وضع داری ،رکھ رکھائو اور احترام کی اچھی روایات قصہ پارینہ بننے سے ہی جمہوری اقدار کمزورہیں ملک میں جمہوریت کی آبیاری کی بجائے حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے اقتدار بچانے اور حاصل کرنے کی جنگ ہے اِس جنگ میںدونوں طرف سے جمہوری سوچ و فکر اوراصولوں کی جی بھر کر مٹی پلید کی جارہی ہے جمہوریت کے دعویدارڈھٹائی سے غیر جمہوری چالیں چل رہے ہیں تحریکِ عدمِ اعتمادپر کاروائی کا مجاز اِدارہ قومی اسمبلی ہے اوراِس تحریک کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ممبرانِ قومی اسمبلی نے کرنا ہے مگرایوان سے باہر جلسوں، ذرائع ابلاغ اورسوشل میڈیاپر بھی تاک تاک کر ایک دوسرے کو نشانہ بنایا جارہاہے اخلاقی قدروںکی پاسداری کی بجائے ایک دوسرے کو چور،ڈاکو،کرپٹ جیسے القابات سے پکاراجا رہا ہے کچھ تو سیاسی مخالف کو غدار تک کا لقب دینے لگے ہیں یہ ایسی بدروایات ہیں جو سیاسی منظر نامے کومزید پراگندہ کررہی ہے حالانکہ ہار اورجیت تو وقتی ہوتی ہے جس کے لیے سیاسی ماحول زہر آلود کرنا جمہوریت کی خدمت نہیں۔
حکومت نے پہلے کوشش کی کہ کسی طرح عدمِ اعتماد کی تحریک پرگنتی کی نوبت نہ آنے دی جائے کیونکہ حکمران جماعت کے منحرف اراکین موجودہ فتح کو شکست میں بدل سکتے ہیں اِس حوالے سے اسپیکر اسد قیصر خاصے سرگرم رہے اور کسی طرح منحرف ممبران شمار کرنے سے پہلے ہی فلورکراسنگ کے تحت خلاف کاروائی کرکے اسمبلی رُکنیت ختم کر نے کا جواز تلاش کرتے رہے مگر بات نہ بنی قانونی موشگافیوں کے ماہرین بھی تلاش کے باوجود کوئی ایسی شق پیش نہ کر سکے فلورکراسنگ کے قانون کے تحت تبھی کاروائی ممکن ہے جب کوئی پارٹی پالیسی کے خلاف گیا ہو جس نے ایسا کچھ کیا ہی نہیں اُسے محض اِس خدشے کی بنا پر اسمبلی سے باہر نہیں کیا جاسکتا جماعت کی پالیسی کے خلاف جانے سے ہی کسی ممبر کے خلاف فلورکراسنگ کے تحت نااہلی کی کاروائی ممکن ہے مگر ہراس کا شکار حکومت کو اپنے ممبران پر اعتماد نہیں اوروہ حیلے بہانوں سے اجلاس سے قبل ہی عدمِ اعتماد کی تحریک پر کسی نوعیت کا فیصلہ حاصل کرنے کی خواہشمندہے۔
عدمِ اعتماد کی تحریک اقتدار کی پُرامن تبدیلی کا ایک آئینی راستہ ہے جسے کسی صورت غیر جمہوری نہیں کہہ سکتے جب بات آئین اور قانون کی ہو تو فرض شناس اسپیکر حاصل اختیارات کے مطابق راہ فرارتلاش کرنے کی بجائے فرائض سرانجام دیتا ہے ماضی میں بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پیش ہوئی جس کے دوران ملک معراج خالد نے کمال مہارت کا مظاہرہ کیا حالانکہ حکومتی حلقے اُن کی جماعت سے وفاداری کے متعلق شبہات کا شکار تھے لیکن انھوں نے خلافِ آئین اور قانون کوئی کام کرنے سے صاف انکارکردیا بعدا زاں تحریک کی ناکامی پر بے نظیر بھٹو کواپنے اسپیکر کی تحسین کرنا پڑی اسد قیصر کا بھی فرض ہے کہ حکومت کو ایوان کی کاروائی کو شاہراہوں پر نہ لے جانے پر قائل کریں یہ جو وزیر مشیر غیر جمہوری چالوں پر بضدہیں وہ ملک ،جمہوریت اور حکمران جماعت سے مخلص نہیں کیونکہ
آئین و قانون سے انحراف کرتے ہوئے اگر تصادم اور افراتفری کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے توسب سے زیادہ نقصان حکومت کا ہی ہو سکتا ہے۔
حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کے لیے نت نئے دائو پیج لڑارہی ہیں حکومت کی عدمِ اعتماد کی تحریک پر گنتی کا موقع نہ آنے دینے کی چالیں ناکام ہو چکیں کیونکہ اسمبلی سیکرٹریٹ نے اسپیکر کو تفصیلی آگاہ کر تے ہوئے اختیارات کی حدود و قیود بھی بتا دی ہیں کہ اسمبلی اجلاس کو روکنا اور جماعتی پالیسی کے خلاف جانے سے پہلے کسی کے خلاف کاروائی کرنے کا کوئی طریقہ کار نہیں تو اربابِ اختیار نے 28مارچ کو عدمِ اعتماد کی تحریک پر گنتی سے ایک دن قبل یعنی27مارچ کودس لاکھ کارکنوں کا ڈی چوک اسلام آباد پر جلسہ رکھ لیا تاکہ کوئی منحرف اسمبلی ممبر اگرحکومت کے خلاف ووٹ دینے آئے تو بزورِ طاقت روکاجا سکے یہ تجویز جس کسی نے پیش کی ہے وہ حکومت کاخیرخواہ نہیں بدترین مخالف ہے اِس تجویز کو جنھوں نے منظور کیا وہ بھی فہم و فراست سے عاری ہیں کیونکہ اگر حکمران جماعت کو عوام میں پزیرائی حاصل ہے تو اپوزیشن کی سوچ سے متفق بھی کم تعداد نہیں مولانا فضل الرحمٰن نے اسی لیے حکومتی جلسے 27مارچ سے چاردن پہلے ہی 23مارچ کو کارکنوں کو لانگ مارچ کے لیے نکلنے کا کہہ دیا ہے جس کی ن لیگ نے بھی تائید کر دی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو ملک میں ٹکرائو اور خانہ جنگی کا خدشہ بڑھ جائے گا ایسی صورتحال مداخلت کے لیے آئیڈیل ہوتی ہے اسی لیے غیر جمہوری چالوں سے ملک کا بڑا طبقہ مضطر ب اور دونوں فریقوں کو قواعد وضوابط کے اندر رہنے کا مشورہ دے رہا ہے کیونکہ نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے جیسی سوچ غیر جمہوری چال کے ساتھ ملکی سلامتی کے بھی خلاف ہے۔
اپوزیشن کے ساتھ اتحادی بھی حکومتی حلقوں کے نشانے پر ہیں اسی بنا پر فہمیدہ حلقے کہتے ہیں کہ شاید اتحادی حکومت سے الگ نہ ہوتے مگر غیر دانشمند وزیراُنھیں الگ ہونے پر مجبورکررہے ہیںاگر وزیرِ اعظم بولتے وقت احتیاط نہیں کرتے تو وزیرومشیر بھی اسی روش پر عمل پیرا ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ق ،ایم کیو ایم ،جی ڈی اے اور بلوچستان عوامی پارٹی ایک پیج پر آئیں ایم کیوایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان تو معاملات تقریباََ طے پا چکے اگروفاقی حکومت کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا نیز حکومتی جماعت میں بننے والے گروپ اگرجلد ختم نہیں ہوتے تومسلم لیگ ق اور بی اے پی بھی راہیں جدا کر نے کا اعلان کرسکتی ہیں یہ درست ہے کہ شریف خاندان اور چوہدری خاندان ابھی ایک دوسرے پر اعتماد کرنے میں ہچکچا رہے ہیں مگر آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کی طرف سے گارنٹر بننے کی صورت میں بداعتمادی کی فضا ختم ہو سکتی ہے تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار حکمران جماعت کے رویے پر ہے لیکن وہ جمہوری حُسن اختلافِ رائے کو سیاسی دشمنی بنانے پر بضدہے ۔
کوئی بھی اتحادی جماعت حکومتی رویے سے خوش نہیں معاہدے کے مطابق مسلم لیگ ق کو مرکز میں دوسری وزارت دینے میں دانستہ طور پر تاخیر کی گئی اسی طرح ایم کیو ایم کے اکابرین ایک وزیر کے متعلق کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اُس کا جماعت سے دورکا واسطہ نہیں لہذا ہمارے کھاتے میں شمار نہ کیا جائے لیکن حکمران اشرافیہ توجہ دینے پر تیار نہیں بی اے پی کو بلوچستان حکومت اور مرکز سے کئی ایک تحفظات ہیں جنھیں سننے اور دورکرنے کی کبھی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی جی ڈی اے کی فہمیدہ مرزا بھی حکومتی رویے سے ناخوش ہیں جنھیں عمران خان نے پارلیمنٹ لاجز جا کر منانے کی اپنی سی کوشش تو کی لیکن بات نہیں بن سکی بلکہ مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور جی ڈی اے اتفاق سے سیاسی مستقبل کے فیصلے کررہی ہیں اسی تناظر میں اپوزیشن کی طرف سے چوہدری پرویز الٰہی کو وزارتِ اعلٰی کی پیشکش کردی گئی اِس پیشکش نے سیاسی سمندر میں جواربھاٹے کی کیفیت پیدا کر دی ہے جس کے بعد تحریکِ عدمِ اعتماد کے بارے میں متوقع فیصلہ سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہا بلکہ عین ممکن ہے دیگر جماعتوں کی تذلیل کرنے کا مشغلہ رکھنے والے حکمران اپنی تذلیل کاموقع دینے سے قبل ہی رُخصت ہو جائیں تحریکِ عدمِ اعتمادکے بارے جو بھی فیصلہ ہو یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری کرتی دکھائی نہیں دیتیں اور کسی وقت بھی عام انتخابات کا نقارہ بج سکتا ہے مگر یہ طے ہے کہ غیر جمہوری چالیں چل کرجمہوریت کو کمزور کرنے کے ساتھ سیاسی قیادت اپنی ساکھ داغدارکر رہی ہے اِن غیر جمہوری چالوں کا اثرختم کرنا اور داغوں کو دھونا اور مٹانا آسان نہیں ہو گا ۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.