آجکل عدم اعتماد کی سیاست کا موسم ہے اور اس کے رنگ بھی عجیب ہیں اور سیاستدانوں کی قلابازیاں بھی قابل دید ہیں۔ وطن عزیز میں یہ کوئی پہلی عدم اعتماد کی تحریک نہیں ہے ماضی میں بھی یہ تحاریک آتی رہیں ان میں ہارس ٹریڈنگ بھی ہوتی رہی، چھانگامانگا اور مری و سوات میں ممبران کو باڑوں میں رکھ کر مویشی منڈی کی طرح سودے بازی بھی ہوتی رہی لیکن صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق سب کچھ پردے میں ہوتا رہا لیکن کبھی بھی اس کا اعتراف کسی نے نہ کیا۔ لیکن اس عدم اعتماد کی تحریک میں مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما قومی میڈیا پر آکر ممبران کی خریدو فروخت اور ہارس ٹریڈنگ کا برملا اعتراف کر رہے ہیں لیکن الیکشن کمیشن سمیت تمام ادارے اس پر چپ سادھے ہیں۔ ماضی دیکیھیں تو آصف زرداری عدم اعتماد اور ہارس ٹریڈنگ کی سیاست میں مسلم لیگ ن کے خلاف ایک جنگ جیت چکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودی عدم اعتماد کی تحریک میں کیا کھیل کھیلتے ہیں۔
بعض حکومتی اقدامات پر الیکشن کمیشن نوٹس پر نوٹس کی وجہ تو سمجھ آتی ہے لیکن جاوید لطیف کے ایک ٹی وی پروگرام میں ہارس ٹریڈنگ کے اعترافی بیان پر الیکشن کمیشن کی خاموشی سمجھ سے بالا تر ہے۔ اگر ان کا رویہ یہی رہا تو ماضی کی طرح اس رویے سے ہارس ٹریڈنگ کی حوصلہ افزائی ہو گی اور ہمارے ممبران بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔ پھر اتحادیوں کی تین سال اقتدار کے مزے لوٹنے حکومت کے ہر اچھے برے میں شریک جرم ہونے کے بعد کچھ ’’اور‘‘ کی تلاش میں نئے اتحادی ڈھونڈ رہی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے کچھ اراکین کا دعوی ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک سے قبل ہی الیکشن کمیشن وزیر اعظم عمران خان کی الیکشن کمیشن کی ہدایات کو نظر انداز کرنے کی پاداش میں ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت ہی معطل کر دے گی اس کا جواب تو الیکشن کمیشن ہی دے گا لیکن یہ دعوی بھی از خود غور طلب ہے۔ اتحادیوں کی سیاست دیکھ کر ایک بات طے ہے کہ موجودہ عدم اعتماد کی تحریک نے ہماری سیاسی اشرافیہ کو اخلاقی طور پر ننگا کر دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن نے اب تک حکومت پر ہارس ٹریڈنگ کا کوئی الزام نہیں لگایا لیکن وفاقی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان اس کی بار بار نشاندہی کر چکے ہیں اور اس حوالے سے اسلام آباد میں سندھ ہائوس کو ان سرگرمیوں کا مرکز بھی قرار دے چکے ہیں۔ لیکن الیکشن کمیشن ٹس سے مس نہیں ہورہا البتہ وزیر اعظم کو نوٹس پر نوٹس دینے کے کسی موقع کوہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔
دوسری طرف حکومتی وزراء بھی جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں اور 27 مارچ کے ڈی چوک کے جلسے کے اعلان سے صورتحال مزید سنگین ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس کے جواب میں اپوزیشن نے بھی اسی روز اسلام آباد میں پڑائو کا اعلان کر دیا ہے جس کا واضع مطلب تصادم ہے جو کسی کے مفادمیں نہ ہو گا۔ کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ یہ نہ ہو کہ یہ لڑائی سسٹم کو ہی لپیٹ میں نہ لے لے۔
موجودہ عدم اعتماد کی تحریک نے سیاسی جماعتوں کے اندرونی اختلافات بھی واضع کر دیے ہیں مسلم لیگ ن کے محسن رانجھا اور عظمی بخاری اپنی ہی جماعت کے حمزہ شہباز کو بطور امیدوار وزیر اعلی ہی ماننے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں دس سیٹوں والی ق لیگ جس کی پہچان دائو ماری کی سیاست ہے دھڑلے سے وزارت اعلی کی امیدوار بنی بیٹھی ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں ق لیگ کے چوہدری پرویز الٰہی جو وزیراعلیٰ بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں نے جو گولہ باری اپنی اتحادی جماعت اور وزیر اعظم پر کی ہے سے ثابت ہوتا کہ سیاست میں وفاداری اور اخلاقیات کی کوئی حیثیت نہیں۔ گو کہ انہوں نے اپنے انٹرویو بارے وضاحتی بیان جاری کر دیا ہے لیکن یہ وضاحت بھی از خود کئی تنازعات کو جنم دے گئی ہے۔ کیا پرویز الٰہی کا تین سال تک نیپی بدلے جانے کا بیان بھی فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی بھونڈی کوشش نہیں ہے؟ چودھری پرویز الٰہی پورے انٹرویو میں مسلم لیگ ن کی روٹی شوٹی کھانے کی دعوت رد کرنے کے بعد شدید دبائو کا شکار نظر آئے۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ کتنی بڑی سیاسی غلطی کر گئے۔ وہ شدید سیاسی محرومی کا شکار نظر آئے۔ شاید اسی شدید سیاسی دباؤ کی وجہ سے انہوں نے انٹرویو میں سخت زبان استعمال کی، فوج پر الزامات لگائے،سیاسی طور پر غلط اندازے لگا کر نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے،نہ ہی وضع داری بچی،اب سیاست بچانے کے لیے ایسے سخت بیانات دے رہے ہیں تاکہ اداروں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں،بتاؤ آگے کیا کریں۔ پرویز الٰہی تو وزارت اعلیٰ کے لیے اتنے امید سے ہیں کہ لاہور بھر میں اشتہاری مہم شروع کر رکھی ہے۔
عدم اعتماد کا جو بھی فیصلہ ہو وہ تو وقت آنے پر ہو گا لیکن جو کچھ ہمارے حکومتی اور اپوزیشن کے سیاستدان نیشنل میڈیا پر آکر انکشافات کر رہے کہ اس سے قوم ہیجان میں مبتلا ہو گئی ہے۔ بہتر ہے کہ اس کا جلد از جلد فیصلہ ہو۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.