریکارڈ قائم ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حکومت نے کارکردگی کے بارے میں پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی، ترجمانوں اور وزراء نے بڑی یکسوئی اور بلند آہنگ کے ساتھ ترقی و خوشحالی کا راگ الاپنا شروع کر دیا لیکن کیونکہ زمینی حقائق اس کے برعکس تھے اس لئے یہ راگ زیادہ چل نہیں سکا۔ اسی دوران اپوزیشن نے ایک بار پھر وزیراعظم کے خلاف بلند آہنگ میں مہم شروع کر دی۔ حکومتی تنقید ایک بار پھر پیپلز پارٹی کو ن
لیگ اور مولانا کے قریب لے آئی۔ اس کے بعد جو معاملات چلنے شروع ہوئے تو بگڑتے ہی چلے گئے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے بعد حکمران اتحاد اور اپوزیشن کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔ ایک دوسرے سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں، وعدے وعید کئے جا رہے ہیں، دشمن قریب ہوتے نظر آ رہے ہیں اور دوست دور ہٹتے ہوئے لگتے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کے لئے درکار 172 ووٹ ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ حکمران جماعت کے ترین و علیم گروپ کے اراکین ان کے ساتھ نبھانے کے لئے تیار ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے کھل کر اس دعوے کی تائید نہیں کی ہے لیکن حکمران جماعت جس انداز میں اپنے ان مبینہ باغی اراکین کا راستہ روکنے کی کاوشیں کرتی دکھائی دے رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ اپوزیشن کا دعویٰ شاید سچ ہے۔
دوسری طرف چودھری برادران کے ساتھ فضل الرحمن، آصف علی زرداری اور شہباز شریف نے ملاقاتیں کر کے سیاسی کھیل کا میدان وسیع کر دیا ہے پھر پی ٹی آئی کی قیادت نے چودھری برادران سے رابطے کئے، ملاقاتیں کیں اور ان سے ساتھ رہنے کا وعدہ لینے کی کوشش کی لیکن ایسے لگتا ہے کہ معاملات طے نہیں ہو سکے۔ اپوزیشن نے انہیں وزارت اعلیٰ کی پیشکش کی جبکہ حکمران جماعت نے کہا کہ اگر وہ یعنی ق لیگ، پی ٹی آئی میں ضم ہو جائے تو انہیں وزیراعلیٰ بنایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم جن کے ساتھ ملاقات نہیں کرتے تھے ان کے پاس ملاقاتوں کے لئے حاضر ہونے لگے ہیں۔ انہوں نے اپنی عوامی مقبولیت کا ثبوت دینے کے لئے جلسے بھی کرنا شروع کردیئے ہیں۔ گویا انہیں احساس ہو گیا ہے کہ معاملات ان کے ہاتھوں سے نکل رہے ہیں۔ تقاریر کے دوران ان کی بوکھلاہٹ اور جھنجھلاہٹ اس بات کی غماز ہے کہ وہ فی الحقیقت پریشان ہیں اتحادیوں سے ملاقاتیں بھی کر رہے ہیں، اپنے باقی ممبران کو دھمکیاں بھی لگا رہے ہیں، رائے شماری کے وقت ڈی چوک میں دس لاکھ کارکنان کو جمع کرنے کا اعلان، اس بات کا غماز ہے کہ پی ٹی آئی معاملات کو پوائنٹ آف نوریٹرن کی طرف لے جانا چاہ رہی ہے۔ رہی سہی کسر مولانا فضل الرحمن کے 24 مارچ کو دھرنا دینے کے اعلان نے نکال دی ہے۔ اپوزیشن کا یہ دھرنا کب تک جاری رہے گا اس کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ گویا اسلام آباد کا ڈی چوک حکمران جماعت اور اپوزیشن کا میدان جنگ بننے جا رہا ہے۔
حکمران اتحاد کے باخبر وزیر فواد چودھری کا کہنا ہے کہ ’’دیکھتے ہیں تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری تک بات پہنچتی بھی ہے یا نہیں‘‘ بڑی اہم لگتی ہے۔ ابھی تک اپوزیشن اپنی عددی برتری یعنی 172 ووٹ ثابت نہیں کر سکی ہے معاملات چل رہے ہیں۔ حکمران جماعت کے باغی ارکان، جن کے بارے میں اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں، ابھی تک ’’اعلانیہ باغی‘‘ قرار نہیں پائے ہیں۔ اتحادی جماعتیں بشمول ق لیگ، ایم کیو ایم، باپ اور جی ڈی اے اپنی اپنی جگہ پرکھڑی ہیں سلسلہ جنبانی جاری ہے۔ اپوزیشن سے بھی ملاقاتیں جاری ہیں اور حکمران جماعت کی قیادت سے بھی گلے شکوے جاری ہیں، اشارے دیئے جا رہے ہیں۔ سیاسی بیانات کی بھی بھرمار ہے، کھانے کھائے بھی جا رہے ہیں اور کھلائے بھی جا رہے ہیں لیکن انہوں نے ابھی تک اپنی سابقہ پوزیشن نہیں بدلی ہے۔ گویا حکمران اتحاد سردست قائم ہے اور عمران خان کی حکومت کھڑی ہے لیکن ایسے لگ رہا ہے کہ دونوں فریقین کو اپنی اپنی موجودہ پوزیشن کے بارے میں یقین کامل ہے کہ وہ بدلنے والی ہے اس لئے اضطراب دیکھنے میں آ رہا ہے اور کھیل کو اسمبلی سے باہر کھیلنے کے اعلانات ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے اسمبلی میں ہونے والے فیصلے، سڑکوں پر کرنے کی سوچ کسی طور بھی مستحسن نہیں ہے۔ پاکستان کے اندرونی حالات زیادہ مستحکم نہیں ہیں۔ ہمارا دشمن بھی چوکس ہے۔ خطے میں بھی بے اطمینانی پائی جاتی ہے۔ عالمی حالات میں بھی کشیدگی ہے ایسے مجموعی منظر میں پاکستان کسی قسم کے عدم استحکام کو برداشت نہیں کر پائے گا۔ لیکن لگتا ہے کہ فریقین نے طے کر لیا ہے کہ ’’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘۔

تبصرے بند ہیں.