نیوٹرل تو صرف جانور ہوتا ہے

50

وزیراعظم عمران خان نے بھرے مجمع میں یہ بات کی ہے کہ نیوٹرل تو صرف جانور ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان سے کہا ہے کہ وہ اچھائی اور بدی میں سے ایک کا انتخاب کرے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ بات سوچ سمجھ کر کی ہے یا اس کا کوئی اور مفہوم ہے اس کے بارے میں وہی بہتر بتا سکتے ہیں مگر بات کا بتنگڑ بنانے والے کہتے ہیں کہ عمران خان نے یہ بات ایک آئینی ادارے کے حوالے سے کی ہے۔ ویسے وہ کون سا جانور ہے جو نیوٹرل ہوتا ہے وزیراعظم اس جلسے میں اس پر بھی روشنی ڈال دیتے تو بہت سے لوگوں کی رہنمائی ہو جاتی۔ لوگ آج ان کے شیرو کی بات کرتے ہیں کہ کیا وہ نیوٹرل ہے۔ لوئیر دیر کا جلسہ ان کی سیاسی زندگی کا ایک اہم جلسہ بنے گا اور ان کی سیاست پر اس کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
تحریک عدم اعتماد کے آنے کے بعد عمران خان اور ان کی ٹیم خاصی جارحانہ موڈ میں نظر آ رہی ہے۔ اپنے آپ کو بچانے اور اس تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی اقدام سے زیادہ انتظامی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ لاجز میں جو ڈرامہ ہوا اور راتوں رات جس طرح انصار الاسلام کے لوگوں کو رہا کیا گیا وہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حکومت پوری قوت سے اپوزیشن کو کچلنے کے لیے آزاد نہیں ہے۔ وزیراعظم اور ان کی ٹیم کو یہ یاد ہونا چاہیے کہ بہت سا وقت بیت چکا ہے اور جو لوگ انہیں لے کر آئے تھے وہ ان سے حساب بھی مانگیں گے۔ اعصاب کہ اس جنگ میں جیت یا ہار کا فیصلہ چند دنوں میں ہونے جا رہا ہے۔
وزیراعظم نے نیوٹرل کا حوالہ کیوں دیا تھا اس کی ایک وجہ ہے اور وہ وجہ اپوزیشن کا یہ بیان اور یقین ہے کہ فوج اب غیر جانبدار ہے اور وہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام کرانے کے لیے حکومت کی سہولت کار بننے کے لیے تیار نہیں ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ اپوزیشن اس بات کو تسلیم کر رہی ہے کہ فوج نیوٹرل یا غیر جانبدار ہے۔ عمران خان کے اس بیان سے ایک روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس ہوئی تھی جس میں انہوں نے واضح الفاظ میں یہ کہا تھا کہ فوج سیاست میں ملوث نہیں ہو گی اور جو لوگ فوج پر الزام لگاتے ہیں ان سے ثبوت
مانگے جائیں۔ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ حکومت اس تاثر کو مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہے کہ فوج ان کے ساتھ ہے اور وہ ایک پیج پر ہیں۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اور فضل الرحمٰن کی سوچ فوج کو کنٹرول کرنا ہے۔ پاکستان کے آئین کی سکیم کے تحت فوج حکومت وقت کے ساتھ ہوتی ہے، اگر فوج حکومت کے ساتھ نہیں ہوتی تو یہ پاکستان کی آئینی سکیم کے برعکس ہوگا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کے مطابق ’فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں، اس سلسلے میں افواہیں نہ پھیلائی جائیں اور نہ ہی غیر ضروری بحث کی جائے۔‘ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ’میں درخواست کروں گا کہ اس سلسلے میں غیر ضروری افواہیں نہ پھیلائی جائیں اور نہ ہی غیر ضروری بحث کی جائے، یہی ہم سب کے لیے اچھا ہے۔ جو لوگ مداخلت کی بات کرتے ہیں، اس کا جواب بھی ان ہی سے مانگا جائے، ان سے ثبوت مانگا جائے اور اگر کوئی بات کرتا ہے تو اس کے پاس اس کے ثبوت بھی ہوں گے۔’
لوئیر دیر میں ہونے والے اس جلسہ میں انہوں نے آرمی چیف سے ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کا بھی ذکر کیا کہ جنرل باجوہ نے کہا ہے کہ وہ اپنی تقریروں میں مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل اور نواز شریف کو بھگوڑہ نہ کہیں۔ عمران خان نے اسی جلسہ میں بار بار ڈیزل کا لفظ استعمال کیا جیسا کہ وہ کسی کو چڑا رہے ہوں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ فوج کے سربراہ نے وزیراعظم سے کہا کہ وہ اپنے جلسوں میں بد زبانی نہ کریں اور وزیراعظم نے بار بار وہی الفاظ دہرا کر جس سے انہیں منع کیا گیا تھا فوج کو کیا پیغام دیا ہے۔ کیا یہ اقدام کر کے انہوں نے خود فوج کو بے توقیر کرنے کی کوشش نہیں کی؟ یا وہ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش میں مصروف تھے کہ سیاسی معاملات میں فوج اب بھی ان کے ساتھ ہے اور سیاسی جلسوں میں استعمال ہونے والی زبان پر بھی فوج مداخلت کرتی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں فوج کی مداخلت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اب اگر فوج یہ اعلان کر رہی ہے کہ وہ سیاست سے لاتعلق ہے تو حکومت اس بات کو تسلیم کرنے سے کیوں گریزاں ہے۔ حکومت مضبوط ہے تو اس موقع کا فائدہ اٹھائے اور فوج کو اپنی پیشہ وارانہ خدمات میں سہولت کاری مہیا کرے اور حکومت اس تاثر کو ختم کرے کہ وہ بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہے۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ ایم کیو ایم بھی ان کی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور اپنے عمل سے ثابت کر رہی ہے کہ وہ آزادانہ حیثیت سے یہ فیصلہ کریں گے کہ عدم اعتماد کی تحریک میں کس کا ساتھ دینا ہے۔ اسی طرح اختر مینگل نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب بات دنوں کی نہیں گھنٹوں کی رہ گئی ہے۔ ق لیگ بھی نالاں ہے اور طارق بشیر چیمہ کا دعوی ہے کہ عمران خان کی چوہدری شجاعت سے ملاقات میں ق لیگ سے حمایت نہیں مانگی گئی۔ ایم کیو ایم بھی یہی کہہ رہی ہے تو پھر عمران خان یہ ملاقاتیں کیوں کر رہے ہیں؟
اسلام آباد سے بڑی بڑی خبریں آ رہی ہیں، کسی شوکاز نوٹس کی بات بھی ہو رہی ہے، وزیراعظم سے کون کہاں مل رہا ہے اس پر بھی تبصرے ہو رہے ہیں، ٹیلی فون کالوں پر بھی گفتگو ہو رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان تو پہلے ہی یہ پریس کانفرنس کر چکی ہیں کہ پشاور سے ٹیلی فون کالیں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم اور ان کی ٹیم فوج کو سیاست میں گھسیٹے کی کوشش نہ کرے۔ ملک کا سیاسی درجہ حرارت تیزی سے اوپر جا رہا ہے اور یہ وزیراعظم عمران خان کے بیانات کی روشنی میں ہو رہا ہے اور رہی سہی کسر وزیر داخلہ شیخ رشید پوری کر رہے ہیں جو پریس کانفرنسیں کر کے کہہ رہے ہیں کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور راتوں رات گرفتار ہونے والے رہا کرنا پڑ گئے۔ جو قانون کو ہاتھ میں لے گا اس کو نہیں چھوڑوں گا کے بیانات جاری کرنے والوں سے یہ پوچھا جا رہا ہے کہ یہ آپ ہی تھے جو اسلام آباد میں جلاؤ گھیراؤ کے نعرے لگاتے تھے۔ عمران خان بھی کہتے ہیں کہ عدم اعتماد کے بعد میں آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف کو نہیں چھوڑوں گا۔ ساڑھے تین برس تو ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے اب باقی کے دنوں میں کیا ہو گا۔
عمران خان صاحب کرکٹ میں نیوٹرل ایمپائر لانے کا کریڈٹ آپ لیتے ہیں، الیکشن کمیشن سے کہتے ہیں کہ وہ نیوٹرل ہو، ججوں پر ریفرنس بناتے ہیں کہ یہ نیوٹرل نہیں ہیں اور یوکرائینی اور روس کی جنگ میں نیوٹرل رہنے کا اعلان کرتے ہیں اور آج عدم اعتماد میں نیوٹرل رہنے والوں کو جانور قرار دیتے ہیں۔ ذرا تم ہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.