بازی کس کی؟

31

جب سے تحریک انصاف نے ملک میں حکومت سنبھالی ہے، ایک ہی چیز دیکھی ہے وہ ہے وزیر اعظم صاحب کا رونا کہ ماضی کے چور حکمران ملک لوٹ کر لے گئے، ملک کے خزانے میں کچھ نہیں چھوڑا، عوام کے ساتھ زیادتی کی گئی اور ان چوروں کو این آر او نہیں دوں گا۔ 2018 سے ہم یہی سنتے آ رہے ہیں، اس کے علاوہ کوئی خاص بات سنی نہیں ہم نے۔
اب تو عوام کے بھی کان پک چکے ہیں یہ سب باتیں سن سن کر بلکہ وزیر اعظم کے ان الفاظ سے پاکستان کا بچہ بچہ واقف ہو چکا ہے۔ کوئی بھی جلسہ ہو یا کوئی بھی تقریب، یہ فقرے وزیراعظم کی تقریر کا حصہ ضرور ہوتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ عمران خان کی تقریر کا لازمی حصہ ہے یہ باتیں۔ اس کے علاوہ تو لگتا ہے وزیراعظم کو تقریر کرنے کا مزا بالکل نہیں آتا۔
ہم تو یہ بچپن سے ہی دیکھتے آ رہے ہیں کہ اقتدار میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ ماضی کی حکومت کو چور ڈاکو ضرور کہتی ہے اور یہی کہتی ہے کہ ماضی کی حکومت ملک کا کوئی حال نہیں چھوڑا اور اب ملک کو سنوارنے کے لیے ہمیں مزید قرضے لینا ہوں گے۔ ہم ملک کو بہتر کریں گے قرضے لے کر مگر جب قرضے لیے جاتے ہیں، مہنگائی ہوتی ہے اور پھر حکومت کے جانے کا وقت آ جاتا ہے اور ملک وہیں کا وہیں کھڑا نظر آتا ہے بلکہ ملک کے حالات اور بُرے ہو جاتے ہیں اور عوام اور زیادہ دلدل میں پھنس جاتی ہے اور اگلا اقتدار کسی اور کو مل جاتا ہے اور نئی آنے والی حکومت کے بھی وہی پرانے رونے۔
تو اب بات کریں اگر موجودہ حکومت کی ہم نے پی ٹی آئی کو بھی بس روتے ہی دیکھا ہے اور کوئی خوشی کی بات تو میں سمجھتی ہوں آج تک سنائی ہی نہیں اور حکومت کہتی ہے کہ ہمیں پتا ہی نہیں تھا ملک کے خزانے کو ماضی کی حکومت نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اس حد تک بُری طرح نوچ کر کھایا ہے کہ خزانے کو بُری طرح کھوکھلا کر دیا ہے جیسا کہ نون لیگ کے بارے میں مشہور کیا گیا تھا کہ نوازشریف سڑکیں بنانے کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ اس میں آپ بڑے پیمانے پر کرپشن کر سکتے ہیں مگر بات یہ ہے کہ یہاں کے عوام کو کچھ نہ کچھ دے کر تو گئے، بے شک سڑکوں کا انفراسٹرکچر ٹھیک کر کے ہی سہی۔
حکومت کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن نے کہا کہ ہم ملک کے عوام کو رونے نہیں دیں گے جنہوں نے اپنے دور حکومت میں عوام کو بے شک کبھی پوچھا نہ ہو جن کے حلقے کے ایم این اے، ایم پی اے اپنے دور اقتدار میں اپنے حلقے کے لوگوں کا فون سننا تک پسند نہیں کرتے، ان کو بھی اب عوام کا خیال آ گیا۔
پیپلزپارٹی نے باقی پارٹیوں کو کہا کہ ہم پی ڈی ایم بناتے ہیں اور ملک کے عوام کو نیازی کے شر سے نجات دلاتے ہیں۔ دراصل پی ڈی ایم کی تجویز پیپلزپارٹی کی ہی تھی اور پی ڈی ایم کا سربراہ مولانا فضل الرحمن صاحب کو منتخب کیا اور عوام کو بچانے کے لیے پی ڈی ایم سڑکوں پر نکل آئے اور جلسے جلوس نکالے حکومت نے اسی وقت کہنا شروع کر دیا پی ڈی ایم ناکام ہوگئی ہے۔ کچھ عرصہ بعد ہی ہم نے دیکھا کہ پی ڈی ایم میں ایک بڑی تبدیلی ہوئی وہ یہ کہ پیپلز پارٹی جس کی پی ڈی ایم بنانے کی تجویز تھی، وہی اس اپوزیشن کے اتحاد سے الگ دکھائی دینے لگی اور خاموش خاموش تھی۔ حکومت بہت خوش ہوئی کہ پی ڈی ایم ناکام ہو گئی ہے اب وہ کچھ اس طرح کہ پی ڈی ایم کچھ عرصہ خاموش رہنے کے بعد آج کل دوبارہ بہت ایکٹیو دکھائی دے رہی ہے اور اب اپوزیشن لے کر آ چکی ہے تحریک عدم اعتماد۔
حکومت کہتی ہے کہ اپوزیشن اپنی آخری سانسوں پر ہے اور یہ اپوزیشن کا آخری پتہ ہے جو اپوزیشن کھیل رہی ہے اور پی ڈی ایم اس میں بھی ناکام ہو جائے گی۔ مگر بات یہ ہے کہ اگر اپوزیشن آخری سانسوں پر ہے تو حکومت کو کس چیز کا خوف ہے۔ حکومت کے بڑے بڑے لوگ جن کو وزیراعظم عمران خان کا اے ٹی ایم کہا جاتا تھا نواز شریف سے لندن میں ملاقات کے لیے کیوں پہنچے، اور ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا؟
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اپوزیشن آخری سانسوں پر ہے تو پارلیمنٹ لاجز میں پولیس کو بھیج کر گرفتاریاں کیوں کرائیں؟ پورے ملک میں ایک سنسنی کیوں پیدا کی وہ بھی پورے 9 گھنٹے کا ایک تماشا برپا کیا گیا اور کہا جا رہا ہے کسی کو پارلیمنٹ لاجز میں غیر قانونی عمل نہیں کرنے دیں گے۔ اپوزیشن کا ایک اور الزام ہے حکومت پر کہ ہمیں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شیخ رشید صاحب نے کہا کہ پارلیمنٹ لاجز میں ملاقات کے لیے آئے لوگ کون تھے؟ اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس دن تحریک عدم اعتماد کا دن ہے اس دن پارلیمنٹ کی سکیورٹی کی ذمہ داری ہم رینجرز کو سونپ دیں گے۔
اور اگر بات کریں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے ووٹ کی، تو اپوزیشن کے کچھ اراکین نمبر آف گیم پر خاموشی اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کچھ بڑی گرم جوشی سے کہتے ہیں کہ ہمارے اراکین پورے ہیں۔ خیر وہ وقت دور نہیں جلد ہی پتہ چل جائے گا کہ شکست کس کو ہو گی حکومت کو یا اپوزیشن کو۔۔۔

تبصرے بند ہیں.