دوستو،ملک میں جو سیاسی اتھل پتھل ہورہی ہے، سوشل میڈیا پر سیاسی کارکنان جو ایک دوسرے کے لیڈران کی لترول کررہے ہیں،سیاسی لیڈران جس طرح کی زبان ایک دوسرے کے خلاف استعمال کررہے ہیں، ملک کی خاموش اکثریت اور سنجیدہ طبقہ اس کا شدید مخالف ہے،لوگ ہم سے پوچھ رہے ہیں یہ سب ہوکیارہا ہے؟ ہم انہیں کہتے ہیں۔۔سیاست اب ’’سیاہ۔ست‘‘ ہوچکی ہے۔۔ لیکن ان سب کے باوجود ہم خود بھی ہمیشہ مثبت سوچ رکھتے ہیں اور گھبرانے والوں کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ۔۔بی پازیٹیو۔۔لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی کا کہنا ہے۔۔سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے جو شخص غصے یا گالی کو کنٹرول کرلے وہ ’’ولی ‘‘ہے یا پھر خود ان حالات کا ذمہ دار۔۔۔اس لئے ہم غصہ کررہے ہیں نہ ہی گالی دے رہے ہیں،البتہ آج سیاست کے حوالے سے کچھ ہلکی پھلکی باتیں کررہے ہیں، کیوں کہ فی زمانہ سیاست اور مذہب دو ایسے موضوعات ہیں جن پر بات کرتے ہوئے فریقین کا پارہ اچانک ہائی ہوجاتا ہے اور بات اتنی بڑھ جاتی ہے کہ تلخ کلامی سے ماراماری تک جاپہنچتی ہے۔۔ ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ آج کل گھوڑے اور گدھے میں کوئی فرق نہیں۔۔ کیوں کہ اسمبلیوں میں جب ووٹوں کی خریدوفروخت ہوتی ہے تو اکثریت ’’ہارس‘‘ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے اسے ہارس ٹریڈنگ یعنی گھوڑوں کی تجارت کہاجاتا ہے ، اور جب ان لوگوں کا کوئی کام پھنس جائے تو یہ گدھے کو بھی باپ بنالیتے ہیں، اس لئے گدھے ہی کہلاتے ہیں۔۔آپ نے شاید نوٹ کیا ہوگا کہ زیادہ ترخاندانوں میں ’’ماموں‘‘ صدرممنون حسین کی طرح بے ضرر اور ’’پھوپھیاں‘‘ شیخ رشید کی طرح چراندی ہوتے ہیں،جو کسی حال میں خوش نہیں رہ سکتیں۔۔ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں کہ ۔۔ شکر ہے نون لیگ نے سڑکیں بناڈالیں ورنہ بچے کہاں پیدا ہوتے؟۔۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ یہاں مذہبی جماعتوں کا اتحاد بھی ’’وضوــ‘‘ کی طرح ہوتا ہے، جو کسی بھی وقت ٹوٹ جاتا ہے۔۔سب سے زیادہ سچے عاشقِ رسول، سب سے زیادہ مدرسے اور سب سے زیادہ حافظ قرآن ہونے کے باوجود بھی پاکستان ایمانداری میں 160 ویں نمبر پر ہے۔۔کپتان کو بھی سلام ہے ،عمران خان نے بھی کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑا، ہر کرپٹ کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی پارٹی میں شامل کر تا رہا، اب وہی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناکر حکومت کی ’’نماز‘‘ پڑھانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔۔
ایک بڑبولے قسم کے وزیرکو ڈینگیں مارنے کی عادت تھی، ایک ’’گیدرنگ‘‘ میں لمبی لمبی ’’پھینک‘‘ رہے تھے، کہنے لگے، پچھلے دنوں اپنے مکان کی تعمیر کے لئے مجھے اپنے گاؤں جانا پڑا۔۔جب زمین کھدوائی گئی تو بجلی کی تاریں دستیاب ہوئیں۔۔اور بجلی کی وہ تاریں اندازا دو تین ہزار سال پرانی تھیں۔۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دو تین ہزار سال پہلے بھی ہمارے گاؤں میں بجلی موجود تھی ۔۔ان کے ایک دوست جن کا فیصل آباد سے شاید تعلق تھا کمال متانت سے برجستہ بولے۔۔ جی ہاں، اور میں نے اپنا مکان بنوانے کے لئے جب زمین کھدوائی تو کچھ بھی نہیں ملا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پرانے وقتوں میں ہمارے گاؤں میں موبائل فون استعمال کیا جاتا تھا۔۔کلاس میں اردو گرامر کا پیریڈ چل رہا تھا، ٹیچر نے بچوں سے سوال کیا، بچو، میں جملہ بولتا ہوں، آپ بتائیں گرامر کی رُو سے یہ کون سا زمانہ ہے؟؟ میں رو رہا ہوں۔۔تم رو رہے ہو۔۔ہم رو رہے ہیں ۔۔اب بتاؤ یہ گرائمر کی رو سے کونسا زمانہ ہے ؟بچوں نے یک زبان ہوکر جواب دیا۔۔ جناب،یہ تو پی ٹی آئی کا زمانہ ہے۔۔کہتے ہیں،مرد ہمیشہ عورت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب سمجھ آتی ہے۔تو لگ سمجھ جاتی ہے۔۔بس اب جملے میں مرد کی جگہ عوام اور عورت کی جگہ حکومت کو کرلیں، اور ایک بار پھر اس جملے کا لطف اٹھائیں۔۔
اس حکومت میں میڈیا سے مسلسل یہ مطالبہ کیاجاتارہا کہ وہ مثبت خبریں دکھائیں، ہم بھی اسی کے حق میں ہیں، الجبرا کا ایک اصول ، ایک قانون اور ایک ضابطہ بچپن سے پڑھتے آئے ہیں کہ دو منفی چیزیں بن کر ایک مثبت بنتا ہے، اسی فارمولے کے تحت دو منفی خبریں مل کر ایک مثبت خبر بن سکتی ہے، کوشش تو کرکے دیکھئے۔۔ آج ہم بھی آپ کو مثبت خبریں دیں گے، مثبت خبریں کس طرح دی جاسکتی ہیں اس بارے میں بتانے کی کوشش کرینگے جس کے لئے تعاون ہے بی پازیٹیو والوں کا۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے،مثبت خبریں دسمبر اکہتر کی ان ہی تاریخوں میں خوب پھیلائی گئیں ،لیکن پھر سب ٹھس ہو گیا۔۔ایک مثبت خبر تو یہ بھی نوٹ کرلیں کہ نوازشریف نے مہنگائی کو مصنوعی طور پر روک کر معیشت کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔۔اللہ کا شکر ہے تحریک انصاف نے آکر چیزوں کی اصلی قیمتیں بحال کرکے ملک کو درست ٹریک پرچڑھادیاہے۔۔ ہم نے ایک ’’یوتھیئے‘‘ سے کہا، دیکھو بھائی ڈالر کتنا اوپر چلا گیا ہے، تو یوتھیا بولا۔۔ جانے دو ایک دن سب نے اوپر ہی جانا ہے۔۔ سبحان اللہ کیا شرعی جواب دیا ہے، بے شک سب کو ایک دن اوپر ہی جانا ہے لیکن ڈالر کچھ زیادہ جلدی ہی بہت اوپر چلا گیا ہے۔۔سرکاری ملازمین تو اس مثبت خبر کا بڑی شدت سے انتظار کررہے ہیں کہ وزیراعظم نے تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہیں دگنی کرنے ۔۔ اور جمعہ ہفتہ اتوار تین روز ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کردیا۔۔جس طرح کے حالات چل رہے ہیں امید کی جاسکتی ہے کہ یہ اعلان بھی ہمارا کپتان جلد کرسکتا ہے۔۔جب یہ کالم ہم لکھ رہے تھے، اسی دوران فیس بک پر کسی لڑکی کا میسیج اچانک سے آیا،السلام علیکم کیسے ہیں ؟آپ کی پوسٹ بہت اچھی لگتی ہیں۔۔جی وعلیکم،شکریہ۔۔اگلا سوال آیا، آپ کرتے کیا ہیں؟؟ اسے بتایا کہ موبائل چارج کر کے واٹس ایپ چلاتا ہوں۔۔پوچھا گیا میرا مطلب کوئی اسٹڈی وغیرہ کرتے ہیں؟ اسے بتایا جی،یہی کام ہے میرا بس،واٹس ایپ چلانا۔۔اس نے پھر پوچھا تو جب فری ہوتے ہیں تو پھر کیا کرتے ہیں؟ اسے بتایا کہ موبائل چارج کرتا ہوں پھر واٹس ایپ چلاتا ہوں۔۔لڑکی نے پوچھا بور نہیں ہوتے اس کام سے۔۔ بتایا ،جی بڑی بوریت ہوجاتی ہے۔۔لڑکی نے پوچھا پھر کیا کرتے ہیں؟ پھر اسے بتایا کہ پھر واٹس ایپ چلاتا ہوں۔۔لڑکی کا پھر میسیج آیا، اففففف، بندہ تنگ بھی تو آجاتا ہے ایک ہی کام کرکرکے۔۔کہا جی بالکل تنگ آجاتا ہوں،لڑکی نے سوال کیا پھر کیا کرتے ہیں؟ برجستہ کہا، واٹس ایپ چلالیتا ہوں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زندگی کی راہ میں آنے والے ہر پتھر کو ٹھوکر مارنے کی بجائے اس سے بچ کر نکل جانا کہیں بہتر ہے۔ پاوْں زخمی نہیں ہوتے ، سفر آسان ہو جاتا ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.